مبصرہ: پروفیسر خالدہ پروین
انتہائی قابلِ احترام ساتھی پروفیسر فوزیہ سلطانہ صاحبہ کا خلوص و محبت میں لپٹا ہوا تحفہ                                        ( افسانوی مجموعہ)
 “حقیقت اور افسانہ”
موصول ہوا ۔ کتاب کو دیکھ کر دل میں جنم لینے والے خوشی کے احساسات و جذبات کا الفاظ میں کامل بیان ممکن نہیں ۔ سب سے پہلے مصنفہ کو ان کی تخلیقی کاوش کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک پیش کرتی ہوں ۔ مزید دعا ہے کہ خیالات واظہار کی روانی کو تقویت بخشتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ کامیابیوں کا سلسلہ دراز فرمائے۔
      “حقیقت اور افسانہ” ۔۔۔۔۔ تعارف و تبصرہ
       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“حقیقت اور افسانہ” ایک ایسا افسانوی مجموعہ ہے جس میں زندگی بکھری دکھائی دیتی ہے۔  یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی ہمارے ارد گرد پھیلی  کہانیوں اور کرداروں کا مجموعہ ہے جنھیں مصنفہ نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے افسانے کا قالب عطا کیا ہے ۔
  رومانوی اور کلاسیکی انداز کے سرِ ورق کا حامل افسانوی مجموعہ “حقیقت اور افسانہ” اپنی عمدہ طباعت اور بہترین کاغذ کی بنا پر بغیر پڑھے قاری کو اپنی جانب راغب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس مجموعے میں 21 حقیقتیں افسانے کا روپ دھارتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان افسانوں کے موضوعات کا تنوع ہمیں نا صرف کتاب سے جوڑے رکھتا ہے بلکہ ایک ایسی تخیلاتی دُنیا میں لے جاتا ہے جس میں ہمیں زندگی چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔
“میں نے سیکھ لیا جینا۔”۔۔۔ مقابلے کی دوڑ میں اپنی ذات سے دوری کی داستان سناتا ہے  تو”میرا فرض”۔۔۔۔ بھائی کی بہن سے محبت ، اپنائیت اور احساسِ ذمہ داری کا خوب صورت اظہار ہے۔
“پرانا سوٹ” ۔۔۔۔ سسکتی خواہشات کی داستان ہے۔ “سموکر”۔۔۔۔ ایک کامیاب مرد کی ہوشیاری اور عقلمندی کی داستان ہے جبکہ “بدلہ” ۔۔۔۔ میں عورت کے  انتقام کی عبرت انگیز کہانی ہے۔
“پتن”۔۔۔۔ صرف ایک افسانہ نہیں بلکہ مصنفہ نے بھمبر پتن کے ایک دور، ایک تہذیب اور اس کی چہل پہل کو محفوظ کر تے ہوئے تاریخی سرمائے کا روپ عطا کر دیا ہے۔
“بند کھڑکی” ، “اپنے اپنے غم” ۔۔۔۔ جذبات اور احساسات کے چھپے ہوئے گوشوں کو بےنقاب کرتے نظر آتے ہیں۔
“چندا بھابھی” ، “ٹھیکیدار” اور “نانی”  جیسے کرداری افسانوں میں موجود چندا کا کردار اپنی خودغرض فطرت کی بنا پر قاری کو توبہ توبہ کرنے ،  ٹھیکیدار کا  گنجلک شخصیت کا حامل کردار   قاری کوسوچ وفکر پر ابھارنے  اور نانی کی شخصیت کا بھولپن لبوں پہ مسکراہٹ لاتے ہوئے قاری کےدل و دماغ پر ایسے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں جنھیں جلد بھول پانا ممکن نہیں۔
“دوستی” ایسا افسانہ ہے جسے پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے بلکہ وہ زمانہ نظروں کے سامنے فلم کی صورت میں چلنے لگا جب مصنفہ کے بھائی کی زلزلے میں شہادت واقع ہوئی تھی۔
“مذاق”۔۔۔۔۔  تجسس سے بھر پور افسانچہ جس کا  غیر متوقع اختتام ہنسنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
“انکوائری” کا سسپنس، سے بھرپور اسلوب اور اختتامی پیغام قابلِ تعریف ہے۔
“لالہ اسلم کی شادی”۔۔۔۔ ایک ایسا افسانہ جس میں رونما ہونے والا واقعہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ بےشک انسان قسمت کے سامنے بے بس ہے۔

وقت انسان کو بہت جلد سنجیدہ، سمجھدار اور ذمہ دار بنا دیتا ہے کی عمدہ عکاسی “چھوٹو” افسانے میں ملتی ہے۔
حقیقت اور افسانہ میں مصنفہ کا اسلوب اگرچہ ایک کہانی گو کا ہے لیکن افسانوی رنگ قاری کو تخیل کی دنیا میں لے جانے کا باعث بنتا ہے۔ خیالات اور بیان کی روانی قابلِ تعریف ہے۔  افسانوں میں پیش کی گئی کہانیاں اور کردار ہمیں اپنے ارد گرد چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تمام افسانے فوزیہ سلطانہ صاحبہ کے عمیق مشاہدے، حساس سوچ ، سہل اور خوب صورت اسلوب بیان کے عکاس ہیں۔
اللٌٰه تعالٰی مصنفہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہوئے مزید عروج اور کامیابیاں عطا فرمائے

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact