Wednesday, May 1
Shadow

آئینے کے اس پار/تبصرہ: دانیال حسن چغتائی

دانیال حسن چغتائی

پنجاب کا صنعتی شہر فیصل آباد صنعتی ترقی کے حوالے سے تو جانا جاتا ہے لیکن زبان، رسم و رواج، علم و ادب کے حوالہ سے نام یہاں خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔  صنعتی پس منظر سے وابستہ اس خطہ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ اِسے نثر نگاری کے حوالے سے مہوش اسد شیخ کے رُوپ میں ایک تابندہ کردار میسر آگیا ہے۔
مہوش اسد شیخ نے پندرہ افسانوں پر مشتمل اور ایک اٹھائیس صفحات پر محیط اُردو افسانوں کا مجموعہ آئینے کے اس پار لکھ کر جہاں کہانیاں پڑھنے والے قارئین کو حیرت زدہ کیا ہے، وہاں عہدحاضر کے نقادوں کو بھی چونکا دیا ہے۔ مہوش اسد شیخ کو ادب اطفال کے حوالے سے اولاً پذیرائی ملی اور انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے یکے بعد دیگرے جس طرح تین کتب کی اشاعت کو ممکن بنایا ہے، یہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
کتاب کا انتساب صاحب کتاب نے اپنے شریک حیات کے نام کیا ہے ۔ پیشرس میں وہ اپنا مختصر ادبی سفر بیان کرتی نظر آتی ہیں ۔ شاہد محمود ، عثمان ذوالفقار اور ڈاکٹر جہاں آرا کی تقاریظ بھی کتاب کا حصہ ہیں۔   
مردوں کے اس معاشرے میں مہوش اسد شیخ صاحبہ کی توانا آواز ناصرف سماج کے صنفی امتیاز کے خلاف بغاوت ہے بلکہ عورت کو پہچان کے بحران سے نکالنے کا وسیلہ بھی ہے۔ ایک عورت کے محسوسات اور حساس لکھاریہ کے جذبات سے گندھا ہوا اُردو افسانوں کا مجموعہ معاشرے کے ُمنہ پر ایک زوردار طمانچہ بھی ہے اور دَم توڑتی انسانیت کا نوحہ بھی ہے۔
افسانہ ادب کی نثری صنف ہے۔ ناول زندگی کا کُل اور افسانہ زندگی کا ایک جز پیش کرتا ہے۔ جبکہ ناول اور افسانے میں طوالت کا فرق بھی ہے۔ افسانہ  دراصل ایک ایسا قصہ ہے جس میں کسی ایک واقعہ یا زندگی کے کسی اہم پہلو کو اختصاراً اور دلچسپی سے تحریر کیا جاتا ہے۔ جسے کم وقت میں پڑھ کر اس میں چھپے ہوئے پیغام کو سمجھا جا سکتا ہے ۔
تخلیق ہو یا تحقیق اس کا کتابی صورت میں تشکیل پانا کئی صبر آزما اور مشکل مراحل کا متقاضی ہوتا ہے تاہم کتاب کے تشکیل پا جانے کے بعد اگر قارئین سے کتاب کا رشتہ جڑ جائے تو اس تخلیق کے خالق کو اپنی تمام محنت وصول ہو جاتی ہے۔ کتب کو قارئین سے شناسا کروانے میں کتب پر کیے گئے تبصرے اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اس کتاب پر چند تبصرے نظر سے گزرے ہیں ، تاہم میں نے جو کچھ اس کتاب سے سیکھا ہے وہ سپرد قلم کر دیا ہے ۔
اگر افسانوں کی بات کی جائے تو پہلے افسانے میں انسان کی فطرت کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح انسان ہمیشہ دوسروں کے لیے مرکز نگاہ بنا رہنا چاہتا ہے۔ ویسے مدیران میں ایسے لوگ موجود ہیں، جسے عمدگی سے کہانی میں ڈھالا گیا ہے۔
 اعتبار جیسا لفظ اس دنیا میں بہت اہم ہے اور خاص طور پر زوجین کے تعلق میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، حمزہ جیسے شریک حیات کا مل جانا دنیا میں جنت کی زندگی کے مترادف ہے ۔
تیسرے افسانے میں ہدایت کی طرف کون کب پلٹ جائے کی عمدگی سے منظر کشی کی گئی ہے، جب کوئی رب کی حدود کی پاسداری کرتا ہے تو راستے خود بنتے چلے جاتے ہیں ۔
 توبہ کے نفل میں بہت عمدگی سے یہ بات اجاگر کی گئی کہ ہر شخص اپنی جگہ دکھ لئے پھرتا ہے، صرف دور کے ڈھول سہانے نظر آتے ہیں ۔
 نا انصافی میں ایک بہترین ماہر نفسیات کی طرح انسانی نفسیات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ جب کسی کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے تو نتائج ایسے ہی نکلتے ہیں۔
 آخری ورق مستقبل کی منظر نگاری کرتا خوبصورت افسانہ ہے ۔ زندگی کے دو مختلف ادوار کا رنگ اس میں بیان کیا گیا ہے۔ مصنفہ نے خود کو کردار بنا کر یہ نمناک افسانہ لکھا ہے۔
 چور رستہ ان شوہر حضرات کے لئے وارننگ کی طرح ہے جو بیوی کے حقوق پر ظالم کی طرح قابض ہو جاتے ہیں۔ پھر جس طرح پانی اپنا راستہ بنا لیتا ہے ، اسی طرح نیکی بدی کا بھی یہی طریق کار ہے۔ راستے نکل ہی آتے ہیں ۔
 ناولوں کی دنیا خواب اور حقیقت کی دنیا میں فرق بیان کرتا دلچسپ افسانہ ۔ جب ہم کہانیوں کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں آتے ہیں تو تب ہی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوتا ہے۔ افسانے کی کردار لڑکی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ۔
کتاب کے نام پر مبنی افسانہ آئینے کے اس پار بھی حقیقت دنیا کی منظر کشی پر مبنی خوبصورت تحریر ہے ۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ملک میں یہ کہانی گھر گھر میں نظر آتی ہے۔ 
بد دعا مظلوم کی آہ کو بیان کرتا افسانہ ہے۔ ظالم کو اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب مظلوم اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں لے جائے ۔ دو بہنوں کی شادی کے قصے پر مبنی افسوسناک انجام کی دلخراش تحریر ہے۔
دوسرا رخ انسان کی کم عقلی کو بیان کرتی تحریر ہے۔ کہ بعض اوقات ہم کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں اور تقدیر ہم پر مسکرا رہی ہوتی ہے ۔ جبکہ ہم تصویر کے دوسرے رخ کو دیکھے بغیر نتیجہ قائم کر لیتے ہیں ۔
 آخری سورج ، محبت کے جواب میں بے وفائی اور دکھ کو بیان کرتی تحریر رہی۔ ماں کی دعا نے سب پلٹ ڈالا ۔
 سونا آنگن محرومیوں کو بیان کرتی تحریر ۔ اس طرح کی صورتحال میں انسان برائی کے رستے پر چل نکلتا ہے ۔ زین جیسے کردار اچھائی کے راستے کی رکاوٹ بن جاتےہیں۔
 روز محشر مقصد زندگی کو بیان کرتا افسانہ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ قلم کار جو اس حقیقت کو سمجھ جاتے ہیں۔ یہی نفسی نفسی کے عالم میں جائے پناہ بھی بن سکتا ہے۔
 توکل اس کتاب کا آخری افسانہ جو صبر و شکر جیسی صفات سے مزین ہے ۔ جب رب کی ذات پر توکل چھوڑا جاتا ہے تو ایسے ہی نتائج نکلتے ہیں ۔
اس کتاب کے ہر افسانے میں کوئی نہ کوئی سبق ضرور ہے ۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اسباق کو عملی زندگی میں بھی نافذ کیا جائے ۔
ڈاکٹر جہاں آرا لطفی اس کتاب کے بارے میں کچھ یوں لکھتی نظر آتی ہیں ، ” مہوش نے انتہائی مہارت، چابک دستی اور روانی سے عام زندگی میں استعمال کی جانے والی گفتگو کو افسانوں کی بنت کے لئے استعمال کیا ہے۔ سلجھے ہوئے انداز میں اپنی بات کو قارئین تک پہنچایا ہے۔“
اس کتاب کے کچھ خاص حصے ملاحظہ کریں ۔
”یہ مصنف لوگ نجانے کس جذبے کی تسکین کے لیے جوانی کی تصاویر کتاب پر لگاتے رہتے ہیں“ ۔
”ناولز کی دنیا جتنی حسین ہے، حقیقت اتنی ہی بھیانک ۔۔۔۔ قصور اسی کا تھا جو ناول پڑھ پڑھ کر افسانوی دنیا میں جینے لگی تھی۔ “
” اپنے بد دعا نہیں دیا کرتے ، وہ بددعا دے ہی نہیں سکتے ، لیکن ٹوٹے دل سے آہ نکل جاتی ہے جو ہر رکاوٹ کو توڑتے ہوئے عرش بریں تک پہنچ جاتی ہے۔ اس آہ سے بچنا چاہیے“۔
میں آئینے کے اس پار کے افسانوں کے پسِ منظر میں مہوش اسد شیخ کی دلیری اور جرات کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے اتنی شاندار کتاب لکھی، اس کے ساتھ ساتھ پریس فار پیس فاؤنڈیشن  کو بھی آئینے کے اس پار جیسے مجموعے کی خوبصورت اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ مہوش اسد شیخ صاحبہ کے فنی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ بھی ترقی کی منازل طے کرنے میں کامیاب رہے گا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact