تبصرہ نگار :- فرح ناز فرح
“تعارف”
صبیح الحسن سے میرا تعارف ہماری مشترکہ مصنفین کی کتاب “طیف عکس “سے ہوا پہلی دفعہ ان کی کوئی تحریر اسی میں پڑھی اور اندازہ ہو گیا کہ اردو ادب میں ایک اور نام اپنی جگہ بنانے والا ہے ۔
کہتے ہیں کہ میڈیکل کے طلباء ادب سے دور رہتے ہیں وجہ شاید میڈیکل کی تعلیم بہت توجہ اور محنت طلب ہوتی ہے لیکن ان کی تحریروں نے ثابت کر دیا کہ صبیح جس کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں اسے پورے خلوص اور جذبے کے ساتھ مکمل اور مہارت سے کرتے ہیں
“تبصرہ “
ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر کہانیاں بکھری پڑی ہیں ہر اک کے دیکھنے اور بیان کرنے کا طریقہ مختلف ہو تا ہے ، سماجی ، سیاسی اور طبقاتی تقسیم غیر محسوس طریقے سے ہمارے معاشرے کی بنیادیں کمزور کر رہی ہے یہ جانتے سب ہیں مگر کہتے نہیں بس سہتے ہیں ، ادیب ان وجوہات اور رفتہ رفتہ بکھرتی روایات کو با بانگ دہل سب کے سامنے پیش کر دیتا ہے ۔
زیرِ مطالعہ کتاب “جہنم کا کیو بیکل نمبر 7” اپنے نام کی کی طرح منفرد افسانوں کا مجموعہ ہے جس میں کل 14افسانے اور 21افسانچے شامل ہیں کوئی کوئی افسانہ اتنا پیچیدہ اور عمیق گہرائیوں میں نہاں تھا کہ اس کے مقصد و معنی حاصل کرنے کے لئے عقل کے گھوڑے دوڑانے پڑے اور آخر وہ گوہر نایاب ڈھونڈ لیا جو مصنف نے تخیل کی سیپ میں چھپا کر رکھا تھا ، ہر کہانی ایک الگ ہی نوعیت رکھتی ہے کہیں ضمیر کی خلش تو کہیں ، نامکمل خواہشات کا احساس محرومیوں اور اآسودگی کی تلاش ہر کہانی میں آپ بھی کہیں ہیں بس غور کرنے کی ضرورت ہے
“بجازو “ کی مہک نے کتاب کو ایک ہی نشست میں پڑھنے پر مجبور کر دیا ، پھیکی چائے نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا صبیح کے افسانوں میں بار بار ادیب اور کردار ابھر کر آتے رہے جن کو بہت عمدہ طریقے سے پینٹ کیا “سراب “جیسی مغربی پس منظر میں لکھی گئی کہانی کے انجام سےخوشگوار سا احساس ہوا مفاد پرستوں کے منہ پر جس طرح تھپڑ مارا گیا اس کی گونج بہت دور تک سنی گئی ہو گی ،
سیاسی غلامی ، خود غرضی اور مفاد پرستی کانام ہے “بارش نہیں ہو رہی “اس کی عمدہ مثال ہے ،دانے ،دائرے انسانی المیہ اور رویوں کی کہانی ہے انسانی نفسیات ، ذہنی اذیت اور ان سے متعلق جانے کتنے مسائل ایسے ہیں جن کو ہم مسئلہ نہیں سمجھتے “ مکھی “ اسی مسئلے کو اجاگر کرتی ایک عمدہ تحریر ہے ، مصنف کا تخیل ،جدت و ندرت اور وسعت سے مالا مال ہے کہیں وہ اپنے کرداروں سے باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کہیں ننھے بچے کی خواہش میں بنجر زمین سے پھوٹنے والا پودا بن جاتے ہیں جو امید اور مشکلوں کو ہرا کر جینے کی امنگ پیدا کر دیتا ہے “ نوروز” کا جملہ “آگے سفر مشکل سہی ۔ ناممکن تو نہیں تھا “اس افسانہ کا حاصل ہے
صبیح کے افسانچوں اور محدود لفظوں میں بھی بڑے بڑے راز پنہاں ہیں صبیح کے افسانچے کہنے کو مختصر مگر معنویت کے اعتبار سے بہت گہرے اور وسیع سوچ کے عکاس ہیں ۔
بجازو” سے شروع ہونے والا مجموعہ روسو کے پھول پر اختتام پذیر ہوا ہر تحریر نے بہترین تاثر چھوڑا ، مصنف کا سلوب رواں ، منظر نگاری کمال ، جزئیات نگاری عمدہ رہی لفظوں کا چناؤ بہت آسان نہیں لیکن بہت ادبی رہا مجھے لگتا ہے صبیح کا بہت سا کام ابھی سامنے نہیں آیا مگر امید ہے کہ ان شاء اللہ بہت جلد پھر کوئی تخلیق صبیح الحسن کے نام کے ساتھ ادبی شہ پاروں میں جگمگا رہی ہو گی
سپاس گزار
شاعرہ و افسانہ نگار
فرح ناز فرح