Thursday, May 2
Shadow

دو پھولوں کی کائنات اور ازہر ندیم / کومل شہزادی

کومل شہزادی

تخیل میں لپٹا ہوا اور دوپھولوں کی کائنات کا شاعر ازہر ندیم جو پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل ہیں۔قانونی پیشے سے وابستہ افراد عموما میں اکثریت سیاسی ذہنیت کی مالک ہوتی ہے لیکن ازہر ندیم بیک وقت عمدہ تخیل بمع قانونی مشیر ہیں۔ازہر ندیم کی تخلیقی تصنیف کے بعد یہ رائے قائم کروں تو بے جا نہ ہوگا اگر قارئین ان کی کتب کا مطالعہ کریں تو میری اس رائے سے یقینا اتفاق کریں گے۔زیر تبصرہ کتاب ” دو پھولوں ں کی کائنات” جو صنف کے لحاظ سے نظموں کا مجموعہ ہے۔٢٠٢٢ ء میں بک ہوم لاہور سے شائع ہوئی اور ١٣٦ صفحات پر مشتمل ہے،جس میں ۵٦ نظمیں شامل ہیں۔انکی اس سے قبل بھی کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔اس کتاب میں عمدہ تخیل کے ساتھ قاری مناظر فطرت سے بھی خوب لطف اٹھائے گا۔ان کے ہاں نظم تب ضروری ہوتی ہے جب ان کے بقول خوابوں کی نیند سے دوری ہوجائے۔ہر تخلیق کار کی طرح ازہر ندیم بھی اس بات پر قائل ہیں کہ جب تخلیقی ذہن میں کچھ کو نپل کی طرح پھوٹتا ہے تو انہیں لفظی جامہ پہنا کر تحریر میں لانا فن کار کی مجبوری ہوجاتی ہے۔دائرہ نما زندگی میں انسان روزمرہ میں اس قدر الجھ چکا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی بھول بیٹھتا ہے۔قدیم وجدید کی رنگینی کا تذکرہ خوب کیا جس سےحال میں امتیاز آجاتا ہے۔جو صورتحال زندگی کی ماضی میں ہوتی ہے وہ حال میں قدرے تبدیل ہوچکی ہوتی ہے۔ اندھیرےکا سفر اجالے کی جانب رواں دواں ہوجاتا ہے۔نظم”وہ دن بھی تھے” کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے:

وہ دن بھی تھے

یہ دن بھی ہیں 

ہوا میں راکھ اڑتی ہے یہاں اک نشانی کی

فضا پر رائیگانی کے اندھیرے راج کرتے ہیں

کچھ ایسے گمشدہ ہیں ہم

خود اپنے نام کے حرفوں کواب ترتیب دینا بھول جاتے ہیں

محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے۔انسانی جذبات واحساسات کو محبت جسے ایک لفظ میں سمونامشکل ہے۔محبت کورفاقت سےجوڑنا مناسب نہیں ۔محبت میں اکتاہٹ نہیں ہوتی بلکہ یہ سلسلہ تاحیات ہوتا ہے۔اس کوانہوں نے خوبصورت نظم ” یہ محبت نہیں” میں تذکرہ کیا ہے۔۔

یہ تودو مہرباں رازداروں کی لمبی ملاقات ہے

صرف معموم دل کے نہاں خواب زاروں کااحوال ہے

لفظ تھک جاتے ہیں

سوچ تھکتی نہیں

شاعری کی کوئی بھی قسم ہوچاہے غزل یا نظم اس میں محبت کی کارفرمائی لازم ہوتی ہے۔جسے شاعری کامیدان وسعت سے لبریز ہے ویسے محبت کادائرہ بھی بہت وسیع ہے۔جسے ازہر ندیم کی نظم”شاعری اور محبت” کا عمدہ مصرعہ ملاحظہ کیجیے۔

شاعری اور محبت کی کوئی حد نہیں ہوتی

دور جدید کا انسان تنہائی ،فرسٹریشن اورذہنی تناو کا شکار ہےچاہے وہ.  وجود حسن سے لبریز ہوں  یاحسن سے عاری ہو لیکن تخلیق وجود کائنات کا ایک بھید زیادہ بہتر انداز میں جان سکتے ہے۔کیونکہ کونسا وجود.  کس کیفیت میں مبتلا ہے انسان چاہنے سے قاصر ہے اور جدت پسندی کے دور میں اتنا کوئی کسی کی گیرائی سے کیفیت جاننے کی جستجو بھی نہیں کرتا۔ازہر صاحب کی.  ایک خوبصورت نظم اس حوالے سے “خوبصورت وجود کے دکھ” چند مصرعےملاحظہ.  کیجیے۔

خوبصورت وجود کی تنہائی

صرف خداجان سکتا ہے

جوخود اپنی یکتائی میں بے نیاز ہے

خوبصورت وجود کے دکھ

کائنات کے اداس ترین گیت نہیں

ماں کی عقیدت میں جو بھی قلمبند کیاجائے وہ کم ہے۔ماں کی محبت اور ہستی کو چند الفاظ میں سموناناممکن ہے۔ماں جیسی ہستی اپنے اندر وسعت رکھتی ہے۔ان کی عمدہ نظم جوماں کی یاد میں لکھی گئی ہے۔یہ ہستی ٹپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاوٴں کی مانند ہے اوراولاد کے وجود میں بہت سی علامات ماں سے نسبت رکھتی ہیں۔نظم” تمہارا یہ ہولا ہی میری پوری حقیقت ہے”کچھ مصرعے ملاحظہ کیجیے:

میری سوجوں میں لیکن یہ مکمل ایک پیکر ہے

چھیالیس سال روزوشب

میں جس کے پاس آتا ہوں

میں جس کودکھ سناتا ہوں

پیاری ماں!

علاوہ ازیں عہد کرونامیں لکھی گئی نظمیں بھی اس مجموعے میں قاری کو پڑھنے کو ملیں گی۔المختصر،اس مجموعے میں تقریباً  ہر موضوع کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے وہ چاہےمحبت کا موضوع ہویا کوئی فطرتی ہو۔ علامتوں و تشبیہات اور استعارات کا خوبصورت استمال کیا گیا ہے۔ان کے اس نظموں کے مجموعے کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ نظموں کے مصرعےاچھے اور یاد رہ جانے والے جملے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔موجودہ دورمیں کامیاب شاعروہ ہے جومعاشرے کی حقیقت کودیکھ کراُسے نظموں کے مصرعے میں ڈھال سکے۔ان کے ہاں قاری کو دوسرے شعرا کی طرح.  ہجروفراق ،غم والم اورمایوسی جیسے عناصر نہیں ملیں گے بلکہ ان کے ہاں آپ کواُمیدی ملے گی قنوطیت نہیں۔اس مجموعے میں قاری کومطالعہ کے دوران محبت،پھول ،بارش ،خوشبو،رات،چراغ اورروشنی کا تصوربھی ملے گا۔مزید برآں اپنی نظموں کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا ہے جو بیک وقت ذہین قاری اور عام قاری کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ ان کا موضوعاتی استغراق جمالیاتی، تاثراتی اور نفسیاتی دروں بینی سے متعلق ہے۔ اس لیے جس قدر انسانی ذات گہری، پیچیدہ اور متنوع الصفات ہے، ان کےموضوعات بھی اتنے ہی گہرے اور متنوع ہیں۔دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے نظم کی ایک معنویت کو ہمہ جہت بنایا۔ 

پھر دور ہوتے نظر آتے ہیں کہ ان کی قوت متخیلہ اور فنی ہنر کاری و چابکدستی کی داد دینا بنتی ہے۔یہ اپنی نظموں کے لیے مواد جیتی جاگتی متحرک اور اورارتقا پذیر زندگی سے لیتے ہیں۔ان کے ہاں بے جا مبالغہ آرائی ،حقائق سے دوری اور تصنع کا احتمال نہیں رہتا۔اور شعری حسن برقرار رہتا ہے۔ایسا لگتا ہے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں جیسے نظم کے لیے بنے ہوں۔انکی کچھ  نظمیں فکر انگیزی اور بیان کی ندرت کا مرقع ہے۔ان کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہوئے کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس مصرع،اس شعر کے بغیر بھی نظم مکمل تھی ۔موضوع کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے ان کی رفتار کہیں.  تیز اور کہیں مدھم نہیں ہوتی۔توازن اور تناسب ملتا ہے۔ان کی نظمیں طویل نہیں مختصر ہیں لیکن ان مختصر نظموں کو پڑھ کر تشنگی کااحساس ہوتا ہے اور نہ ہی بوجھل پن کا سبب بنتا ہے۔اپنے تخیل کو نپے تلے اور خوبصورت انداز میں کہہ دینے پر قدرت حاصل ہے۔نظموں کا مطالعہ کرنے سے ان کی وسعت نظری کا اندازہ ہوتا ہے۔یہ شعور الہام میں ڈھلتا ہے تو انسان سہم جاتا ہے ۔کائنات کی وسعت میں اپنی شناخت بہت کم زور محسوس ہوتی ہے یہ ہی اصل حقیقت ہے جو خود شناسی کے عمل میں معاونت کرتی ہے۔وہائٹ ہیڈ کا کہنا ہے:

” لفظ شے کی علامت بنتا ہے اور علامت جوابوں کے سہارے کسی شے کی ترجمانی کرنے کی واضح ضرورت پوری کرنے کے لیے زبان کا استعمال ہوتا ہے۔”

ازہر ندیم حاالات وواقعات کی تصویر کشی کرتے وقت نہ تو کہیں رنگوں کو پھیکا اور مدھم رہنے دیتے ہیں اور نہ ہی ان کے استعمال میں تجاوز کرتے ہیں۔نظم کے فنی تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر ایک موضوع پرقلم اٹھاتے ہیں اور آغاز سے اختتام تک کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے ایک زنجیر کی صورت دےدیتے ہیں۔فنی مہارت ،خوبصورت اسلوب ،عمیق نگاہی ان کی نظموں سے جھلکتا ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ ان کا سرمایہ نظم اردو شاعری کا افتخار ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact