-اسماعیل محمد
ریاض نامہ ۔۔// ۔۔ کوئی ریاض اپنی داستان حیات لکھے تو میرے خیال میں اس کا نام “ریاضت” سے بہتر نہیں ہو سکتا،
مگر برلن/جرمنی کے شیخ ریاض صاحب نے اپنی داستان کا نام “ریاض نامہ” رکھا ہے،
اقبال کی نظم “ساقی نامہ” اور قدرت اللہ شہاب کی سوانح عمری “شہاب نامہ” کے بعد نامے زیادہ پھبتے نہیں،خاص کر “شہاب نامہ” بوہڑ کا ایک ایسا گھنا درخت ہے کہ اس کے سائے میں کسی دوسرے نامے کی نشوونما ممکن نہیں رہی،
پھر بھی اب بات کرتے ہیں، شیخ ریاض صاحب کی سوانح عمری “ریاض نامہ” کی،اس کتاب کی تقریب رونمائی دو تین ماہ پہلے ہی ہوئی تھی، مگر اس دن کام کی وجہ سے میں اس میں شریک نہ ہو پایا تھا،اس کے بعد شیخ صاحب پاکستان چلے گئے، اب خیر سے واپس آئے ہیں تو انہوں نے کتاب عنایت فرمائی،
ماشاءاللہ اب تو شیخ صاحب داڑھی سے بھی آراستہ اور مزین یا لیس اور مسلح ہو چکے ہیں۔
شیخ صاحب نے کتاب کے آغاز میں بشری رحمان کا ایک جملہ لکھا ہے،
“جو لوگ دلوں میں یادوں کی امانت رکھتے ہیں وہ کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔”
یہ جملہ پڑھ کر میں شیخ صاحب کی دور اندیشی کا بھی قائل ہو گیا اور سوانح عمری لکھنے کی ٹھوس وجہ بھی سامنے آ گئی،
اصل میں یہ کتاب نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں، اس کتاب میں ابتدائی عمر کے واقعات،پاکستان سے نکلنے اور جرمنی پہنچنے کے درمیانی وقفے کی تفصیلات،چند کالمز،یونان کے شہر ایتھنز اور ایک جزیرے کے حوالے سے سفر نامہ اور دو تین افسانے بھی شامل ہیں،
شیخ صاحب نے باغبانپورہ لاہور میں آنکھ کھولی اور 1966 میں وطن عزیز کو خیر آباد کہا اور پھر ایران، عراق،بیروت اور یوگوسلاویہ وغیرہ کی خاک چھانتے ہوئے جرمنی پہنچے تھے،
جرمنی کے مختلف شہروں میں قیام اور کام کرتے رہے اور پھر پچھلے 45 سال سے برلن میں مقیم ہیں، کتاب میں ایک جگہ شیخ صاحب نے برلن کے شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے،اس تذکرے میں شیخ صاحب نے مجھ مسکین کا نام بھی لکھا اور میرے کتابچے “دکھ” کا خاص کر ذکر کیا،
شیخ صاحب برلن کے مشہور ادبی سلسلے “اردو انجمن برلن” کے بھی طویل عرصے سے رکن ہیں،
شیخ صاحب کا پاکستان سے جرمنی پہنچنے تک کا سارا سفر زمینی ہی رہا،انہیں ہوائی جہاز کی ہوا بھی نہیں لگی تھی، اس کی وجہ ایک واقعہ تھا،میرے خیال میں جس کی انہیں سزا ملی تھی، شیخ صاحب کتاب میں لکھتے ہیں ۔
“ایک دفعہ میں اپنے والد کے ساتھ سائیکل پر سوار اپنے گاوں جا رہا تھا تو میں نے ان کو اوپر ہوائی جہاز دیکھنے کو کہا،جس سے وہ سائیکل پر قابو نہ رکھ سکے اور سائیکل جھاڑیوں میں گھس گئی” ۔۔
یہ واقعہ پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں تصوراتی فلم سی چلی تو مجھے ہنسی آ گئی،
شیخ ریاض صاحب نے ایک بھرپور، مصروف اور کامیاب زندگی بسر کی ہے،وہ ایک مطمئن اور شانت آدمی ہیں، انسان دوست اور انسانیت کے مبلغ ہیں،
برلن کے تقریبا سارے ہی ادیب اور شاعر صاحب کتاب ہیں، مگر شیخ صاحب برلن میں پہلے پاکستانی ہیں،جنہوں نے سوانح عمری لکھی،
اس کتاب کی اشاعت پر شیخ صاحب کو بہت مبارک باد اور ان کی صحت و سلامتی کے لئے ڈھیروں دعائیں،