Tuesday, April 30
Shadow

لاحاصل تمنا/ تحریر: مدیحہ نعیم

مدیحہ نعیم

میری شادی نہیں، جنازہ اُٹھایا جا رہا ہے

اِک مُردے کو کسی اور سے بیاہا جا رہا ہے

ڈال کر میرے گلے میں پھولوں کی مالا

میری قبر پر شامیانہ سجایا جا رہا ہے

خوشیاں تو رخصت ہوگئیں کب کی مجھ سے

میں ہوں خوش نصیب یہ بتایا جا رہا ہے

رُخ پہ ڈال کے میرےآنسوؤں کا گھونگھٹ

میری ہی موت کو میرے سامنے لایا جا رہا ہے

ہوں کسی کی بیٹی اور کسی کی ہوں بہن ماہی!

بس اِسی بات کا آج صلہ پایا جا رہا ہے

از قلم: ماہی                                                 

زبردستی کی شادی  ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔جس سے زندہ اور صیحح سلامت  نکل کر آنا کسی کے بس کی بات نہیں۔اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آئندہ بھی لکھا جاتا رہے گا۔دکھ تو اس بات کا ہے   پسند کا حق حاصل ہونے کے باوجود  بیٹیوں کو یہ حق نہیں دیا جاتا۔ یہ تو ہر گھر کی کہانی ہے بلکہ گھر گھر کی کہانی ہے  جہاں معصوم اور پیاری بیٹیوں کو اپنی عزت و غیرت کے نام پر  مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔شادی ایک ایسا  بندھن ہے جس کا تعلق دل کی خوشی سے ہوتا ہے۔جب دل  پر غم کے بادل چھاجائیں تو  سانسیں بھی بوجھل محسوس ہونے لگتی ہیں۔شادی ایک ذمہ داری ہے جس کا بوجھ  ساری زندگی بیٹی کو اٹھانا پڑتا ہے۔اس بوجھ کو اٹھاتے  اٹھاتے  وہ کب خود کو کھو دیتی ہے  اس بات کا پتا تب چلتا ہے جب  خود کو قبر کی اندھیر نگری میں دفن کر  چکی ہوتی ہے۔یہ ہمارے معاشرے کابہت بڑا المیہ ہے شادی کے نام پر بیٹی کو زندہ درگور کر دیا جاتا ہے۔زبردستی کی شادی میں  ایک بیٹی اپنا سب کچھ کھو دیتی ہے۔وہ خواب  جو  اپنی آنکھوں میں سنجو کے رکھتی ہے  ایک ہی لمحے میں   دفن کر دیتی ہے۔یہ  ہر لڑکی کی زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے۔

لکھاری کا تعارف


مدیحہ نعیم  افسانہ  اور مضمون نگار ہیں وہ گورنمنٹ صادق کالج ویمن یونیورسٹی بہاولپور میں اردو کی لیکچرار ہیں اس مضمون میں انھیں سلور میڈل بھی مل چکاہے۔وہ    ماہی کے ادبی نام سے شاعری بھی کرتی ہیں۔ ان کے مضامین، افسانے اور  سفر نامے ملکی جرائد اور اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ادب میں شاعری، افسانہ اور مضمون نگاری پسند ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact