Thursday, May 2
Shadow

شفا چودھری کی گونگے لمحے  کے بارے میں کرن عباس کرن کے تاثرات

کرن عباس کرن

آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ اچھا اردو ادب تخلیق نہیں ہو رہا، ماضی میں اسے جن تخلیقات نے عروج بخشا اب ویسی تخلیقات سامنے نہیں آ رہیں۔ اور یہ کہ اچھا لکھنے والوں میں محض چند بڑے نام ہی موجود ہیں، لیکن کبھی کبھی کسی نوجوان تخلیق کار کی کتاب، تحریر پڑھتے ہی امید ہی ایک رمق بیدار ہوتے نظر آتی ہے کہ نہیں اردو ادب ہمیشہ اپنی سربلندیوں کو چھوتا رہے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ موجودہ دور حقیقت سے زیادہ مصنوعی پن اور بناوٹ کا دیوانہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر روپوش ہیروں کی قدر کو نہیں جان پا رہا۔ سوشل میڈیا نے جہاں گمنام ہیروں کو پہچان دی وہیں خالی برتنوں کے کھڑکتے شور میں حقیقی شعور کی آواز دب کر رہ گئی، لیکن وقت میں زندہ رہنا زمانے میں امر ہونے کی نسبت کچھ بھی نہیں۔ شور وقتی ہوتا ہے، مچتا ہے، شدید مچلتا ہے، اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور بالآخر تھم جاتا ہے، سمندر کی بپھری موجوں کی طرح جو سمندر کے ہوتے بھی اپنے شور سے تلاطم پیدا کرنے کی کوشش کرتیں ہیں، لیکن جلد ہی یہ لہریں اپنے شور سمیت خاموش ہو جاتیں ہیں، اس کے برعکس سمندر خاموشی کے باوجود اپنی گہرایوں سمیت موجود رہتا ہے، سو شور کی نسبت شعور ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتا ہے، تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔
بات ہو رہی تھی اردو ادب کی تو کچھ نوجوانوں کی تحاریر سے اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ اردو ادب، بجائے آنے والے وقت میں اپنی ساکھ کھونے کے، دنیائے ادب میں زبان و بیان کی تمام تر رعنایوں کے ساتھ پائندہ تابندہ رہے گا۔ ان ہی نوجوان لکھاریوں میں ایک نام شفا چودھری [بازغہ شریف] کا بھی ہے۔ حال ہی میں شفا کے افسانوں کا مجموعہ گونگے لمحے کے عنوان سے منظر عام پر آیا ہے جسے پریس فار پیس یوکے نے ہمیشہ کی طرح عمدہ طباعت میں شائع کیا ہے۔
’’گونگے لمحے‘‘ میں موجود افسانوں میں جہاں زبان و بیان کی چاشنی، جملوں کی مربوطی، مکالموں کی فنکارانہ مہارت  نظر آتی ہے وہیں خیالات کی ندرت قاری کو بےساختہ داد پر مجبور کرتی چلی جاتی ہے۔ اپنے افسانوں میں شفا کہیں انسان کے انفرادی دکھ پر نوحہ کناں نظر آتیں ہیں تو کہیں پر جمہور کی بے بسی پر شکوہ کناں۔ شفا اپنے افسانوں میں درد، دکھ، اضطراب، کشمکش اور دیگر انسانی نفسیاتی کیفیات کو صرف بیان نہیں کرتیں انھیں مجسم دکھاتی ہیں، قاری کو اپنے ہمراہ لیے ان کیفیات کے باطن میں اترتی چلی جاتیں ہیں۔ یہی وجہ کہ ہر افسانے کے اختتام پر قاری مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے کہ ’’واہ‘‘ کہا جائے یا ’’آہ‘‘۔
تحریر کے فنی محاسن کی بات کی جائے تو علامت نگاری، تشبیہات، استعارات کو اس خوبی سے برتا گیا ہے کہ زبان کی چاشنی سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی مل گیا اور موضوع کی تلخی بھی قابلِ برداشت ہو گئی۔ ’روشنی‘ اور ’تاریکی‘ جیسی علامتیں کئی افسانوں میں باہمی چپقلش کا شکار نظر آتیں، جیسے کہ زندگی کی حقیقت ہے، کہیں روشنی سرخرو ہوتی نظر آتی ہے تو کہیں تاریکی کو مزید وقت مل جاتا ہے۔ ہر افسانے کا آغاز قاری کی بھرپور توجہ افسانے کی جانب مبذول کرواتے ہوئے اسے اختتام تک جڑے رکھتا ہے اور اختتام، لکھنے والے کی فہم و فراست پر پڑھنے والے کی روح کو سرشار کیے دیتا ہے۔
شفا کے افسانوں کا نقطہ نظر اور موضوعات کبھی فرد کی نفسیات کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی معاشرتی مسائل اور انسانی المیے کے گرد۔ کہیں پر وہ ایسی افسانہ نگار کے روپ میں نظر آتی ہیں جو انسانی نفسیات کی گرہیں کھولتی چلی جا رہی ہے تو کہیں پر معاشرتی مسائل پر معاشرے کی توانا آواز کے طور پر۔ کہیں خواتین کے مسائل اور حقوق پر آواز بلند کرتی فیمنیسٹ کے روپ میں اور کہیں اپنی ذات کی الجھنوں کی سلجھن تلاشتی افسانہ نگار۔
غرض یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شفا چودھری اپنی پہلی تصنیف کے ساتھ ہی افسانہ نگاری کی دنیا میں شان سے جلوہ افروز ہوئی ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ نام مزید آب و تاب سے جگمگائے گا۔
مصنفہ کے ساتھ ساتھ پریس فار پیس کی ٹیم اتنی عمدہ تصنیف کو سامنے لانے پر مبارک باد کی مستحق ہے۔ دونوں کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات۔
کرن عباس کرن۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact