مبصرہ: اقراء یونس
الفاظ جو الہام ہوتے ہیں جو دل سے نکل کر دل تک پہنچتے ہیں۔ جن کی اڑان خوشبو جیسی ہوتی ہے جو دیوار کی اوٹ سے بھی پہنچ جاتی ہے۔
جو بارش کے قطروں جیسے شفاف اور سرسبز وادیوں میں چلتی ہواؤں جیسے تازہ ہوتے ہیں،
شفا چودھری کے الہامی الفاظ کے نام
گونگے لمحے جس کا سرورق شاندار ہے اور انتساب خوبصورت انداز میں بابا اور اماں کے نام
جس میں سولہ افسانے اور 17 مختصر افسانچے ہیں۔
.
افسانے میں نے کئی کئی بار پڑھے اور ان کا لطف اٹھایا۔ مجھے یقین ہے میں اگر ہر بار ان پہ تبصرہ لکھتی تو نئے رنگ سامنے آتے کیوں کہ ایک ہی افسانے میں اتنے رنگ ہیں کہ ہمیشہ نیا رنگ ابھر کر سامنے آتا ہے. اپنی فہم کے مطابق چند تحاریر کا تبصرہ کر پائی۔
دشت حیات
ایک عورت کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ کسی کی زندگی کا ان چاہا ساتھ بننا ہوتا ہے اسی کرب کے گرد بنا گیا پرسوز افسانہ
شفا کے افسانے کی عورت محبتوں سے گندھی لیکن مضبوط عورت ہے جو سر اٹھا کر چلنا جانتی ہے جو حالات کے پیدا کردہ سانپوں کا سر کچلنا جانتی ہے
جو گرائے جانے کے بعد اٹھ کھڑا ہونا جانتی ہے۔
دشت حیات میں کئی پہلوؤں کو سامنے رکھا گیا جیسا کہ لکھتی ہیں :
“حمیدے کے چہرے پر پہلی رات سے اس نے صرف ایک بے زاری ہی دیکھی تھی. “
یہاں یہ سوال چیختا ہوا محسوس ہوا کہ ایسے مرد کو کیا ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ کسی عورت کی زندگی تباہ کرنے کو اسے بیاہ لایا؟
جسے اپنی بیوی سے غرض ہے نہ اپنے بچے سے، جو اپنی ہی اولاد سے جان چھڑانا چاہتا ہے، جس کی زندگی نت نئی عورتوں سے رنگین ہے، جو بیوی پہ خرچ کرنے کو بوجھ سمجھتا ہے۔
تو شادی کے نام پہ یہ سودا کیوں؟
زبیدہ کے کردار میں ایسی کئی عورتوں کا دکھ بولتا ہے جنہیں شادی کے نام پہ سولی پہ لٹکا دیا جاتا ہے۔
زبیدہ کے کردار کے ذریعہ یہ واضح کیا گیا کہ عورت ہر روپ میں موم ہو سکتی ہے لیکن ماں کے روپ میں نہیں۔
افسانے کا اختتام سوچنے پہ مجبور کرتا ہے کہ کیا اس سولی سے رہائی کا یہی طریقہ ہے؟
پنکھ
زندگی کے ہزار رنگ ہیں ہر رنگ ہی انسان کو کچھ نہ کچھ عطا کرتا ہے انہی رنگوں کو لیے ہوئے خوبصورت افسانہ پنکھ
جس کی شروعات پہلے دور کے ہر رنگ سے کی گئی. بچپن کا دور جب آگہی اور حقیقتیں لاابالی کی چادر اوڑھے ہوتی ہیں اور جب وقت یہ چارد سرکانے لگتا ہے تو نازک دل ڈر کے سہم جاتے ہیں۔
شفا نے اس ساری کیفیت کو عمدہ طریقے سے بیان کر کے قاری کے لیے پہلا حصار باندھا اسی حصار کے زیر اثر جب افسانہ پڑھا جائے تو کردار کا خوف سامنے آتا ہے جو دیکھا جائے تو ایک فطری عمل ہے. یہاں قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ شفا کردار کی نفسیات کو جانتی ہیں نازک دلوں پہ جب آگہی کی پہلی ضرب لگے تو خوف جنم لیتا ہے جو مختلف شکلیں بدلتا ہے اس بات پہ مہر یہ الفاظ لکھ کر لگا دی:
“اسے دیواروں سے بھی ڈر لگنے لگا تھا۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ بلند دیواریں اس کی جانب بڑھ رہی ہیں اور جب وہ صبح جاگنے کی کوشش کرے گی تو کسی دیوار کے نیچے دب کر مر چکی ہو گی.“
خوف کو اس شاندار انداز میں بیان کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کھلی فضا میں اڑنے والوں کے لیے دیواروں سے بڑھ کر کیا خوف ہو سکتا ہے؟
افسانہ آگے بڑھتا ہے خوف سے بے خوفی کے سفر کی طرف اور نہایت اہم نکتہ سامنے آتا خوف کو شکست دیے جانے کا.
“زندگی کی آغوش میں نئی زندگی……“
یہاں ہمیں گر تو مل گیا کہ خوف کو بھگایا کیسے جائے گا لیکن نئی زندگی کے جنم کا محرک نظر نہیں آیا جس سے تشنگی کا احساس ہوا بالکل ایسے ہی جیسے باہر کا دروازہ دکھا دیا جائے لیکن راستہ قاری کے اپنے ذہن پہ چھوڑ دیا جائے.
نئی اور پرانی زندگی دونوں میں بہت مماثلت ہونے کے باوجود بہت بڑا فرق دکھایا گیا. خوف کی دیواروں کی قید اور آزادی کی چاہ
دونوں کی کشمکش کو پراثر انداز میں بیان کیا گیا. خوف کی زنجیریں توڑنے کی کوشش کامیاب ہو کر جب بات کنویں کی چابی تک آتی ہے تو لطف دوبالا ہو جاتا ہے
آزادی کی جدوجہد کی ایک مکمل داستان جس میں سبھی راز کھول کے رکھ دیے گئے۔ سبھی راہ بتا دیے گئے۔
گونگے لمحے
اپنے نام کی طرح منفرد افسانہ. شفا چودھری کی تحاریر کو جو چیز منفرد بناتی ہے وہ ان کے نت نئے مناظر اور استعارے ہیں۔
ایک افسانے میں چھپی ہزاروں کہانیاں، ایک منظر سے جھانکتے کئی مناظر. حیرتوں کا جہاں انسان کو وہاں لے جاتا ہے جہاں رہ جاتی ہے تو فقط بے خودی
جو باقی ہر احساس کو ختم کر دیتی ہے اسی احساس کو قید کیے ہوئے ہے یہ شاندار افسانہ جس کو پڑھنا شروع کریں تو حیران کر دینے والے الفاظ کا سحر طاری ہو جاتا ہے. ایک بلبلے کو اس انداز میں پیش کیا گیا کہ قاری بھی اس کا قیدی ہو کر سفر پر روانہ ہو گیاجلی ہوئی لڑکی کی کہانی کو نہ کھولتے ہوئے بھی کھول دیا گیا. جب لکھا گیا:
“یار یہ بندہ بہت خوش نصیب ہے. “
” لگتا تو نہیں. “
“ہوں لگتا تو نہیں ہے پھر نجانے اس نیلی آنکھوں والی کو اس میں کیا نظر آیا. “
اس مکالمے میں چھپی بھیانک کہانی وہی سمجھ سکتا ہے جو انسانی نفسیات کو سمجھتا ہو۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کیا ایسے رویوں کی آگ سے اپنا ہی گھر جلا ڈالنا چاہیے؟
وہ کون سی حفاظتی دیوار کھڑی کرنی چاہیے جس سے اس آگ کے اثرات سے بچا جائے؟
افسانہ لکھاری کو اس کے فرائض کی انجام دہی کا سبق دیتے ہوئے اپنے انجام کو پہنچا لیکن اختتام سے پہلے سوچ کے کئی در وا کر گیا۔
راز
راز میں چھپا ایسا راز ہے جو ہر کوئی جاننا چاہتا ہے لیکن اس کو پانے میں بہت مسافت طے کرنی پڑتی ہے.
کردار کا درد اس ایک فقرے میں سمٹ آیا:
“میں اڑنا چاہتی تھی لیکن میرے پر نوچ لیے گئے. “
شفا چودھری کے افسانوں کی منفرد بات یہ ہے کہ وہ مختلف کرداروں پہ الزام نہیں رکھتیں. وہ شکوہ تو کرتی ہیں لیکن ان شکوؤں میں کردار واضح نہیں ہوتا. یہ چیز ان کے کرداروں کو آفاقی کردار بناتی ہے. زخم تو نظر آتے ہیں لیکن زخم دینے والوں کے بھیانک چہرے نظر نہیں آتے۔
ایسا ہی یہ افسانہ کہ جس میں لڑکی کی رہنمائی روشنی سے ہوتی ہے۔بے لوث ساتھ روشنی ہے
کرم روشنی ہے
اپنی پہچان روشنی ہے
اور جو گھپ اندھیرے میں اسے پا لیتا ہے وہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے
کتھارسس ایسا عمل ہے جو انسان کے اندر کے اندھیروں کو باہر نکال کر سامنے رکھ دیتا ہے اور سوال وہ کھڑکی ہے جہاں سے راہ ملتا ہے ایسی ہی کئی کھڑکیاں اس افسانے میں کھولی گئیں. جب کہتی ہیں:
“خود سے بھاگ کر کہاں جاؤ گی؟ “
اس افسانے میں پوٹلی اور اس میں رکھی چیزوں کو جس انداز سے پیش کیا گیا وہ پڑھ کے بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
ہر اگلا منظر چونکنے پہ مجبور کرتا ہے کبھی مسکراہٹ کا مکھوٹا تو کبھی صحرا کا ذکر
کامیابی کے سفر کا راز جاننے کی ہمیشہ کوشش کی جاتی ہے اس افسانے نے وہ سارے راز کھول کے رکھ دیے.
روشنی کی پیروی کرتے ہوئے صحراؤں کا سفر کرنا اور سرابوں سے بچے رہنا
یہی تو راز ہے جس نے اپنی پہچان پا لی اس نے کامیابی پا لی۔.
بہترین اور عمدہ انداز جس کو جتنی بار بھی پڑھیں لطف کم نہ ہو گا۔.
خوف کا رقص
خوف جب رقص کرنے لگتا ہے تو پورا وجود اس رقص سے مسمار ہو جاتا ہے۔ انسان کی شخصیت کے تعمیری پہلوؤں کو دیمک چاٹ جاتی ہے۔ “خوف کا رقص“ بھی ایسے ہی دیمک زدہ انسان کی کہانی ہے۔
”میری آنکھوں میں دیکھو“
”میں نہیں دیکھ سکتا“
پہلا جملہ ہی دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے خوف کی حقیقت کھول دی گئی ہے۔
آنکھیں وہ آئینہ ہیں جن سے خوف منعکس ہوتا ہے اور بننے والا عکس سامنے والے آئینہ میں صاف اور واضح نظر آتا ہے۔
خوف جب رقص کرتا ہے تو شور پیدا کرتا ہے جس سے انسان خود کو کیسے بچاتا ہے دیکھیے شفا کے الفاظ:
”اس کے گرد رقص کرتے سیاہ ہیولے بھیانک ہنسی ہنستے اس پر آنکھیں گاڑے ہوئے تھے۔ اس نے تکیہ اٹھایا اور مسہری سے نیچے اتر آیا۔ اپنی پناہ گاہ میں آ کر وہ پرسکون ہو گیا۔ “
یہ پناہ گاہ کون سی تھی اور اس کے نفسیات پہ کیا اثرات تھے یہ سب آخر میں کھولا گیا ہے۔
لیکن پورے افسانچے کا نچوڑ مجھے یہی الفاظ لگے جو ناصرف کردار کی نفسیات سے جڑے ہیں بلکہ بہت سے نفسیاتی کرداروں کی عکاسی کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے معاشرتی بھول بھلیوں میں ہر نفسیاتی مسئلے کے شکار انسان نے ایسی پناہ گاہ کا انتخاب ضرور کر رکھا ہے۔ اسے جائے فرار بھی کہا جا سکتا ہے لیکن ایسی جگہ جس سے فرار بھی نفسیاتی بناتا ہے۔
انسان کی نفسیات پہ اپنی گرفت مضبوط کرتا ہوا افسانچہ۔
بہترین انداز سے لکھا گیا ہے۔کردار کے خوف اور خوف سے فرار کے لیے چنا گیا راہ جسے پناہ گاہ کہا گیا۔
وہ پناہ گاہ یا جائے فرار کون سی ہے یہ جاننے کے لیے پڑھیں۔
مسکراہٹ کا رنگ
اس افسانے کو ایک فقرے میں بند کروں تو وہ یہ ہو گا:
”پھول اگانے والے ہی خوشبو سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔“
فنکار بہت حساس ہوتے ہیں۔ ان کی یہ حساسیت اگر محض اپنے لیے ہو تو بے کار ہے۔
فنکار کی دنیا اس کے دل سے جڑی ہوتی ہے۔ لفظ اسے عطا ہوتے ہیں۔ اس عطا پہ اس کے اعمال کیسے اثرانداز ہوتے ہیں ”مسکراہٹ کا رنگ“ میں اسی کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ مشاہداتی ہے یہ شفا کے گہرے مشاہدے کی دلیل ہے۔
ایک فنکار اور قلمکار ہی جان سکتا ہے یہ الہامی کام ہے جو آپ ہر وقت یا کسی بھی وقت نہیں کر سکتے۔ کبھی کبھی انسان اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ اب ماہر ہے۔ جب چاہے جو چاہے بنا سکتا ہے، اسی زعم کو دیکھیں شفا نے کیسے بیان کیا:
”میں آج ہی اسے مکمل کر لوں گا۔ یہ بہت آسان موضوع ہے۔“
لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے تو وہ کہتا ہے:
”مجھے جگہ بدلنی چاہیے۔“
اس کی نفسیات کا الجھاؤ ۔ ضمیر اور سیاہ عمل کی کشمکش کو بہت عمدہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
سب سے بہترین جملہ جو اس پورے افسانے کا نچوڑ ہے:
”درد دو گے تو کیا مسکراہٹ اگا پاؤ گے؟ “
میں سمجھتی ہوں اس ایک جملے میں فنکاری کی طاقت کا راز چھپا ہے، اس کے لفظوں کا رنگ۔
عمل جب لفظوں کے برعکس ہو تو وہ نفرت اگاتا ہے محبت نہیں۔ اس کی تاثیر سے کانٹے اگتے ہیں گلاب نہیں۔ اس کے عیاں ہونے سے بیزاری پھیلتی ہے عقیدت نہیں۔
اس بہترین افسانے پر شفا کے لیے بہت داد
کوکلاچھپاکی:
ایک کھیل جو ماضی کا حصہ بن گیا اور جاتے جاتے اپنے ساتھ بندھی معصوم خواہشوں کو بھی لے گیا۔ شفا نے اس کھیل کو افسانچے میں بہترین انداز سے استعمال کیا ہے۔ ایک موضوع جس پہ لکھنا بے باکی تصور کیا جاتا ہے اور جس پہ لکھنا بہت اہم بھی ہے۔ اس اہمیت کو جب مصنف کا ذہن جان لیتا ہے تو راہ نکال لیتا ہے۔ شفا نے بھی یہ راہ بہت خوبصورت انداز سے نکالا۔ وقت کی دوڑ میں پتھر جمع کرنے کا ایسا مقابلہ ہے کہ جذبات کا قتل سرعام ہونے لگا ہے۔ کبھی یہ قتل شکل کے نام پہ ہوتا ہے، تو کبھی مالی حیثیت کمزور ہونے کے نام پہ لیکن ہائے یہ جذبات جو انھی کمزور لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوتے ہیں۔
شفا نے یہاں خواہش کو خوشبو کا نام دیا ہے اور یہی بات ان کے افسانوں کو منفرد بناتی کہ وہ ہمیشہ نئے پن کے ساتھ لفظوں کو پیش کرتی ہیں۔ خوشبو جو اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ جو مدہوش کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ جو انسان کے حواس کو جکڑ لیتی ہے۔ خوشبو جو کبھی یاد میں ڈھل جاتی ہے کبھی لطف میں اور کبھی بے چینی اور خوف میں۔
شفا نے خوشبو کے یہ سارے رنگ ہی عیاں کر دیے۔
دیکھیے خوشبو کا انوکھا رنگ
”جس کی پشت پر دوپٹے کی ضرب لگائی جائے گی اس کی شادی اب کے برس ہو جائے گی۔“
کہے ان کہے جذبات میں ہلچل مچاتا یہ کھیل شگون کی طرح ہوتا تھا۔ دل میں گدگدی ہونٹوں پہ میٹھی مسکان سجائے لڑکیاں سہانے خواب کھلی آنکھوں سے بنتے بنتے پیا گھر سدھار جاتیں جو پیچھے رہ جاتی اسے خوشبو جکڑ لیتی۔ یہ کھیل چاہے آج نہیں ہے لیکن جذبات آج بھی وہی ہیں خوشبو آج بھی وہی ہے ۔
بہت داد شفا اتنے بہترین افسانچے پہ کہ جس کا انجام سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اور جو معاشرے کی بہت سی کہانیوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
نخل امید
خوبصورت نام کے ساتھ بہترین افسانچہ۔ جو نئی راہ دکھاتے ہوئے سکھاتا ہے کہ بہت سی روایات کی زنجیریں شعور نے توڑ ڈالیں۔ ایسی ہی زنجیر شکن کہانی کو شفا نے نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے۔
ایک خوف جو لڑکیوں کی تعلیم کو لے کر والدین کے ذہنوں اور دلوں میں پایا جاتا تھا اس کا خاتمہ ایک دم نہیں ہوا بہت سے والدین نے خاندان سے بغاوت کر کے اپنی بیٹیوں کو ان کا حق دیا تو کسی نے اپنے ہی اصولوں سے بغاوت کی لیکن اس بغاوت کی بھی وجہ ہوتی ہے۔ مختلف واقعات میں یہ وجوہات مختلف ہیں شفا نے جو وجہ لکھی وہ بہت طاقت ور ہے۔ یہاں اگر دیکھا جائے تو شفا نے ایک ٹکراؤ کو بیان کیا ہے یا بغاوت کی وجہ بیان کی ہے۔ خواہش جب تناور درخت کی شکل اختیار کرتی ہے تو آندھی کے سامنے جھکنے کی بجائے تن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ تب فیصلے کی گھڑی ہوتی ہے۔
خواہش کے درخت اور فیصلے کی گھڑی کو شفا کیسے بیان کرتی ہیں دیکھیں
”سکینہ!“ ابا دھاڑے۔
”جج جی جی۔ وہ منی کہیں نہیں جاتی“ اماں نے اسے اپنی چادر میں چھپا لیا۔
”اس دن گھر کے درودیوار نے یکسر ایک الگ منظر دیکھا۔ ابا نے منی کی پیشانی چوم کر اسے کندھوں پر اٹھا لیا تھا۔ “
بیٹی کو کندھوں پر اٹھانا بھی میں استعارہ سمجھوں گی۔ یہ علامت ہے فیصلے کی مضبوطی کی، ڈٹ جانے کی، بیٹی کی خاطر خود سارا بوجھ برداشت کرنے کی۔
اس افسانچے کا اختتام خوبصورت پیغام کے ساتھ ہوتا ہے۔
گونگے لمحے ایک ایسی کتاب جو آپ کے ادبی ذوق کی تسکین کرتی ہے. جو آپ کو نئی سوچ عطا کرتی ہے، جو ذہن سازی کرتی ہے، جو ساتھ نبھانا سکھاتی ہے.
شفا چودھری کے لیے دعا کہ اللہ پاک ان کو سلامت رکھے اور کامیابیوں کے اس سفر میں ان کا نام آج، کل، اور آنے والے کل میں روشن رہے آمین ثم آمین