آرسی رؤف ،اسلام آباد
اس جون کا آغاز یخ بستہ ہواؤں نے کیا تو ہم سمجھے سارا برس اب کے ٹھنڈ برستی رہے گی۔لیکن اگلے ہی ہفتے سورج پوری آب و تاب سے مقابل آن کھڑا ہوا۔ بروز ہفتہ گیارہ جون کو شدید گرمی کے بعد رات کو بارشوں کا سلسلہ دو تین روز جاری رہنے کے بعد پھر رک گیا اور گرمی اپنے جوبن پر جا پہنچی۔ایسے میں شمیم عارف آپا ، تسنیم جعفری صاحبہ کی پریس فار پئس کے تحت چھپنے والی ایک اور تصنیف” منزل ہے جن کی ستاروں سے آگے ” کی تقریب پزیرائی کے کے لئے ایک تقریب کے انعقاد پر مصر نظر آئیں۔
آپا کے خلوص کے سامنے انکار کی گنجائش ہر گز نہیں تھی۔دل میں گھر والوں کادبا دبا خوف موجود ہونے کے باوجود اس خوب صورت تقریب کا حصہ بننے کو جی چاہا۔ممنون ہوں شوہر نامدار کی نہ صرف انہوں نے اجازت مرحمت فرمائی بلکہ شمیم آپا کے دولت کدے تک پہنچا بھی دیا۔یہ اور بات بچے اس روز بھی میری ہی ذمہ داری رہے۔(صد شکر انہوں نے تقریب کے دوران تمیز کا مظاہرہ کیا۔)
شمیم عارف صاحبہ بنفس نفیس استقبال کو موجود تھیں۔ دروازہ پار کیا تو تسنیم جعفری صاحبہ اپنی اپنی مخصوص مسکراہٹ لئے ہم سے ایسے ملیں جیسے صدیوں سے آشنائی ہو۔ذرا جو تقریب گاہ کا جائزہ لیا تو انتہائی سینئر استاذہ کرام تنویر لطیف صاحبہ اور رباب عائشہ صاحبہ کو براجمان پایا ہم تو اپنی ذات میں مزید سکڑ گئے کہ ایسی مہان ہستیوں کے سامنے ہم تو کسی ذرے سے بھی کم حیثیت رکھتے ہیں۔انتہائی بائیں جانب بشری حزیں صاحبہ کے کھلتے چہرے پر نظر پڑتے ہی ہمارے دل کو ڈھارس ہوئی۔مرد حضرات میں ذوالفقار علی بخاری صاحب اور ڈاکٹر عادل تقریب کو چار چاند لگائے ہوئے تھے۔ بچے سرگوشیوں میں ذولفقار علی بخاری صاحب کو پہچان لینے کا دعوی کر رہے تھے۔بلکہ چھوٹی بیٹی کہنے لگی۔
“ماما میں حیران ہوں یہ والے انکل تو میرے والے رسالے میں بھی ہیں”۔دراصل چلڈرن لٹریری سوسائٹی کے تحت چھپنے والے اسی رسالے میں اس کی ننھی سی کہانی چھپی تھی جس میں ذولفقار علی بخاری صاحب کا انٹرویو تھا۔
تنویر لطیف صاحبہ اور رباب عائشہ صاحبہ گویا ایک جانب یک جاں دو قالب ہو کر محفل کی رونق بڑھا رہی تھیں تو دوسری جانب بشری حزیں صاحبہ چلتے پھرتے گاہے گاہے اپنے اشعار سنا کر داد وصول کر رہی تھیں۔
ادیب نگر کی چوتھی سال گرہ کا بھی ساتھ ہی اہتمام تھا لہذا ایک عدد کیک کو دو پارہ کرکے پھر کئی پاروں میں منقسم کرکے شرکاء کو باری باری پیش کیا گیا۔میں جو اسی خوف میں مبتلا تھی کہ بچے بھوک کی موجودگی کی دہائی نہ دے ڈالیں صد شکر کیک کھا کر پر سکون ہو گئے۔
گپ شپ کا سلسلہ جاری تھا کہ قریبا ایک بجے اعجاز احمد نواب صاحب بھی محفل میں جلوہ گر ہوئے۔
شمیم آپا کا بہت شکریہ کہ انہوں نے مجھے بھی میزبانی میں شریک کر کے شرف یاب کیا اور اپنی بہو اقراء کے ہمراہ ان کے فلیٹ سے تیار کھانا لانے کا اعزاز بخشا۔یوں ہم نے بھی انگلی کٹا کر شہیدوں میں اپنا نام لکھوا لیا۔اقراء کسی سگھڑ بہو کی طرح مہمانوں کو کھانا پیش کر نے میں پیش پیش رہیں۔ انتہائی لذیز کھانا جو کہ پلاؤ اور مٹن پر مشتمل تھا ساتھ رائتہ اور سلادکولڈ ڈرنک اورمٹھائی بھی تھی جناب۔ابھی ڈھکن اٹھایا نہیں تھا کہ بشری حزیں صاحبہ بول اٹھیں
“خوشبو بتا رہی ہے کھانا انتہائی لذیذ ہے۔”
ا رباب عائشہ صاحبہ کا لایا خوبانی کا میٹھا جس کی سجاوٹ دیکھ کر ہی منہ میں پانی بھر آیا ، سب نے کھایا اور خوب لطف لیا۔ ڈاکٹر پروفیسر ریاض عادل صاحب نے ذرا جلدی رخصت لی ۔
راقم الحروف سمیت سبھی شرکاء جن میں اعجاز احمد نواب صاحب، ذوالفقار علی بخاری صاحب، نامور مصنفہ محترمہ نسرین اختر نینا، بشری حزیں صاحبہ،رباب عائشہ صاحبہ اور تنویر لطیف صاحبہ نے تسنیم صاحبہ کی کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اعجاز احمد نواب صاحب نے اپنی اردو کہانی کا سفر میں تفصیلی تذکرے کو عندیہ دیا۔مقررین نے پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خواتین کے کردار کو اجاگر کرنے کے لیے تسنیم جعفری کی تازہ تصصنیف کو ایک اہم سنگ میل قرار دیا اور اس اس امید کا اظہار کیا کہ خواتین کو تحقیق اور سائنس کے میدان میں آگے بڑھنے کی تحریک ملے گی۔
یوں اسلام آباد ہائیٹس میں شمیم آپا کے ہاں منعقدہ یہ خوب صورت تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔