تبصرہ نگار:انگبین عُروج۔کراچی

مہوش اسد شیخ ایک جانی پہچانی مُصنفہ ہیں جنہوں نے اپنی ادبی زندگی کا سفر تو سوشل میڈیا سے شروع کیا لیکن ہمت و حوصلے سے آگے بڑھتی چلی گئیں اور اب تک مُصنفہ کی مختلف اصناف میں تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔مہوش کے اسلوبِ بیان کا اندازہ انکی تحاریر سے لگانا مشکل ہے۔میں نے چونکہ بیشتر مصنفہ کے لکھے مِزاح اور بچوں کی کہانیوں کا مطالعہ کیا ہے تو میں انہیں شوخ و چنچل اسلوب کی مُصنفہ گردانتی تھی کیونکہ انکی بیشتر تحاریر شوخی و شرارت سے بھرپور ہوتی ہیں۔

انکی تصانیف کی بات کی جائے تو بچوں کے لئے شوخی و شرارت،سسپنس اور تجسس سے بھرپور کہانیوں کا مجموعہ “پروفیسر بونگسٹائن” کافی مقبول رہا۔ان کا معاشرتی و اصلاحی ناول “مہر النساء” جسے ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی اور اب افسانوی مجموعہ “آئینے کے پار” متاثر کن کاوش ہے۔ اس کی وجہ مُصنفہ کی سماجی و معاشرتی مسائل پر گہری نظر اور انکا عمیق مشاہدہ ہے۔ایک کے بعد ایک مختلف پہلو پر لکھے گئے کاٹ دار افسانے جنہیں پڑھ کر لگتا ہے کہ مصنفہ نے معاشرے کی دکھتی رگوں کو اس عمدگی سے افسانوں کی صورت میں بیان کیا ہے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔

کہنے کو یہ محض 128 صفحات کا مختصر افسانوی مجموعہ ہے لیکن اس میں جن مسائل کو موضوع بنا کر قارئین کی نذر کیا گیا ہے،وہ انتہائی اچھوتے اور اَن چھوۓ موضوعات ہیں۔جن پر بات کرنے کی سعی مصنفین عموماً کم ہی کرتے ہیں۔

مہوش اسد شیخ نے ہمیشہ کی طرح افسانوں کی ابتداء اپنی حسِ مزاح کو تقویت بخشتے ہوئے ہلکے پھلکے شرارتی انداز میں کی ہے۔جیسے جیسے قاری کتاب میں مستغرق ہوتا جاتا ہے،ویسے ویسے افسانے نہایت دل گرفتہ و جاں سوز ہوتے چلے جاتے ہیں۔

“میری کشتی وہیں ڈوبی” میں ماضی میں رہ جانے والے لوگوں کی داستان ہے جو سب کچھ حاصل کر کے بھی حال اور مستقبل میں جینا نہیں چاہتے بلکہ ماضی کو ہی اپنی شناخت بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔

اعتبار کا موسم” اعتماد کی دھجیاں بکھیرتے روئیے اور شخصیت کی توڑ پھوڑ کا سبب بننے والے ناقابلِ اعتبار رشتوں کا کھوکھلا وجود دکھاتا ہے،جنہیں ہم اپنا سب کچھ مان بیٹھے ہوتے ہیں۔

“ذرا سوچئے گا” میں اپنے حلال رشتوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنی فطری خواہشات کی تسکین کا سامان حرام ذرائع سے کرنے کے جتن کرتے دکھایا گیا ہے۔لیکن سکون تو محض حلال اور پاکیزہ رشتوں کی آغوش میں ہی میسر آتا ہے۔

“توبہ کے نفل” معاشرے کی بیشتر ایسی ناشکری خواتین کا فسانہ ہے جو رب کی عطا کردہ بیش بہا نعمتوں کا احسان تو ادا نہیں کرتیں بلکہ دوسروں کی چمکتی دمکتی زندگیاں ہی انہیں ہمیشہ اپنی طرف راغب کر کے ناشکری و حسد جیسے گناہ میں مبتلا کیے رکھتی ہیں۔

“ناانصافی” میں والدین کا اپنی ہی اولاد میں بچپن سے فرق کرنے کی غلطی کی نشاندہی کی گئی ہے،جب والدین شروع سے ہی کسی ایک اولاد کو دوسری پر ضرورت سے زیادہ فوقیت دیتے ہیں اور نتیجاً ایک دن بہت بڑا نقصان اٹھاتے ہیں۔

“آخری ورق” میں مصنفہ اپنے مستقبل کا تخیل کربناک الفاظ میں بیان فرماتی ہیں کہ مایہ ناز لکھاری ہو یا مشہور و معروف ناول نگار،زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انسان نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتا ہے یا ذہنی طور پر اس قدر تھک جاتا ہے کہ پھر اس کے لیے کوئی بھی چیز معنی نہیں رکھتی اُسے صرف ذہنی سکون کی طلب ہوتی ہے اور دنیا کو اُس سے محض مادیت پرستی اور غرض و غایت کا لگاؤ ہوتا ہے۔

“چور رستہ” ایک اہم مسئلے کی طرف سوچنے پر مجبور کرتا ہے،جسکے بارے میں شاید ہم شاذ و نادر ہی سوچتے ہیں۔ہم ایک دوسرے کے بنیادی حقوق بھی پورے نہ کر کے اسکے حالات اس نہج پر پہنچا دیتے ہیں کہ اسکی عزتِ نفس اس حد تک مجروح ہو جاتی ہے کہ وہ انسان کسی چور راستے کے ڈریعے اپنے حقوق لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

 افسانہ “ناولوں کی دنیا” یقیناً ان لوگوں کے لیے لکھا گیا ہے جو ناول پڑھ پڑھ کر خود کو انہی ناولوں کا ایک کردار تصور کرنے لگتے ہیں،وہ فینٹیسی کی ایسی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں کہ اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر جاتے ہیں کہ دنیا دراصل کانٹوں کا بستر ہے۔

“آئینے کے پار” فسانہ ہے ان بدنصیب لڑکیوں کا جو کسی مجبوری کی تحت ایک عمر لوگوں کی خدمت گزاری میں گزار دیتی ہیں اور پیا دیس سدھار نہیں پاتیں،وہ تخیل کی اپنی ایک الگ دنیا بسا لیتی ہیں جہاں کوئی نہ کوئی شہزادہ انہیں لینے آنے والا ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ سب کچھ آئینے کے پار ہوتا ہے۔

“آہ” معاشرہ کی ایک ایسی تلخ حقیقت ہے کہ جب ہم بے حسی کو اپنا وطیرہ بنا لیتے ہیں اور اپنی ذات میں فرعون بن بیٹھتے ہیں۔جب ہمیں کسی کی دل آزاری کرنا،اسے چوٹ پہنچانا،کسی کے دل پر پر طنز و تیشنع کے نشتر پیوست کرنا کوئی برائی ہی محسوس نہیں ہوتی۔تب ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مظلوم کی ایک آہ بھی جنگل کے جنگل جلا سکتی ہے اور اللہ مظلوم کے دل سے نکلی آہ خوب جانتا ہے۔

“دوسرا رُخ” معاشرے کی جڑوں میں پنپتی ایک بیماری کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں برا گمان قائم کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے۔ہم ایک اچھے انسان کو بھی اپنی ذہنی پسماندگی کی نذر کر دیتے ہیں۔تصویر کا دوسرا رُخ ہم میں سے کوئی دیکھنا ہی نہیں چاہتا۔جو کچھ ہم اخذ کر رہے ہوتے ہیں اسی کو حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔

۔”آخری سورج”

ایسے نوجوان کا فسانہ جس نے ٹوٹ کر محبت کی اور پھر محبت میں بے وفائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔کبھی کبھی انسان کی زندگی اس تھکے ہوۓ جواری کی سی ہو جاتی ہے جس نے زندگی بھر کی تمام جمع پونجی جوئےمیں ہار دی ہو اور اُسے سواۓ پچھتاوے کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا ہو۔

۔”سُونا آنگن”

اولاد کی نعمت کائنات کی تمام نعمتوں سے برتر ہے،ایک عورت کے لیے اسکی خالی کوکھ اور

 سُونی گود سے زیادہ اذیت ناک کچھ نہیں ہوتا۔جب تک ایک عورت ماں کے رتبے پر فائز نہیں ہو جاتی،خود کو نامکمل تصور کرتی ہے۔لیکن کچھ بھی ہو قدرت کے آگے انسان بے بس ہے اور بیشک اس میں رب کی مصلحت پوشیدہ ہے کہ وہ کس بندے کو کتنا نوازتا ہے۔یہ افسانہ بھی ایک عورت کی خالی کوکھ کے کرب کو بیان کر رہا ہے۔اپنے گھر کے سونے آنگن میں بہار کے پھول کھلامے کے لیے نہ چاہتے ہوۓ جس نے ایک ماں سے اسکے لعل کو جدا کر دیا اور ضمیر کو ایسی گہری نیند سلائی کہ اپنے ہی وعدے سے انحراف کر بیٹھی۔

۔”روزِ محشر”

یہ افسانہ ایک لکھاری کے خالص جذبات کی غمازی کرتا ہوا محسوس ہوا۔جسمیں مُصنفہ نے رب کی ودیعت کردہ قلم کی طاقت کو نیکی و ہدایت کی روشنی پھیلانے اور قلم کے ذریعے جہاد کرنے کا صِلہ روزِ محشر گناہوں کا پلڑہ ہلکا اور نیکیوں کا پلڑہ بھاری ہونے کی صورت میں اور قلم کے مثبت استعمال کو اُخروی نجات کا سبب بننے کی طرف بے حد خوبصورتی سے نشاندہی کی ہے۔

۔”توکّل”

حضرتِ انسان ہمیشہ سے ایسا بے صبرہ اور ناشکرہ واقع ہوا ہے کہ دنیاوی نعمتوں کے حصول کی خاطر جلدبازی سے کام لیتا ہے اور بجاۓ “توکل الی اللہ” کی رسی کو تھامنے،کسی کام میں تاخیر کو رب کی حکمت سمجھنے کے وہ اپنی منطق چلاتا ہے اور نتیجتاً ہمیشہ خسارہ ہی اٹھاتا ہے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact