راولا کوٹ جو کبھی سنگلاخ اور کُھردرے مزاجوں کی سرزمین کہلاتی تھی۔ تیغ و تفنگ یہاں کی پہچان تھی۔ادب و شاعری جیسے نرم و نازک جذبات اور احساسات کے لیے یہاں کی مٹی موافق نہ تھی۔ مگر گزشتہ کچھ عرصے سے حالات میں بدلاؤ آ چکا ہے۔اب یہ دھرتی مزاحمتی کردار کے ساتھ ساتھ علم و عمل کے چراغ بھی جلانے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کر چکی ہے۔

 شعر و ادب کے میدان میں اب تسلسل کے ساتھ نئی نئی تخلیقات منصہ شعود پر آ رہی ہیں۔

 بشیر حسین جعفری کی “زندہ باد پائندہ باد “کے بعد سابق ناظم تعلیمات (سکولز) سردار محمد ایوب خان کی “تنگ آمد” سابق صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی “متاع زندگی” سردار عبدالقیوم خان کی “مقدمہ کشمیر”پروفیسر یعقوب شائق کی “عمر عزیز رفت”معروف بنکار اور اسلامی سکالر انور عباسی کی خود نوشت “متاع شام سفر” جنرل حیات خان مرحوم کی “داستان حیات” حال ہی میں شائع ہونے والے سابق سیکرٹری حکومت سردار خورشید خان کی “متاع خورشید” اس کے علاوہ میرپور سے سابق سیکرٹری تعلیم چوہدری محمد یوسف کی خود نوشت سوانح “نقش بر آب” بھی سوانح عمریوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ راولاکوٹ میں کئی نامور لکھاری ہیں جن کی فنی ساکھ نہ صرف راولاکوٹ بلکہ پورے ملک میں ان کی تصنیفات سند قبولیت حاصل ہو چکی ہیں۔ جن میں محمد کبیر خان مزاح کی دنیا کا ایک بڑا حوالہ اور نام ہیں۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر’ ڈاکٹر محمد صغیر خان’ ڈاکٹر ممتاز صادق ‘محمد جاوید خان’پروفیسر مسعود احمد خان’ پروفیسر عبدالعلیم صدیقی مرحوم’ یعقوب شائق مرحوم ‘سید سلیم گردیزی’ انور عباسی’ مختار خان ایڈوکیٹ مرحوم ‘پروفیسر ریاض اصغر ملوٹی’پروفیسر محمد ایاز کیانی’پروفیسر عبدالصبور شیدائی’پروفیسر خالد اکبر’ پروفیسر سعادت اکبر اور ان جیسے بہت سارے نام قلم قبیلے میں شامل ہیں۔ شعراء کی بھی ایک بڑی تعداد ہے’ جو حبس اور گھٹن کے ماحول میں عوامی جذبات اور احساسات کو زبان عطا کرتے ہیں۔ پروفیسر ذوالفقار احمد ساحر ڈگری کالج ہجیرہ میں میرے کولیگ رہے ہیں۔  ہم کالج سے روزانہ گھر آجاتے تھے اس لیے  بدقسمتی سے  سرسری ملاقات سے بات کبھی آگے نہ بڑھ پاتی۔ اس دوران انہوں نے “اندلس گروسری سٹور کھول لیا اور ساتھ ساتھ ٹائنز نامی (چائنہ بیسڈ) کمپنی کے سرگرم رکن بھی بن گئے۔ ایک دن میں ان کے سٹور پر گیا تو یہ مجھے بھی قائل کرنے لگے کہ جب تک بولڈ سٹیپ نہیں لو گے پروفیسروں کی طرح یوں ہی گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتے رہو گے۔ آگے بڑھنا ہے تو بڑے بڑے خواب دیکھو اور اس کے لیے رسک تو بہرحال لینا پڑے گا۔ میرا مزاج سٹیٹ لائف بیمہ اور اس قبیل کی دوسری سکیموں کو قبول کرنے کے لیے کبھی مائل نہ ہو پایا۔ لہٰذا میں نے معذرت کر لی۔ پھر کبھی نہ انہوں نے تذکرہ کیا نہ میں نے ہی پوچھنے کی کوشش کی کہ آپ کے کاروبار کا کیا بنا؟پچھلے تین چار سال سے ہمارے درمیان تعلق پہلے کی نسبت زیادہ گہرا ہوا ہے۔۔۔

 اب جب موصوف کی خود نوشت سوانح عمری “دیبا ے حیات” میرے ہاتھوں میں آئی تو دیگر بہت سارے رازوں کے ساتھ ساتھ متذکرہ کاروبار کا کچا چھٹا بھی کھل کر سامنے آیا۔غالب نے کہا تھا

 کُھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ۔۔۔ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

 صاحبو !! پروفیسر ذوالفقار احمد نے شعر کی بجائے زندگی کی کہانی لکھ ڈالی اور جو لکھا سچ لکھا۔۔۔۔۔۔

کم ازکم مندرجات اسی کی گواہی دیتے ہیں۔ ساحر صاحب نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا کچا چھٹا بلا کم و کاست یوں بیان کیا ہے کہ فی زمانہ اپنے بارے میں اتنا ننگا اور کھرا سچ بولنا کار ناممکن نہیں تو  دشوار ضرور ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ “دیباے حیات”کو نہ بچوں کی پہنچ سے دور رکھ سکتے ہیں نہ ہی اسے بیگم کی دسترس سے باہر رکھنا ممکن ہے۔ ڈاکٹر صغیر کی اس بات سے بجا طور متفق ہوں کہ ان کی کتھاء حیات میں داخل ہونا آسان مگر نکلنا دشوار تر ہے۔ میں نے ہفتے کی شام “دیباے حیات” کو پڑھنا شروع کیا۔ اتوار کا پورا دن میں اس کے سحر سے نہ نکل سکا۔ پیر کی رات 12 بجے اس خدشے کے پیش نظر اسے رکھنا پڑا کہ صبح کالج بھی جانا ہے اور منگل دن کو کلاس لے کر واپس آیا اور بقایا 30 / 40 صفحات پڑھ ڈالے۔

 کرنل محمد خان نے اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھا تھا کہ میری کتاب “بجنگ آمد” کی تقریب رونمائی ہو رہی تھی جب میں اظہار خیال کے لیے سٹیج پر آیا تو ہال سے ایک بھاری بھرکم خاتون کھڑی ہوئیں اور مخصوص پنجابی لہجے میں بولی “اوئے  اے کتاب ایس لکھی اے باہروں تے بڑا شریف لگدا ہے وچوں پورا ہے گا۔

جناب والا کتاب کے مطالعے کے دوران میں کسی موقع پر بھی بوریت کا شکار نہیں ہوا بلکہ حیرت و استجاب کی کیفیت ہر صفحہ پر برقرار رہی کتاب پڑھتے ہوئے قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنی زندگی کی فلم دیکھ رہا ہوں۔ بچپن’ نامساعد حالات’ غربت ‘ عسرت و تنگدستی جو  ہماری نسل کے کم و بیش سارے ہی لوگوں کا مشترکہ مسئلہ تھا۔ والد کا تعلق شرقی پاچھوٹ کے گاؤں آرنال سے تھا۔ جبکہ والدہ ہندوستان کے شہر تامل ناڈو کی جم پل تھیں۔اس لیے اردو گویا ان کی گھٹی میں شامل تھی۔ ننھیال کے ساتھ کافی قربت رہی ان کا ننھیال “بنجوسہ میرا” میں تھا۔

والد محمد حسین 1953 میں نواب صادق کی فوج  میں بھرتی ہوئے۔بھاولپور کے پاکستان میں ضم ہونے کے بعد نواب کی فوج ریگولر آرمی کا حصہ بن گئ۔ ابتدائی تعلیم رہاڑہ ہائی سکول سے حاصل کی۔میٹرک میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرنے کی وجہ سائنس مضامین سے فطری میلان نہ ہونا تھا۔ آئی۔کام ڈگری کالج راولاکوٹ سے ‘ بی۔کام ڈگری کالج پلندری سے کیا۔

جونیئر کامرس انسٹرکٹر سے ملازمت کا آغاز انٹر کالج دھیرکوٹ سے کیا۔پھر گھڑی دوبٹہ کالج میں سینیئر کامرس انسٹرکٹر پروموٹ ہوئے۔ اسی دوران اپنے دوست پروفیسر اخلاق کے مشورے سے پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے اردو کر لیا۔فارسی سے فطری شغف تھا۔کچھ دوستوں سے برابر رہنمائی لیتے رہے۔ خورشید میموریل لائبریری سے مطالعہ کتب کرتے رہے۔ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے انٹر کالج  بلوچ میں بحیثیت لیکچر اردو تعینات ہوئے۔ چار پانچ سال کے بعد ڈگری کالج راولاکوٹ تبادلہ ہوا۔یہاں سے 2001ء سے 2010ء تک ڈگری کالج ہجیرہ میں خدمات سر انجام دیں۔ 2010ء میں راولاکوٹ ٹرانسفر ہوئے۔ اور پھر 2014.15 میں ڈگری کالج تھوراڑ ٹرانسفر ہوئے اور وہیں سے 2020ء میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔

 ابتدائی عمر میں صحت کے مسائل درپیش رہے پھر روحانی علاج سے صحت یاب ہوئے۔ ایک طویل عرصے تک راولاکوٹ گرین ٹاؤن اور ابتدائی کچھ عرصہ تک کھڑک میں کرائے کے مکان میں مقیم رہے۔ 2014 میں چھپڑی  آرنال میں اپنا ذاتی مکان تعمیر کرایا اور کچھ عرصے بعد اس میں منتقل ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بیگم ذاتی مکان کے لیے زور نہ دیتی تو میں شاید اس کے لیے جدوجہد نہ کر پاتا۔

ظالم سماج اور خوف فساد خلق کے خدشے کے پیش نظر قلبی واردات کا ذکر بہت ملفوف انداز میں کیا ہے۔ آپ نے خواہ مخواہ اشفاق احمد بننے کی کوشش نہیں کی بلکہ جس طرح گزری بلا کم کاست اس کا اظہار کر دیا ورنہ یہاں پیاز کی طرح تہہ در تہہ انسانوں کی دنیا ہے جہاں اصل تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ذوالفقار احمد ساحر کی خود نوشت کے مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ موصوف حقیقی معنوں میں ایک صاحب مطالعہ شخصیت ہیں۔کوشش کی ہے کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھرپور لطف اندوز ہو سکیں۔ میں نے بہت کم لوگوں کو اس طرح کے اطمینان قلب کی دولت سے مالا مال دیکھا ہے جنہوں نے نہ بہت سارے امتحان لیے نہ بورڈ کی مارکنگ کے  دھندوں میں پڑے۔ ڈوب کے مطالعہ کیا’ محدود دوستوں کی مجالس سے بھرپور لطف اٹھایا۔جس چیز کی خواہش اور تمنا ہوئی اسے حاصل کرنے میں کبھی بُخل کو در نہ آنے دیا۔ اچھی لائبریری موجود ہے جس میں ان کے ذوق کی سینکڑوں کتابیں موجود ہیں “گوشہ عزلت” ان کے ذہن رسا کا ایک ایسا شاہکار ہے جو ہم میں سے کسی کے پاس موجود نہ ہے۔

شہر لاہور سے ناصر کاظمی کی طرح انہیں بھی عشق ہے۔ کہتے ہیں۔ کہ 1990 سے 2004 تک کئی مرتبہ اس شہر کے کوچہ و بازار کا طواف کر چکا ہوں مغلیہ طرز تعمیر کے دلدادہ ہیں۔ گورنمنٹ کالج’ پنجاب یونیورسٹی اور عجائب گھر میں بھی بیسیوں مرتبہ گئے ہوں گے۔اس حوالے سے اپنے ایک تجربے کا ذکر یوں کرتے ہیں۔” ہال میں داخل ہوتے ہی میری نظر ایک مجسمے پر پڑی۔جو کسی ماہر سنگ تراش کی برسوں کی کاوش کا نتیجہ تھا۔یہ ایک لڑکی کا مجسمہ تھا جو زرد لباس میں ملبوس تھی۔اس کے ہاتھ سینے پر بندھے تھے۔اور کلائیاں سڈول اور ننگی تھیں۔سنہرے بال کٹے ہوئے اور شانوں تک تھے۔انتہائی متناسب اعضا ‘بیضوی چہرہ’ناک پیشانی کے سنگم سے ہی تھوڑی بلند اور ستواں جس میں بائیں جانب ہیرے جیسا چمکتا نگینہ جو خوب صورتی میں اضافہ تو نہیں کر رہا تھا مگر مناسب معلوم ہوتا تھا۔خوبصورتی  میں اضافے کی گنجائش ہی کہاں تھی۔یاقوتی ہونٹ’ نچلے ہونٹ اور ٹھوڑی کے درمیان ایک نصف دائرہ نما قوس جیسے پہلی رات کا باریک چاند سلیقے سے دائرہ نما ابھار پر الٹا کر دیا گیا ہو۔غلافی آنکھیں کھڑا قد جسمیں زرا جھول نہیں۔پونے چھ فٹ قد’کاندھوں اور دھڑ میں اس حد تک تناسب کہ جیسے سنگ مرمر کی سل کو اوپر سے نیچے تک سیدھا کاٹ کر تراشا گیا ہو۔اس پر چہرے کا رنگ جیسے دودھ اور شفاف شہد سے بنایا گیا ہو۔کچھ تو عجائب گھر کا ماحول’ کچھ ملگجی سی روشنی اور کچھ اچانک اس قدر خوب صورت مورتی کا مکمل حسن اپنی نظر میں آ جانا۔میں اس شعلہ جوالہ کو مبہوت ہو کر دیکھنے لگا۔یکا یک میرے حافظے میں فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی چند مشہور تصاویر آ گئیں۔

اچانک مجسمے میں حرکت پیدا ہوئی لڑکی نے دائیں ہاتھ سے اپنے ماتھے پر آئی ہوئی لٹ کو پیچھے کیا اور دو قدم آگے بڑھ کر ٹکٹ کے اگلے شو کیس پر نظریں جما دیں۔شاید وہ جان چکی تھی کہ اس کے وجود کی بدولت میں وینس (اندلس)پہنچ چکا ہوں۔مجھے جیسے کسی نے خواب سے جگا دیا ہو۔یعنی جسے میں مجسمہ سمجھا تھا وہ گوشت پوست کی زندہ ہستی تھی”

 اندلس کے محرابوں ‘ راہداریوں اور محلات سے بھی انہیں بے پناہ محبت ہے اور ٹائینز کے کاروبار کے گورکھ دھندے کے پسِ پردہ بھی اندلس کی سیر کا شوق اور جذبہ کار فرما تھا۔

 اپنی ماں ‘باپ ‘خالہ ماموں’ چچاؤں کی وفات پر گہرے صدموں سے دوچار ہوتے ہیں اور اپنے کرب کا اظہار جا بجا کرتے نظر آتے ہیں۔

 بظاہر چُلبلا اور منہ پھٹ نظر آنے والا پروفیسر ذوالفقار دیبائے حیات کے صفحات میں ایک مکمل سنجیدہ شخص نظر آتا ہے۔۔

بیٹی سے بے پناہ محبت کرنے والا ذوالفقار ساحر اس کی رخصتی کی بات کرتے ہوئے کافی جذباتی کیفیت سے گزرتا ہے۔

جہاں کہیں کسی جذباتی کیفیت سے گزرتے ہیں چاہے وہ ذاتی رشتے ہوں یا وطن کی محبت کی بات’ الفاظ جھرنوں اور بلندی سے گرتی آبشاروں کی مانند ہاتھ باندھے ان کے حکم کے تابع نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں اور پیری مریدی کے روایتی تصور کے باغی ہونے کے باوجود انہیں حقیقی مرشد مانتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر سے بھی ان کو عشق ہے۔ ان کی بے توقیری پر بڑے دکھ اور کرب کا اظہار کرتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہم ایک محسن کُش قوم ہیں۔

 مغربی مفکرین بالخصوص ٹالسٹائی کے “وار اینڈ پیس” کا مطالعہ اور اس پر بی۔ بی۔سی کی 15 گھنٹے کی فلم کئی بار دیکھ چکے ہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد کے پرستار ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ انہیں فلموں سے بھی بھرپور دلچسپی ہے۔ دلیپ کمار نامی اداکار کی صلاحیتوں پر ایک پورا باب موجود ہے۔ اس کے علاوہ کلاسیکی موسیقی سے بھی انہیں جنون کی حد تک لگاؤ ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ قرآن کی تفاسیر’ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تفہیم القرآن’ ڈاکٹر اسرار احمد کی “بیان القرآن” ‘ امین احسن اصلاحی’ مولانا ابوالکلام آزاد کی تفاسیر سے بھی حد درجہ عقیدت اور لگاؤ رکھتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے قران کے تنزیلی اعتبار سے نزول کی روشنی میں سیرت رسول کا مطالعہ کر رہے ہیں۔  گزشتہ 30 / 40 سال سے قرآن’ احادیث اور سیرت کا دقت نظری ‘ ژرف نگاہی سے اور اس میں غوطہ زن ہو کر  مطالعہ کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ انھیں اقبالیات سے بھی حد درجہ لگاؤ ہے۔اقبال کے کلام کو قرآن کی شرح قرار دیتے ہیں۔ زندگی کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر مکمل غیر روایتی ہے۔کہتے ہیں “کہ دوستوں نے مجھے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی کاروبار کروں’ پلاٹ لے لوں’ کہیں انویسٹمنٹ کر لوں مگر میں مصحفی کے اس شعر پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہوں۔

 مصحفی گوشہء عزلت کو سمجھ تخت شہی

 کیا کرے گا تو عبث ملک سلیمان لے کر”

 اور مجھے ان کی سب سے اچھی بات یہ لگی کہ اگر مجھے دوبارہ زندگی ملی تو میں پھر بھی یونیورسٹی کا پروفیسر بننے کی خواہش کروں گا میرے نزدیک ہاورڈ ‘آکسفورڈ اور کیمبرج کا پروفیسر ہونا امریکہ کے صدر بننے سے کہیں بہتر ہے۔ذوالفقار صاحب کا اسلوب نہایت شگفتہ’دلچسپ اور دلنشیں ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

 میری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی میرے دوست کی زندگی میں ڈھیروں برکتیں’ خیریں اور سلامتی عطا فرمائے تاکہ ان کے رخش قلم سے آئیندہ بھی اس سے زیادہ خوبصورت تخلیقات نکلیں اگر پہلی کاوش اس قدر شاندار ہے تو تجربے کی بھٹی سے گزرنے کے بعد یہ مزید نکھر کر سامنے آئیں گے۔انہوں نے اپنی کتاب کے شروع میں کہیں لکھا ہے کہ ہر آدمی زندگی میں کم از کم ایک کتاب ضرور لکھ سکتا ہے اور وہ اس کی اپنی زندگی کی کہانی ہے۔ 

معزز قارئین!!

 ہم سب کو مطالعے کو اپنی روٹین کا حصہ بنانا چاہیے۔کتاب کے اوراق کا لمس اپنے اندر ایک جادوئی اثر رکھتا ہے۔ بالخصوص اساتذہ کے لیے یہ چوائس کا معاملہ نہیں ہے بلکہ لازمی سبجیکٹ ہے کیونکہ بغیر مطالعہ کے ہم پیشہ انبیاء کے تقدس کو پامال کریں گے۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact