تحریر: محمد نواز رضا
رباب عائشہ صرف خاتون صحافی ہی نہیں راولپنڈی و اسلام آباد  کی پہچان ہیں ان کا شمار وفاقی دارالحکومت کی سینئر ترین خاتون صحافیوں میں ہوتا یے اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ علم و ادب کے گہوارے میں جنم لینے والی خاتون پیدائشی ادیب و صحافی  ہیں جب انہوں نے 1944 میں میرٹھ( بھارت) کے ادبی ماحول میں آنکھ کھولی تو ان کو ادیب و صحافی بننے میں مہینوں سالوں سفر طے نہ کرنا پڑا  میرٹھ میں آنکھ کھولی پھر ہجرت کرکے راولپنڈی کو اپنا مسکن بنایا  اور پھر ساری زندگی اپنے گلے میں “پوٹھوہارن ” کا طوق پہنے رکھا لہذا اب انہیں پوٹھوہار کا خوبصورت چہرہ کہیں تو درست ہو گا
نصف صدی کاقصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں
رباب عائشہ نے میدان صحافت قدم رکھا تو خال خال ہی کوئی خاتون صحافی تھیں شاید ایک دو ہم عصر خواتین ہوں ان کی ہم عمر خواتین صحافیوں میں  فریدہ حفیظ اورشمیم اکرام  شامل ہیں جس دور میں رباب عائشہ نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا اس وقت خواتین کے لئے اخبارات میں کام کرنے کے کم مواقع  تھے وہ ریٹائرمنٹ تک روزنامہ جنگ راولپنڈی میں خواتین کے صفحہ کا انچارج رہیں اس وقت کسی اور اردو و انگریزی اخبارمیں خواتین کا کوئی صفحہ شائع نہیں ہوتا تھا اس دور میں ایک کامیاب اخبار نویس کے لئے ادبی ذوق رکھنا لازمی امر تھا رباب عائشہ نے جہاں خواتین کے مسائل پر بے پناہ کالم تحریر کئے وہاں ملک کی نامور شخصیت کے انٹرویوز شائع کئے ہیں چونکہ رباب عائشہ نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ زندگی میں ان تحریروں کوکتابی شکل دینے کا موقع ملے گا لہذا یہ تحریریں محفوظ نہ ہونے کے باعث ضائع ہو گئی ہیں اب کف افسوس ملنے کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے ۔ان کے کالموں اور خاکوں پر مشتمل کتاب ” سدا بہار چہرے ” شائع ہوئی ہے  جب کہ انہوں نے اپنے منتخب افسانے ” خاک کے آس پاس “بھی شائع کئے ہیں ان کی دونوں کتب کو ادبی صحافتی حلقوں میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے ۔اب وہ اپنی سوانح حیات لکھ رہی ہیں ۔
میں واحد صحافی ہوں جن کےساتھ مجھے 50 سال سے زائدعرصہ  تک کام کرنے کا موقع ملا  ہے ۔میں نے1980 میں مختصر عرصہ کے لئے روزنامہ جنگ راولپنڈی میں شعبہ میگزین میں کام کیا ایک ہی فلور پر ہم الگ الگ کمروں میں  بیٹھتے تھے روزنامہ جنگ  راولپنڈی  میں اصغر حسین شاہ  بخاری مرحوم اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے  ۔
اکثر رباب عائشہ ہمارے لئے چائے کا اہتمام کرتیں گھریلو ماحول تھا  میں نے رباب عائشہ کی جوانی دیکھی ہے اور بڑھاپا بھی۔ روزنامہ جنگ راولپنڈی سے ریٹائرمنٹ کے بعد  رباب عائشہ نے روزنامہ نوائےوقت اسلام آباد جائن کر لیا _ان کا تجربہ کام آیا  ا نہوں بے نے روزنامہ نوائے وقت  کے خواتین کے صفحہ کو چار چاند لگا دیئے ہمارے درمیان باہمی  عزت واحترام کا رشتہ قائم ہے  میں پچھلے  تین سال سے میڈیا شفٹ ہوگیا ہوں ۔ مختلف مواقع اور تقریبات میں ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن پہلی بار وہ میرے گھر آئیں تو ان سے خاصی دیر تک گفتگو  ہوئی ۔میری اہلیہ کے ساتھ بات چیت  کرتی رہیں  ۔ہم دونوں اپنے ماضی  کے جھروکوں میں جھانکتے رہے۔رباب عائشہ  پایہ کی صحافی ہیں ۔ان  کا شمار خواتین صحافی اساتذہ میں ہوتا ہے اس لحاظ سے اگر ان کو خواتین صحافیوں کی “دادی “کہا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی ۔رباب عائشہ صحافت کاروشن ستارہ ہیں انہوں نے نیک نامی کے سوا کچھ نہیں کمایا۔ رباب عائشہ سے ایک رشتہ یہ بھی ہے کہ وہ ضیغم زیدی مرحوم کی اہلیہ ہیں ۔ان سے زمانہ طالب علمی  سے دوستی تھی  اس لحاظ سے میری بھابھی ہی ہوئیں ضیغم زیدی  بلیک اینڈ وائٹ فوٹو گرافی دور کا “بادشاہ “تصور کیا جاتا تھا ۔میں نے ان کےپایہ کا فوٹو گرافر نہیں  دیکھا ،کیمرے کی آنکھ میں انہون نےایسے واقعات کو محفوظ کیا جن سے وہ امر ہو گئے۔ ان کی شہرہ آفاق تصویر ایوب خان  1965 کی پاک بھارت  جنگ  میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں جب کہ ان کے ساتھ  ذوالفقار علی بھٹو بیٹھے ہیں ذوالفقار علی بھٹو کے چہرے کے تاثرات سے ان کی ناگواری عیاں نظر آتی تھی۔ذوالفقار علی بھٹو ضیغم زیدی کی فوٹو گرافی کے شیدائی تھے  وہ دوبار وزارت عظمٰی پر فائز رہے تو انہوں نے ضیغم زیدی کو سینئر پوسٹ پر اپنے ساتھ رکھا ۔ضیغم زیدی کو کئی ایوارڈ ملے لیکن ان کی باکمال اہلیہ رباب عائشہ کو زمانے نے نظرانداز کیا ان کی کوئی بڑی سفارش نہیں تھی ۔رباب عائشہ کو کیا معلوم  آج کل ایوارڈ بڑی سفارش اور لابی سے  ملتے ہیں ۔رباب عائشہ سیلف میڈ خاتون صحافی ہیں جنہوں نے بےسروسامانی سے میڈیا ٹائون میں ” کٹیا “بنا لی ہے انہوں نے زندگی بھر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا  ۔سی بلاک سے پیدل میرے گھر آئیں تو ان کو اپنے کالموں کے مجموعہ” روداد سیاست-1 ” کا بوجھ اٹھانے کے لئے دے دیا کیونکہ پیرانہ سالی میں پیدل اتنا بوجھ  اتنا ہی اٹھا سکتی تھیں

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact