مبصر ۔ عبدالحفیظ شاہد۔ واہ کینٹ
سنو! یہ وقت رخصت ہے، سکوت سفر طاری ہے
ختم عمروں کا زر، باقی لمحوں کی ریزگاری ہے
سنو! یہ آس کی ڈوری اٹھا لو ہاتھ سے میرے
میرے ہاتھوں میں کچے دھاگوں کی بے اعتباری ہے
سنو! میں خواب اب بھی دیکھتا ھوں دل کے کہنے سے
میری آنکھوں میں اب بھی زخم، دل میں بیقراری ہے
سنو! پلکوں پہ جتنے خواب تھے، ان کو اٹھا لینا
میری آنکھوں پہ ان کا بوجھ، میری طاقت سے بھاری ہے
وقت کا ان دیکھا پہیہ رواں دواں رہتا ہے ۔انسان کی عمر کی نقدی رفتہ رفتہ ختم ہوتی جاتی ہے اور جس وقت ریزگاری بھی ہاتھوں سے پھسلنا شروع ہوجاتی ہے، تب انسان کو اس گرانقدر جنس کی بے قدری کا احساس ہوتا ہے۔ وقت تو گزر جاتا ہے لیکن یادوں کے کرچیاں آہستہ آہستہ زندگی کے شب و روز میں کسک چھوڑ جاتی ہیں۔ پھر انسان ان گزرے لمحوں کو تعویز بنا کر مانگ میں سجانے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن سب بے سود۔ بس یہ یادیں اور باتیں زندگی کو گھسیٹ کر آخری سانس تک پہنچانے کا بھاری بھرکم کام سر انجام دیتی رہتی ہیں۔
زندگی ایک ایسے مرحلے کا نام ہے جہاں بہت سارے دکھ اور احساس اپنے آپ کو وقتی طور پر کیمو فلاج کرلیتے ہیں۔ لیکن اچانک کسی دن یہ بیتے لمحے اپنی کینچلی اتار کر آپ کی آنکھوں کے سامنے آ براجمان ہوتے ہیں۔ سوئے ہوئے دکھ پھر سے سینے پہ مونگ دلنے کے لیے اپنی سانسوں کی آمدورفت کے بحال کرلیتے ہیں۔” ریزگاری ” ان ہی سوئے ہوئے احساسات اور بہے بغیر آنکھوں میں جم جانے والے آنسوؤں کے تسلسل کا نام ہے۔
افواہ تھی کہ “ریزگاری ” افسانوں کا مجموعہ ہے۔ لیکن مجھے تو پڑھ کر ایسا لگا کہ یہ کتاب میرے گمشدہ احساسات کہ وہ کترنیں ہیں جن کی پوٹلی زندگی کے سفر میں مجھ سے شائد کہیں گم ہو گئی تھی ۔ریزگاری خوبصورت ٹائیٹل کے ساتھ سال بھر سے میری لائبریری کا حصہ تھی لیکن اپنی تعلیمی اور گھریلو مصروفیات کی وجہ سے اسے پڑھ نہ سکا تھا۔ جب پڑھنا شروع کی تو بس لگاتار پڑھنا پڑی۔کیونکہ اس کتاب کو مکمل کیے بغیر تسکین ہی نہیں ہوسکتی۔ ریز گاری کا سرورق زارا رضوان صاحبہ کی محنت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔جس کے لیے زارا رضوان صاحبہ ڈھیروں مبارک باد کی مستحق ہیں۔منفرد ٹائیٹل کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ٹائیٹل پہلی نظر میں ہی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔
پریس فار پیس پبلی کیشنز یوکے کا کام دیکھ کر انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ کاغذ کے معیار کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے کیونکہ آج کل اس معیار کے اچھے پیپر کی کتابیں مشکل سے ہی میسر آتی ہیں۔ کتاب کی طباعت ،ڈیزایننگ، اشاعت، پروف ریڈنگ تک ہر شعبہ بہترین ہے۔معیار پر کمپرومائز نہیں کیا جاتا۔ بہترین ٹیم اور ان کا شاندار ٹیم ورک قابلِ صد تعریف ہے۔ اس ادارے کا بہترین کام دیکھ کر بے اختیار پریس فار پیس پبلی کیشنز یوکے کے روح ِ رواں پروفیسر ظفر اقبال صاحب کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے ۔
ریز گاری “میں کل بائیس افسانے پیش کیے گئے ہیں ۔کتاب کی ضخامت 224صفحات ہے ،قیمت600 اور پریس فارپیس پبلی کیشززنے نہایت اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے ۔ میں افسانوں کی تفصیلات میں جانے سے بہتر ریزگاری کے گلدستے میں سجے خوبصورت پھولوں کے ناموں کی سوندھی سوندھی خوشبو سے آپ کو روشناس کروانا چاہوں گا۔اور اس خوشبو کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں آپ کو دم گھٹتا ہوا بھی محسوس ہوگا۔ کیونکہ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی ہی یہی ہے کہ یہ متنوع موضوعات پرمشتمل ہے۔ افسانوں کے نام ملاحظہ کیجیے۔
قتل ِآب ،قصہ ایک رات کا، سزا،چراغ ، خطوں میں مخفی محبت، گستاخ،بانجھ،بڈھا سالا،ساتویں سمت،ادکار،پچکی پڑی کہانی، ویلنٹائن ڈے، ریز گاری،گونگے لوگ
آخری آدمی،قرض،دھوپ کا سفر،مسیحا،تو آٹھواں رنگ دھنک کا۔،چہرے، گندی مکھی اورآخری پتھر۔
ریزگاری میں شامل افسانے اصلاحی پہلو ،روشن خیالی اور فکری انداز کے ساتھ ساتھ متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگی کو اجاگر کرتے ہیں۔اسی لیے یہ سب کردار ہمیں اپنے اردگرد جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔کتاب میں شامل افسانوں کا اسلوب سادہ اور رواں ہے۔آج کل اکثر افسانے محبت کی گردان سے شروع ہوکر اختتام پذیر ہوتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اس کتاب میں معاشرتی ناہمواریوں ، روز مرہ دکھوں اور دم توڑتے احساسات کو بہترین انداز میں سجا سنوار کر پیش کیا گیا ہے۔یہ خوبی مصنف کے رواں اور گہرے مشاہدہ کا ثبوت ہے۔
افسانہ نگار کا ذہن زر خیز مٹی کی طرح ہوتا ہے۔ جب اس میں مطالعہ کا بیج ڈالا جاتا ہے تو اس میں خود بخود نئے خیالات پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں۔ پھر افسانہ نگار کو ان مختلف خیالات میں سے سب سے عمدہ خیال کو چننا ہوتا ہے۔ اس منتخب خیال کو افسانے کی شکل میں ڈھالنے کے لیے افسانہ نگار کو مشاہدے کی دھوپ اور تجربے کے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ تمام خوبیاں ارشد صاحب کے افسانوں میں وافر موجود ہیں۔
اگر لکھاری خوبصورت موضوعات اور بہترین افسانےلکھنے کا ہنر سیکھنا چاہتے ہیں تو یہ کتاب قلم کی موضوعاتی زرخیزی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں ارشد ابرار ارش صاحب کا یہ ادبی سفر ایسے ہی جوش و خروش سے جاری و ساری رہے۔ان کی یہ کتاب آپ کی لائبریری کی شان بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اللّٰہ تعالیٰ مزید عروج اور کامیابیاں عطا فرمائے ۔