Thursday, May 9
Shadow

علامہ اشفاق احمد ہاشمی … کچھ یادیں، کچھ باتیں

تحریر: –  جاوید اقبال ہاشمی
ایک عظیم مفکر کا قول ہے کہ عزت اور رزق کا انحصار صرف رب کی عطا پر ہے اس لیے اللہ کی مخلوق پر مہربانی کرتے رہو، تاکہ تمہارا رب بھی تم پر مہربان رہے، اللہ ہم سب کو صحت و تندرستی اور دائمی خوشیاں عطا فرمائے اور ہر جگہ مدد فرمائے۔ بڑے کردار چھوٹی سوچ نہیں رکھتے البتہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتے ہیں اور احساس کرتے ہیں۔ مظبوط کردار کے لوگ شکایتیں نہیں فیصلے کرتے ہیں۔ ہمارے خیالوں کے علاوہ ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ گھر کا خراب بستر ہسپتال کے بستر سے بہتر ہے اور رزق کی تنگی سانس کی تنگی سے بہتر ہے، لہٰذا ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ معصوم لوگ بے وقوف نہیں ہوتے بس وہ سوچتے ہیں کہ ہر ایک کا دل ان کے جیسا صاف ہوتا ہے۔ موجودہ دور کے انسان کے ساتھ رہنے والی ہر مخلوق نے اگر انسان سے کچھ سیکھا ہے تو وہ نفرت ہے۔ جب انسان کی عقل مکمل ہو جاتی ہے تو اس کی گفتگو مختصر ہو جاتی ہے۔ اِنسان کو کوئی چیز اِتنا نہیں بدلتی جِتنا اُس کے دل پہ گُزری ہوئی تکلیفیں اُسے بدل دیتی ہیں، اور تکلیفیں بھی وہ جو اُس نے تنہا جھیلی ہوتی ہیں۔ اس دنیا میں کسی مخلص انسان کو پانا بڑے نصیب کی بات ہوتی ہے اور اسے کھونا سب سے بڑی بدنصیبی۔بدنصیب لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنی محبت کو کھو دیتے ہیں اور نصیب والے کسی کی محبت کو بنا کوئی کوشش کیے پا لیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک محبت نما عقیدت پر مشتمل شخصیت علامہ اشفاق احمد ہاشمی کی بھی تھی، جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، علامہ صاحب سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ مرحوم وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو کے 5 نکاتی پروگرام کے تحت کھولے گئے نئی روشنی سکول پروگرام میں ضلعی افسر کی حیثیت سے کوٹلی تعینات ہوئے، ہم طالب علم تھے اور کالج کا زمانہ تھا، وطن سے محبت اور آزادی سے عشق، انقلاب جیسے نظریات لیے اپنے احساسات کی پیاس بجھانے ہر اُس در پر پہنچ جاتے جہاں سے علمی میراث کے چند قطرے دستیاب ہوتے، یہ وہ زمانہ تھا جب نظریاتی رشتوں کو خون کے رشتوں پر فوقیت حاصل تھی، طلبہ کی سیاسی تربیت اور نظریات کی ترویج کے لیے خصوصی نشستوں کا اہتمام ہوتا تھا جن میں نامی گرامی صاحب علم شخصیات کے ساتھ سوال و جواب کی اجازت بھی ہوتی تھی۔
علامہ اشفاق احمد ہاشمی وطن سے محبت وراثت میں لے کر پیدا ہوئے تھے، ان کے پاس ہر سوال کا جواب تھا، نشستوں کے دوران ہی معلوم ہوا کہ حضرت مظفرآباد کے مضافاتی علاقے کومی کوٹ کے موضع نور پور نکراں کے علمی خاندان سے ہیں، ان کے والد محترم علاقہ کے ممتاز اور مشہور عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ضلع کونسل کے ممبر بھی رہے، علامہ اشفاق ہاشمی مختصر عرصہ نئی روشنی سکول میں رہے اور اپنے نظریات، افکار کی وجہ سے انہیں یہ نوکری چھوڑنا پڑی، ملاقاتوں کا سلسلہ پھر وقتاً فوقتاً جاری رہا۔ حضرت علامہ دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور مفتی محمود مرحوم کے دور وزارت اعلیٰ میں ان کے ساتھ فرائض سرانجام دیئے، اپنے تجربات اور مشاہدات پر مشتمل کتاب بھی لکھی، تدریس، تالیف انہیں گھٹی میں پلائی گئیں، محاذ رائے شماری کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات بھی رہے۔

بظاہر ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا اور چھوٹے بھائی ارشاد ہاشمی اور مشتاق ہاشمی ان کے معاملات کے ذمہ دار تھے البتہ گھر اہلیہ محترمہ کی ذمہ داری میں رہا جو سکول ٹیچر تھیں، 21 ویں صدی کے آغاز میں جب مسلم کانفرنس ’س‘ اور ’ق‘ میں تقسیم ہوئی تو علامہ مسلم کانفرنس ’س‘ کے روح رواں تھے، راجہ فاروق حیدر خان کے ساتھ ان کی دوستی فکری ہم آہنگی کی بنیاد پر تھی، دونوں ہم عمر ملکی، قومی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کرتے اور انقلاب کی گرہیں کھولنے کی کوشش کرتے۔ اسلام آباد میں علامہ اشفاق احمد ہاشمی کا وسیع حلقہ احباب تھا، پاکستان کے نامی گرامی صحافی اور صاحب علم شخصیات کے ساتھ رابطے ان کا معمول تھے یوں اپنے حلقہ احباب میں راجہ فاروق حیدر خان کو بھی متعارف کروایا جو ان کی سیاسی شخصیت کو ابھارنے میں معاون ثابت ہوا۔ 2001ء کے الیکشن سے پہلے مسلم کانفرنس کی دھڑے بندی ختم ہوئی اور عام انتخابات میں سواد اعظم کامیاب ٹھہری، سردار سکندر حیات خان وزیراعظم منتخب ہو گئے اور راجہ فاروق حیدر خان الیکشن نہ جیت سکنے کے باوجود حکومت کے مشیر خاص بن گئے۔ علامہ اشفاق ہاشمی بھی وزیراعظم کی میڈیا ٹیم میں بحیثیت پریس اینڈ پبلیکیشن آفیسر منسلک ہو گئے یوں ان کے ساتھ ملاقاتوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا، اس سے پہلے تانگہ سٹینڈ مظفرآباد میں ان کی اپنی بیٹھک تھی، اسی اثناء میں ہم بھی فکر معاش میں صحافت کے دشت روزگار میں مبتلا ہو کر مظفرآباد آ گئے اور ایک قومی روزنامے میں پیشہ وارانہ ذمہ داریاں شروع کیں تو حضرت علامہ کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتوں کا سلسلہ چل پڑا، وہ عموماً ہمارے دفتر کو ہی مسکن بناتے اور فاروق حیدر ان کے ساتھ ہوتے، اسی دوران 2005ء کا زلزلہ ہوا جس میں مظفرآباد میں تباہی ہوئی، زلزلہ کے چند گھنٹوں بعد ہم ملے اور ایک دوسرے کو بخیریت پا کر اطمینان کا اظہار کیا اور پھر شہر کے اندر اکٹھے گئے، جامعہ کشمیر سے اپر چھتر تک سارا دن پیدل چلتے رہے، علامہ کا اندازہ تھا کہ مظفرآباد میں اس زلزلے کے نتیجے میں 20 سے 25 ہزار ہلاکتوں کا خدشہ ہے، اسی اندازے کی بنیاد پر اخبار کو خبر بھی ارسال کی جو من و عن شائع ہوئی تو اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید اور جنرل پرویز مشرف دور کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل شوکت سلطان نے اخبار کے چیف ایڈیٹر کو فون کر کے ہلاکتوں کی تعداد سے عدم اتفاق کیا، بعد ازاں کی صورتحال نے نہ صرف اس تعداد درست ثابت کیا بلکہ آزاد کشمیر میں مجموعی طور پر ہلاکتوں کی تعداد 40 ہزار سے زائد رہی، 8 اکتوبر 2005ء کا دن ہمارے لیے آزمائشوں سے بھرپور تھا، حضرت علامہ کی رہائش گاہ محفوظ رہی اور ہم بھی اپنی پناہ گاہ میں محفوظ رہے یوں اگلے روز سے زندگی کا سفر نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ شروع ہوا تو علامہ صاحب ہمارے دست و بازو تھے کیونکہ اگلے چند گھنٹوں کے اندر بین الاقوامی میڈیا میں زلزلے کی تباہی نے دنیا کی توجہ مبذول کروائی اور مظفرآباد ہر ایک کی توجہ کا مرکز بن گیا۔
وزیراعظم سیکرٹریٹ میں تعیناتی کے دوران علامہ اشفاق ہاشمی نے وزیراعظم وقت سردار سکندر حیات خان کے قلمی احکامات کا ریکارڈ مرتب کیا، وہ اسے کتاب کی صورت میں شائع کرنا چاہتے تھے مگر معاشی حالات سازگار نہ ہونے اور سردار سکندر حیات خان کے خاندان کے عدم تعاون کے باعث ایسا نہ ہو سکا تاہم ان کی وفات کے بعد جناب اکرم سہیل پرنسپل سیکرٹری ہمراہ وزیراعظم وقت (سکندرحیات) نے یہ فریضہ سرانجام دیا۔ علامہ اشفاق ہاشمی مستقل تحریری سرگرمیوں میں مصروف رہتے، ان کے مضامین کالموں کی شکل میں مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہے اور جب روزنامہ جموں و کشمیر کا آغاز ہوا تو مستقل کالم نگار کی حیثیت سے اس اخبار کے ساتھ قلمی تعاون کیا۔ روزنامہ آزادی کے ساتھ بھی ان کا قلمی تعلق رہا اور راولپنڈی لیاقت باغ روزنامہ آزادی کے دفتر میں قیمتی وقت دیتے رہے، عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے تو ان کے جذبات وہی تھے جو زندگی بھر ان کی اساس رہے۔ ان کے انتقال کی خبر بروقت نہ ملنے کے باعث آخری رسومات میں شریک نہ ہونے کا دکھ آج بھی ہے، ان کی تحریریں آج بھی ان کی سوچ، فکر اور نظریات کی عکاس ہیں۔ اگرچہ ان کی صحبت سے فیض یاب ہو کر ان کے حلقہ احباب سے متعارف ہونے والے انہیں بھول چکے ہیں لیکن علامہ صاحب کے نظریات اور افکار پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہیں۔ ان کی زندگی اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر گزری، اپنے مؤقف میں کبھی لچک نہیں دکھائی اور نہ ہی اصولوں پر سمجھوتہ کیا۔
کچھ لوگ ہماری زندگی میں صرف تھوڑے وقت کے لئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو لاتا ہے اور پھر نکال کے لے جاتا ہے۔ تکلیف ہوتی ہے مگر دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس نے کسی کو کھویا نہ ہو۔ سب کسی نہ کسی کو کھوتے ہیں، کوئی بے وفائی کے ہاتھوں، کوئی موت کے باعث اور کوئی ذرا سی غلط فہمی کی وجہ سے، لیکن مرتا ان میں سے کوئی نہیں کسی کے لیے سب کو صبر آجاتا ہے کسی کو وقت کے ساتھ کسی کو مصروفیت کے ساتھ اور کسی کو دوسرے انسان کے ساتھ۔ شکر کرنا اپنی خاص عادتوں میں شامل ہونا چاہیے، شکر ادا کرنے والوں کے ہاتھ کبھی خالی نہیں رہے، پریشانیاں ہر ایک کی زندگی میں موجود ہیں، کوئی بھی ایک مکمل زندگی نہیں گزار رہا، بس فرق وہاں پہ آتا ہے جب انسان اپنے معاملات اللہ کے حوالے کرتا ہے اور مطمئن ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ”حَسْبُنا اللہ ُ وَنِعْمََ الْوَکِیْلُ“۔ وہ معجزے بھی اُنہی کے لیے کرتا ہے جو اس کی مصلحتوں سے انکار نہیں کرتے۔ جو تکبر کے تاج کو دور پھینک دیتے ہیں اور عاجزی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ یااللہ بے شک تو بن مانگے ہمیں دنیا کی ہر نعمت عطا فرماتا ہے، ہم تجھ سے تیرا رحم، تیرا کرم اور عافیت مانگتے ہیں، ہم بھٹکے ہوئے ہیں ہمیں وہ زندگی عطا کر جو تو پسند فرماتا ہے، ہم سب پر اپنی عنایات کا در کھلا رکھ اور ہمارے معاملات میں آسانیاں پیدا فرما اور ہمیں آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔

لکھاری کا تعارف

جاوید اقبال ہاشمی ایک سنئیر تجزیہ کار اور اخبارنویس ہیں۔ اپنے طویل صحافتی کیرئر میں  ملک کے صف اول کے اخبارات کے ساتھ بطور ایڈیٹر اور بیورو چیف کام کرچکے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact