Sunday, May 5
Shadow

اردو

دو قومی نظریہ کی حقانیت کا فیصلہ کن دن |  ڈاکٹرساجد خاکوانی

دو قومی نظریہ کی حقانیت کا فیصلہ کن دن |  ڈاکٹرساجد خاکوانی

آرٹیکل
ڈاکٹرساجد خاکوانی معلوم تاریخ میں سترہ رمضان المبارک 2ھجری میدان بدر وہ پہلا موقع تھا جب دوقومی نظریہ وجودمیں آیا تھا۔اس دن ایک ہی نسل،ایک ہی قوم،ایک ہی زبان،ایک ہی علاقے اور ایک ہی تہذیب و تمدن و معاشرت و مشترک تاریخ رکھنے والے صرف نظریےکی بنیاد پر باہم برسر پیکار تھے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عقیدہ کی قوت رگوں میں بہنے والے خون سے کہیں زیادہ طاقتورہوتی ہے۔اسی عقیدے نے حضرت نوح علیہ السلام اوران کے بیٹے کے درمیان حدفاصل قائم کردی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کے والد کے درمیان بھی دوقومیتوں کا تعین کرنے والا فیصلہ کن عنصر عقیدہ ہی تھا۔ ماضی قریب میں یہ نظریہ انیسویں صدی کےوسط میں فکری طاقت کے ساتھ ایک بار قرطاس تاریخ پر نمودارہوااور اس کی گونج شرق و غرب میں سنائی دینے لگی۔1917ءمیں مذہب کا اختلاف ہوتے ہوئے روس کی ریاستیں باہم ایک ہو گئیں تویہ عقیدہ ہزیمت کا شکار ہوگیا۔1947ء میں...
تیسرا (افسانہ )|تحریر: رفعت رفیق

تیسرا (افسانہ )|تحریر: رفعت رفیق

افسانے
تحریر: رفعت رفیق اس جدید طرز کی آبادی کے عین وسط میں بنائے گئے اس خوبصورت  پارک میں روزانہ شام کو چہل قدمی کرنا ایک عرصے سے میرا معمول ہے۔شام کا وقت،غروب ہوتا  ہوا سورج،گھونسلوں کو لوٹتے پرندے،آسمان پہ پھیلی شفق  ،یہ سب چیزیں مجھے اپنی اور کھینچتی  ہیں اور ایک نامعلوم سی اداسی کی کیفیت  مجھے اپنی روح میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ سمینٹ اور کنکریٹ  سے انسانوں کے اپنے لئے بنائے بندی خانوں میں میرا دم گھٹتا ہے  ۔اور میں سانس لینے کوبے ساختہ فطرت کی قربت میں کھنچا چلا آتا ہوں۔زندگی کی ہمہ ہمی  سے چرا کر میں چند لمحے اپنے ساتھ گزارتاہوں اور قطرہ قطرہ سکون اپنے اندر اترتا محسوس کرتا ہوں۔کائنات میں پھیلے عمیق سکوت  کی تال پر میری روح محو رقص ہوتی ہے۔یوں اگلے دن کارزار حیات میں اترنے کے لئے تازہ دم ہوجاتا ہوں۔ لیکن آج طبعیت کچھ مضمحل سی ہے۔اس ل...
ریحانہ رانا کی کتاب “مکافاتِ عمل ” پر تبصرہ/ عبدالحفیظ شاہد

ریحانہ رانا کی کتاب “مکافاتِ عمل ” پر تبصرہ/ عبدالحفیظ شاہد

تبصرے
عبدالحفیظ شاہد۔دورِحاضرنفع سوچنےاور نفع کمانے کا دور ہے۔ ایک سے سواور سو سے کئی سو اور پھرلاکھوں اورکروڑوں کا یہ کھیل کبھی ختم نہیں ہوتا۔لوگوں کی زندگیاں اس بے مقصد  کھیل میں گزر جاتی ہیں۔ پتا اس وقت چلتا ہے جب انسان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا اور وہ تہی دامن رہ جاتا ہے۔لیکن اس دنیا میں سب لوگ ایک جیسے بھی نہیں  ہوتے  ۔سب لوگ لالچ کی ڈور سے بندھے نہیں ہوتےکیونکہ کچھ لوگوں نے مشکلات کے باوجود  اپنی زندگی پھولوں کی طرح گزاری ہوتی ہے۔جن  کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے ، اپنے کردار ،افعال اور خوبصورت لفظوں سے اس دنیا کے لوگوں کو نفع نقصان  کا شعور دینا۔اپنے  ساتھ بیتے ہوئے سب واقعات کو لگی لپٹی کے بغیراس معاشرے کو سونپ دینا ۔ یہ سوچے بغیر کہ جانے معاشرے کے لوگ ان واقعات کو کس رنگ میں لیں گے۔ریحانہ رانا کو آج کون نہیں جانتا۔ان کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے...
نصرت نسیم کی کتاب حاشیہ خیال پر ایک نظر/ تبصرہ نگار: پروفیسر محمد اکبر خان

نصرت نسیم کی کتاب حاشیہ خیال پر ایک نظر/ تبصرہ نگار: پروفیسر محمد اکبر خان

تبصرے
کتاب :    حاشیہ خیال تبصرہ :   محمد اکبر خانمصنفہ:    نصرت نسیمموضوع :   تبصرہ کتبقیمت :       400 روپےصفحات:    144 ناشر: شعیب سنز بک پبلشرز سوات (پاکستان)تقسیم کار:  پریس فار پیس فاونڈیشنتبصرہ نویسی ایک مستقل فن ہے.یہ حقیقت تو ہم سب جانتے ہیں کہ فی زمانہ کتب بینی تقریباً آخری سانسیں لے رہی ہے ایسے میں وہ لوگ جو نہ صرف کتاب پڑھتے ہیں بلکہ اس پر تبصرہ بھی لکھتے ہیں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔کتاب پر تبصرہ لکھنا یا اس کے بارے میں اپنے تاثرات کو ضبط تحریر میں لانا ایک مشکل معرکہ سر کرنے سے کسی صورت کم نہیں۔.گویم مشکل وگرنہ گویم مشکلوالا معاملہ ہے۔ بعض مقامات پر میری نظر سے گزرا ہے کہ تبصرہ نگاری بھی ایک قسم کا تنقیدی عمل ہے البتہ میری دانست میں یہ بات  کلی طور پر درست نہیں بلکہ میری ناقص رائے ہے کہ تبصرہ...
احمد رضا انصاری چھوٹی عمر  اور بڑا کام/تبصرہ نگار : قانتہ رابعہ

احمد رضا انصاری چھوٹی عمر  اور بڑا کام/تبصرہ نگار : قانتہ رابعہ

تبصرے
قانتہ رابعہسوشل میڈیا پر بسا اوقات ایسی چیزوں کی اتنی زیادہ تشہیر کی گئی ہوتی ہے کہ جب تک وہ ہاتھ میں نہ آجائیں قرار نہیں اتا لیکن یہ بے قرار اس وقت پچھتاوے میں بدل جاتا ہے جب اس چیز کو دیکھ نہ لیا جائے کتب ہوں تو ان کا مطالعہ نہ کر لیا جائے۔ان کتابوں کے چند صفحات کے مطالعہ سے ہی اونچی دکان پھیکا پکوان جیسے محاورے ذہن میں دھمال ڈالتے ہیں ایسی کتب دیکھنے کیا سونگھنے  کے قابل بھی نہیں ہوتیںلیکن اسی سوشل میڈیا پر ایسی چیزوں کا بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ دسترس میں ہوتی ہیں تو حیرت اور رشک کے ملے جلے جذبات سے دل و دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ اگر یہ کتاب میرے مطالعے میں نہ ہوتی تو میں اس اس عمدہ کتاب سے لاعلم رہتی اور روح کو پیاسا ہی رہنے دیتی۔جی احمد رضا انصاری جسے میں نے اس سے قبل نہیں پڑھا تھالیکن پریس فار پیس اور محترم بھائی پروفیسر ظفر اقبال صاحب کی آدب دوستی کے طفیل نادر کتب کے نسخے موصول ہ...
سفر اور کتاب ۔ تبصرہ نگار: ادیبہ انور یونان

سفر اور کتاب ۔ تبصرہ نگار: ادیبہ انور یونان

تبصرے
تبصرہ: ادیبہ انور یونانکتاب : بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیںلکھاری: نصرت نسیماشاعتی ادارہ: پریس فار پیس یو کےیورپ سے پاکستان کا سفر ہمیشہ طویل ہوتا ہے اور اس میں فلائٹ تبدیل کا انتظار لازمی ہوتا ہے۔  ایسے میں اگر بچے ساتھ سفر نہ کر رہے ہوں۔ تو کتاب کا ساتھ بہترین رہتا ہے۔والد صاحب کی خرابی طبعیت کی وجہ سے عجلت میں پاکستان کے لیے نکلی تو پریشانی میں کتاب ساتھ لینے کا خیال نہ آیا۔دو ہفتے کا یہ سفر مسلسل ہسپتال میں گزرا۔ دن رات ابو جی کے پاس ٹھہرنا تھا۔ تو نصرت نسیم صاحبہ کی کتاب ” بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“  امی سے کہہ کر گھر سے منگوا لی۔یہ وہ کتاب ہے جو پہلے یو کے سے یونان پارسل ہوئی ۔ مگر مجھے موصول نہ  ہو  سکی۔پھر پاکستان والے گھر میں ادارے کی طرف سے ارسال کی گئی۔ لیکن جب پاکستان سے یونان کتابیں منگوائیں۔ تو یہ کتاب پھر بھی یونان نہ پہنچ سکی۔اللہ رب العالمین کے اپنے منصوبے ہوتے ہیں۔ اور حکمتی...
آزاد نظم : سبین علی

آزاد نظم : سبین علی

شاعری
لکھنا اور باغبانی کرنا ایک جیسا کام ہےکئی بار  میری کتابوں میں سےسبزہ پھوٹ پڑتا ہےپھول لہلانے لگتے ہیںاور کئی بار مٹی میں لگیڈرائی سینیا کی قلم سےنظم امڈ آتی ہےپوٹونیا اور یوفوربیا کے پھولکہانی میں جا سموتے ہیںاور پرانی کتاب کے ورق پلٹتےہار سنگھار کے نارنجی پھول قرطاس پرمہکنے لگتے ہیںان کہانیوں میں وہ  کالی چڑیاگھونسا بناتی ہےجسے کوئی روشندانپناہ نہیں دیتاکبھی کبھی نظم آنسوؤں میں ڈھل جاتی  ہےگویا باڑ کے کناروں سےمٹی کو سیراب کرتا پانیچپکے سے بہہ جائےاور سبز گھاس پرشبنم مسکانے لگےفطرت میری کاوش سے بڑھ کرمہربان ہوتی ہے  مجھ پرآدھے ادھورے لفظوںاور سوکھی ٹہنیوں کوروئیدگی بخشتی ہےجا بجا لِلًی کے پھولسربسجود ہوتے ہیں ...
افسانہ: آگہی تحریر: تابندہ شاہد

افسانہ: آگہی تحریر: تابندہ شاہد

افسانے
تابندہ شاہدچھٹی تراویح کا سلام پھیرتے ہی وہ سب سے پچھلی صف میں چلی گئی۔ اگلی تراویح کے لئے جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ اس کے لئے قیام کرنا دوبھر ہو گیا۔ وہ دوزانو بیٹھ کر تلاوت سننے لگی۔ نیند کے جھونکے بری طرح ستا رہے تھے۔ دماغ میں کھچڑی پک رہی تھی۔ وہ تلاوت کی طرف متوجہ ہونے کی پوری کوشش کرتی۔۔۔ عربی کا کوئی کوئی لفظ مانوس بھی لگتا اور پھر اسے معلوم ہی نہ ہوتا کہ کب ذہنی رو بہک گئی۔ اسی کشمکش میں دو رکعتیں مکمل ہوئیں۔ اِدھر حافظ صاحب نے سلام پھیرا اُدھر وہ خاموشی سے اٹھ گئی۔ دونوں بچے ساتھ والے کمرے میں کھیل رہے تھے۔۔۔۔ 6 سالہ ثاقب اور 4 سالہ زینب۔۔۔۔۔ اس نے دونوں کو لیا اور گھر آ گئی۔" کوئی بات نہیں، آٹھ تراویح تو پڑھ لیں نا ۔۔" اس نے خود تسلی دی۔                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   منیزہ آٹھ سال پہلے بیاہ کر اس محلے میں آئی تھی۔ گھر میں دونوں میاں بیوی کے علاوہ بوڑھی س...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact