تاثرات : قانتہ رابعہ
ناول اور افسانے میں بہت سی چیزیں متفرق ہیں تو بہت سی یکساں بھی ہوتی ہیں افسانہ میں اپ کو دریا کو کوزے میں بند کرنا ہوتا ہے اور اس خوبی سے کہ افسانے کا مرکزی خیال یا پیغام بہت دلچسپ انداز میں مہارت کے ساتھ قاری تک پہنچ جائے جبکہ ناول میں یہی چیز کرداروں کی طویل گفتگو ،اردگرد کے مناظر ،واقعات کی مدد سے پیش کی جاتی ہے۔
اگر افسانہ قلیل مدت اور کم صفحات میں قاری کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو بلاشبہ اس افسانہ نگار کو ذخیرہ الفاظ ،قوت مشاہدہ ،پر دسترس ہوگی لیکن ناول میں یہ اس سے بھی مشکل کام ہے گو صفحات لامحدود ،الفاظ کی کوئی قید نہی،کرداروں کے مکالمے بھلے جتنے بھی طویل ہوں لیکن جہاں کہیں ناول نگار کا قلم ادھر ادھر ہوا ،قاری کی توجہ تحریر سے بھٹک گئی سمجھئیے اب یہ ناول دوبارہ اس قاری کے ہاتھوں میں جانا ناممکن ہے۔
ناول نگار کو اول تا اخر قاری کی توجہ ناول ہی کی طرف مرکوز کروا نا ہے اور یہ ایک کڑا معیار ہوتا ہے کسی بھی ناول نگار کے لیے۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کردار کم ہیں یا زیادہ، ایک وقت میں ایک کہانی چل رہی یے یا تین ،بس توجہ اسی پر فوکس رہے ،اس لحاظ سے ماہم جاوید کا ناول انتخاب بہترین ہے بھلے مرکزی خیال صدیوں پرانا ہے عشق مجازی سے عشق حقیقی تک ،کہانی اسی انداز میں اتفاق در اتفاق ،مزید حسن اتفاق سے مزین ہو ،صفحہ پلٹنے سے پہلے ہی پتہ چل جائے کہ اگلے صفحات میں کیا ہونے والا ہے ،اس کے باوجود ناول دلچسپ ہے ۔
کردار ،محض کاغذی کردار نہیں بلکہ ارد گرد بولتے ،چلتے پھرتے ،محسوس ہوتے ہیں ،شمعون کا کردار ہو یا رمشاء کا ،خالدہ بیگم ہوں یا قاری عبداللہ ،مقدس کا دل کی تہوں سے ہونے والا اپنے کزن شاذل سے طوفانی عشق ہو یا عینی کا کردار سب کردار اپنی جگہ پر مکمل ہیں ،دلچسپ اور جاندار ہیں ۔
بہت ساری جگہوں پر تو ایسی غضب کے روح پرور ،معرفت کی سیڑھیوں پر انگلی پکڑ کر چڑھانے والی گفتگو ہے کہ دل چاہتا ہے بار بار پڑھی جائے ۔
عمر کی آخری منزل پر پہنچ جانے والوں جے لیے عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر روز ازل سے روز آخر تک کا موضوع ہے لیکن آج کے فتنوں کے دور میں یہ ناول ان کچے ذہنوں کے لیے ایک ضرورت ہے جنہیں ٹی وی ڈرامے ،فلمیں اور ناول دنیااور اس کے گورکھ دھندوں میں الجھا کر نجات اور سکون مرد اور عورت کی محبت میں دیتے ہیں ان جے نزدیک کہانی ایک ہی ہے مرد اور عورت کی محبت اسے چاہنا اور حاصل کر لینا۔۔دنیا کی حقیقت اور حیثیت سے انہیں کوئی سروکار۔ ہیں ناول کے مرکزی کردار مقدس اور شاذل کی طرح نظر بس مرد اور عورت کی یکجائی پر ہے ۔
لیکن جس میں نقطے برابر بھی خیر ہو اللہ اس کو ضائع نہیں کرتا چن لیتا ہے راہ ہدایت پر لے آتا ہے ان پر معرفت کے دروازے کھول ہی دیتا ہے جیسے مقدس پر کھول دئے شاذل کی محبت کچھ مہربان ہستیوں کی وجہ سے اللہ کی محبت میں تبدیل ہو گئی،
یہاں تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا راہ الفت میں اٹھے قدم سب سے مشکل مگر حیات آفریں ہوتے ہیں ۔
بڑے بڑے قطب ابدال اس مقام تک پہنچنے سے پہلے خاردار راستوں میں الجھے ، تابڑ توڑ مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ،بڑے بڑے اولیاء کا پتا پانی ہوا پھر کہیں عارفین میں شامل ہوئے۔
مقدس تو ایک عام سی شکل کی میڈیکل کی طالبہ تھی جسے خالق کے بارے علم تھا نہ مخلوقات کے بارے میں۔
اپنی اور کزن منگیتر کی محبت کے نشے کی مٹھاس آزمائشوں سے کیسے کڑواہٹ میں بدلی ،کہیں پھوپھو کا کردار دلجوئی کرتا ہے تو کہیں فارس کی باتیں ڈھارس بندھاتی ہیں مدد کے لیے خوابوں میں قاری عبد اللہ کا حقیقی کردار ،الغرض آج کی بچیوں کے لیے ناول اچھا ہے سبق آموز ہے بس انگریزی کا استعمال ضرورت سے زائد ہے اس پر نظر ثانی ہونا چاہئیے تھی ۔
مجموعی طور پر یہ عشق مجازی سے عشق حقیقی کی کہانی ہے جو اس موضوع سے دلچسپی رکھتا ہے اس کے لیے یہ دلچسپی کا باعث بن سکتا ہے ۔
میں پریس فار پیس فاؤنڈیشن اور پروفیسر ظفر اقبال صاحب کے علاوہ مصنفہ ماہم جاوید کو اس ناول کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتی ہوں
قانتہ رابعہ 

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact