تاثرات: پروفیسر خالدہ پروین
فنکار خداداد صلاحیت کا مالک ہوتا ہے۔ ودیعت کردہ  صلاحیت ہی اس کی پہچان اور انفرادیت کا باعث ٹھہرتی ہے۔ ادب کی دنیا میں اگر ایک فنکار کسی خاص صنف کو اختیار کرتا ہے تو اس کی منفرد صلاحیت اسے نمایاں مقام عطا کرتی ہے  ۔ یہی منفرد صلاحیت اسلوبِ بیان میں جھلکتے ہوئے مخصوص اسلوب کا روپ اختیار کر جاتی ہے۔ افسانوی ادب کی دنیا میں قاری مختلف رنگوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ ان رنگوں میں علامتی، فلسفیانہ، بیانیہ اور رومانوی، رنگ نمایاں ہیں۔
چودہ
افسانوی مجموعوں اور  کالموں کے دو مجموعوں ،  بچوں کی  کہانیوں کے 18 مجموعوں اور ایک سفر نامہ حج کی  خالق  قانتہ رابعہ صاحبہ کا نام  ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ جہاں ان کی تخلیقات پر بی۔ایس اور ایم۔ ایس کی سطح پر مقالات تحریر ہو چکے ہیں وہیں متعدد ادبی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا۔ جن میں اکادمی ادبیات اطفال ایوارڈ ، پریس فار پیس ایوارڈ ، چلڈرن لٹریری سوسائٹی ایوارڈ، ایف جے گولڈ میڈل، حریم ادب بیسٹ رائٹر ایوارڈ   کے علاوہ متعدد ادبی  تنظیموں سے بھی  ایوارڈ  وصول کرنے کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔
تئیس
افسانوں پر مشتمل قانتہ رابعہ صاحبہ کا افسانوی مجموعہ “دل پیار کی بستی” ادبی سرمائے میں گراں قدر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔
قانتہ رابعہ کے افسانوں کے عنوانات ۔۔۔۔آدم بُو، ٹپکا ہوا آم، قحط الرجال، گمان دل کے، قساوت قلبی، رازِ کن فکاں، پیمانِ نو، دل پیار کی بستی، عشق سیاہ پوش، بری عورت،  بے بس، ادھورے خواب، دوراہا وغیرہ۔۔۔۔ اپنے اندر ایک کشش اور تجسّس سموئے ہوئے نا صرف قاری کو قرأت پر مائل کرتے ہیں بلکہ تحریر کے ساتھ اس طرح باندھ لیتے ہیں کہ قاری کتاب مکمل کیے بغیر  کتاب سے دوری نہیں اختیار کر سکتا۔

افسانوں کے موضوعات معاشرے کے مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے قاری کے لیے لمحہ فکریہ کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ موضوعات کا تنوع مصنف کے عمیق مشاہدے اور رواں اسلوب بیان پر قدرت کا مظہر ہے۔

“دل پیار کی بستی”  میں خاندانی سیاست، رشتوں میں تنگ دلی، غلط فہمی پر مبنی رویوں، محبت کی بنیاد پر کی گئی نصیحتوں، قدرت کی حکمت، احساس سے عاری نام نہاد وضع داری، بزرگوں کی سادگی، خود پسندانہ سوچ اور اس کے اثرات، دل کی تنگی اس کی تباہ کاریاں، جاہلانہ سوچ اور رویے، شیطانی سوچ سے چھٹکارا، رشتوں کی قدروقیمت ، استحصالی رویہ ، منافقانہ طرزِ عمل، منفی سوچ، مکافاتِ عمل اور روحانی ارتقاء کے مدارج  جیسے موضوعات کا انتخاب اور تنوع عمیق مشاہدے کا غماز ہے۔ افسانوں میں مصنفہ کا مثبت اندازِ فکر اور  اور مذہبی تعلیمات کے مطابق پیغام ذہنی وقلبی اطمینان سے ہمکنار کر دیتا ہے۔

افسانے اس حقیقت کے عکاس ہیں کہ مصنفہ کہانی کی بُنت کے فن میں مہارت رکھتی ہیں۔ بات سے بات نکالنے کا انداز  اگر افسانے کو روانی سے متصف کر دیتا ہے تو سہل زبان اور شستہ انداز  افسانے کی تفہیم میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ کرداروں کی زبان پر عبور اور مؤثر بیانیہ اسلوب تحریر کو “سہلِ ممتنع” کی خوبی سے متصف کرتے ہیں۔ افسانہ پڑھتے ہوئے گمان گزرتا ہے کہ کہانی بیان مشکل نہیں ہے لیکن بیان کرنا چاہیں تو ناممکن ہو جائے۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے قانتہ رابعہ کا افسانوی مجموعہ عصرحاضر میں منفرد انداز اور آواز کی حیثیت رکھتا ہے۔
مصنفہ قانتہ صاحبہ کی تحریر کو عمدہ اور دیدہ زیب طباعت نے مزید دلکشی عطا کی ہے۔ قانتہ صاحبہ کو عمدہ تخلیقی کاوش اور ادارہ پریس فار پیس کو نئی کتاب کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارک ہو۔
اللّٰه تعالیٰ کامیابی اور عروج کا سلسلہ دراز فرمائے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact