افسانہ نگار : نسترن احسن فتیحی
مبصرہ : شمع اختر انصاری
پریس فار پیس سے شائع شدہ اس کتاب میں بھی ادارے کا معیار برقرار رکھا گیا ہے ۔عمدہ کاغذ اور بہترین پروف ریڈنگ نے کتاب ہاتھ میں لیتے ہی جی خوش کردیا ۔
سرورق عنوان کے عین مطابق ہے جہاں چند اجسام پریشان کن حالت میں دکھائے گئے ہیں ۔
نسترن احسن فتیحی صاحبہ بھارتی قلم کار ہیں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرچکی ہیں جس میں ایم اے اردو میں انہیں گولڈ میڈل سے نوازاگیا ہے ڈگریوں کا یہ سفر ” نسترن ” صاحبہ کی علمی حیثیت کو ظاہر کرتا ہے تو ان کے افسانے صلاحیتوں کے عکاس ہیں ۔
” بین کرتی آوازیں” میں انیس افسانے اور گیارہ افسانچے شامل ہیں اور یوں کل ملا کر قاری کو تیس مختلف موضوعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔
” نسترن احسن فتیحی ” کی تحاریر کے عنوانات ملاحظہ کیجیے ۔
افسانے
 بین کرتی آواز میں
 صندوق
 انگلی کی پور پر گھومتا چاند

  یہ عجیب عورتیں

  ہٹلر
کشمکش
– پرچھائیں
–  ڈائل ٹون
 نسل
-خوشبو
ادراک

تشنگی
– ایڈ ہیسو (Adhesive)
وہ نقش زیر آب ہے
کال بیلیا
– منو
– سادہ اوراق
ووٹ کا ویٹ
 دمڑی کی دال
افسانچے

-الیکٹرو ڈائنا مک آلہ پر رکھے خواب
-پوت کے پاؤں
-خود کلامی
– مجذوب
-تیزاب
-ٹھوکر
– نہ ہوتا گر جدا تن سے
 -فطری عمل
– ترحم
۔ نئی عبارت (میٹا فکشن)
– پرواہ کسے ہے
_____
بین کرتی آوازیں جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے دکھ ، کتب اور گھٹن کا اظہار ہے ۔
اس مجموعے میں شامل مختلف کردار ، مختلف ماحول میں ذہنی اور روحانی کرب میں مبتلا افراد کی عکاسی کرتے ہیں ۔
پہلا افسانہ ” بین کرتی آوازیں ” کے عنوان سے ہے ۔۔دہلی میں رہنے والی سارا جو پہلے ہی روح کی آبلہ پائی کی اذیت جھیل رہی ہے کس مشکل سے خود کو دنیا کی جانب راغب کرسکی تھی اور پھر اس کے اپنوں نے ایک بار پھر اس کی حق کے لیئے اٹھائی گئی آواز کو دبا کر اسے تکلیف کی شدتوں میں دھکیل دیا ۔ سارا کی زندگی ” بین کرتی آوازیں ” کی علامت ہے۔
” صندوق ” کھولنے والی تکان زدہ عورت ماضی میں جھانکتی ہے تو “ہولی پربنائے گئے مال پوئے کا ذائقہ آج تک زبان پر ہے ” یاد کرتی ہے اور پھر حال سے مستقبل کے سفر میں اسے یاد رہتا ہے تو صرف “وہ خستہ حال عورت وہاں کیوں بیٹھی ہے ۔۔وہ عورت کون ہے ؟”۔ اففف اپنے وجود کے اندھیاروں سے ابھرنے کی ایک اور صدا بھی کس طرح خاموشی میں ڈوب گئی۔
___
نسترن صاحبہ کے  تمام افسانوں کا مرکز عورت ہے زندگی کی شاہراہ پر تیزی سے بھاگتی عورت ، آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی عورت ، بھیڑ میں پھنسی عورت ، اپنے بستر پر تنہا پڑی عورت ، ہمت ہارتی عورت ، بہادری دکھاتی عورت ، وقت کو للکارتی عورت  ، پسپائی اختیار کرتی عورت ، اپنے دکھ چھپا کر مسکراتی ہوئی عورت ، اپنے کرب میں کلبلاتی ہوئی عورت۔۔۔۔۔
کائنات کے مسائل میں پریشان ہوتی ہوئی  عورت چیختی نہیں ، پکارتی نہیں صدا دے دے کر اپنے دکھوں کاتماشہ نہیں لگاتی بے بسی کی انتہا پر ہر اذیت کو خاموشی سے سہے جاتی ہے لیکن یہ سہن اتنااسان بھی نہیں ہے دل کسمانے لگتا ہے اور روح تلملانے لگتی ہے اندر ہی اندر لاوا ابلتا رہتا ہے ،  ابلتا رہتا ہے اور ابلتا رہتا ہے ۔۔۔۔
یہ عورت کی برداشت اور ضبط کو آزماتا رہتا ہے ” نسترن احسن فتیحی ” کی عورت برداشت اور ضبط کی عورت ہے خود پر بیتے گئے سانحات کا بدلہ کسی اور سے نہیں لیتی
“ڈائل ٹون” کی ساہنی ہو یا ” منو” کی امی یا ” کال بیلیا” کی نرملا یا “ووٹ کاویٹ ” کرتی کوئی عمررسیدہ عورت ۔۔ان سب کو اپنا کام کرنے سے مطلب ہے۔۔ اس کے لیئے طریقہ  کار صحیح ہویا غلط ۔۔بس کام مکمل یونس چاہیے ۔یہ عورتیں صرف اپنے کام سے کام رکھتی ہیں دوسرے کے معاملے میں دخل نہیں دیتیں ، کسی کی زندگی میں تامل جھانک نہیں کرتیں ۔اپنے زخم کریدتی ہیں اپنے دور چھپاتی ہیں اور ان کی روحوں کے عذاب درد۔ بھرے لہجے میں بین کرتے ہیں۔
مجھے بحیثیت قاری ” پرواہ کسے ہے ” کی آشا کے کردار  نے متاثر کیا جو ہر حادثے کے بعد ایک مشینی روبوٹ کی مانند جذبات اور تکلیف سے بے حسی برتتے ہوئے اپنی زمہ داریاں پوری کرنے اٹھ کھڑی ہوتی ہے وہ یہ  نہیں دیکھتی کہ اس ٹھوکر سے چوٹ کتنی گہری لگی ہے ، درد کتنا زیادہ ہورہا ہے ۔۔اسے حالات نے اپنے وجود اور اپنی خواہشات قربان کرنا سکھا دیا ہے ۔
شاید یہ ہی عورت کااصل روپ ہے ۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact