شمس رحمان

جب سے مزدوروں میں اپنے حقوق کا شعور پیدا ہونا شروع ہوا دنیا کے مختلف ممالک میں مزدوروں نے ان گنت ہڑتالیں کیں ۔ تاہم مزدو جدوجہد کی چار ایسی ہڑتالیں مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہیں جنہوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔

1۔ بھوسہ بازار ( ہے مارکیٹ) ہڑٹال، جو 4 مئی 1886 کو امریکہ کے شہر شکاگو میں ہوئی ۔ ہڑتالیوں کا بنیادی مطالبہ دفتری اور دیگر ملازمین کی طرح ان کے روزانہ کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹوں تک محدود کرنا تھا۔ ہڑتالی جلوس کے دوران پولیس اور ہڑتالیوں کے درمیان  اس وقت تشدد پھوٹ پڑا جب جلوس میں سے کسی نے پولیس پر بم پھنک دیا جس کے نتیجے میں ایک پولیس والا ہلاک اور 60 زخمی ہوئے۔ جواب میں پولیس نے ہڑتالیوں پر فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں 38 کارکن جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہو گے۔ بعد ازاں عدالت نے کئی یونین رہنماؤں کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ اس واقعے کی یاد میں آج دنیا بھر میں یوم مئی منایا جاتا ہے۔

2۔ دوسری اہم ہڑتال 22 جنوری 1905 کو روس کے شہر سنٹ پیٹرز برگ میں کھیت مزدوروں اور کارکنان نے دیہی زمینوں پر قبضوں کے خلاف کی ۔ محنت کشوں کے ایک پر امن جلوس کو جب سینٹ پٹرز برگ میں شاہی محل کے محافظوں گولیاں برسائیں تو ہزاروں محنت کش جان بحق ہو گئے ۔ اس کے بعد روس میں زار کے خلاف انقلابی تحریک میں شدت پیدا ہوتی گئی اور آخر کار 1917 میں روس میں سوشلسٹ انقلاب نے زار شاہی کا تخت تاراج کر دیا۔

3۔ 1979 میں برازیل میں دھات صاف کرنے والے لاکھوں محنت کش اجرتوں میں اضافے کے لیے ملک کے صنعتی گڑھ ساؤ پالو کی سڑکوں پر امڈ آئے اور شہر کا نظام مفلوج کر کے رکھ دیا۔ آجروں کے نمائندہ حکمرانوں نے ہڑتالیوں کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت استعمال کی لیکن بالاخر تین ماہ میں اجرتوں پر نظرثانی کرنے کی حامی بھر لی۔ مزدروں کی اس تحریک سے ورکرز پارٹی نے جنم لیا جو آج برازیل کی ایک مرکرزی سیاسی جماعت ہے۔

4۔ یہ ہڑتال پولینڈ کے مزدوروں نے خوراک اور دیگر اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف کی اور لینن شپ یارڈ پر قبضہ کر لیا ۔ یہاں اگرچہ کیمونسٹ حکومت تھی لیکن اس نے بھی ہڑتال کے رہنما لیخ والینسا کو گرفتار کرنے کے لیے ریاستی مشینری استعمال کی لیکن آخر کار ہڑتالیوں کے مطالبات مان لیے اور مزدوروں کی بین الاقوامی تنظیم کے اصولوں کے تحت ہڑتال کرنے کی آزادی دی۔ 

ظاہر ہے کہ یہ تاریخی ہڑتالیں تھیں جن کے دور رس نتائج نہ صرف ان ممالک میں مزدوروں کے حقوق کی انقلابی جدوجہد پر مرتب ہوئے جہاں یہ ہڑتالیں کی گئیں بلکہ دنیا میں مزدوروں کی مجموعی جدوجہد کو بھی ان سے تقویت ملی۔ تاہم دنیا میں عالمی مزدوروں کی جدوجہد کے مورخ بہت سے ممالک میں ان ہی کے جیسی موثر کن ہڑتالوں سے  ناواقف چلے آرہے ہیں ۔  جہاں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی مورخین اور ذرائع ابلاغ کی توجہ  بڑے صنعتی شہروں پر مرکوز رہتی ہے وہاں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے بڑے مراکز سے نظر نہ آنے والے  ان خطوں کے اپنے مورخین نے ان ہڑتالوں پر بہت کم لکھا ہے ۔ جس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ یہاں تاریخ اور تجزیہ نگاری فرقہ وارانہ، نسلی، اور قومی و قومیتی عینکیں لگا کر کی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے ہے اپنے خطوں میں مزدوروی کی تاریخی جدوجہد کی تاریخ سے ان خطوں میں پروان چڑھنے والی نوجوان نسل جو انقلابی جدوجہد میں مصروف ہے وہ بھی بے خبر نظر آتی ہے۔ ریاست جموں کشمیر بھی ایک ایسا ہی خطہ ہے جہاں مزدور جدوجہد مذکورہ تاریخی ہڑتالوں میں سے معروف ترین ‘ ہے مارکیٹ’  سے چالیس سال قبل شروع ہوئی لیکن اس کی تاریخ سے خود کشمیری انقلابی بھی پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ اس مضمون کا بنیادی مقصد عالمی مزدور جدوجہد کے ایک اہم حصے کے طور پر ریاست جموں کشمیر میں مزدوروں کی اہم اور تاریخی ہڑتالوں کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنا ہے۔

پس منظر

ریاست جموں کشمیر  کی تاریخی کتب میں سب سے زیادہ حوالہ  26 مارچ 1924 کو ہونے والی ہڑتال کا دیا جاتا ہے جب ریشم کارخانہ سری نگر جو برطانیہ  کی ریشم انجمن (سلک ایسوسی ایشن) نے 1897 میں قائم کی تھی کے ارکان  نے تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتال  کی تھی ۔ بعض مصنفین 29 اپریل 1865 کو ریشم مزدوروں کے جلوس کی جدوجہد کا نقطہ آغاز بتاتے ہیں۔ بہت کم مورخین نے لکھا ہے کہ درحقیقت ریاست جموں کشمیر میں پہلی مزدور ہڑتال 6 جون 1847 کو ہوئی تھی۔  ان تینوں ہڑتالوں اور احتجاجوں کا قدرے تفصیلی حال پیش کرنے سے پہلے ریاست ( اور اس سے پہلے کے کشمیر) میں شال بافی کی صنعت کا مختصر پس منظر پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

کشمیری شال مغل بادشاہ بابر کے زمانے سے کشمیر کے ارد گرد خطوں کے نام نہاد اشرافیہ ( امیر اور حکمران) طبقات میں ایک فیشن بن چکا تھا۔ کئی صدیوں سے کشمیری شال بافوں کے تیار کردہ شال ایران اور ہندوستان کے اونچے طبقوں کے استعمال کے لیے برآمد کیے جاتے تھے۔ بہترین شالیں یار کنڈ اور لداخ کے تیان شان اور اوش ترفان پہاڑوں کی اونچائیوں پر پلنے والی خاص قسم کی ‘بکریوں’ کے پیٹ پر اگے بالوں کی تہہ میں اگنے والے نرم و نازک اندام بالوں سے بنتے ہیں جس کو ‘پشمینہ’ یا ہماری پہاڑی میں ‘پشم’ کہتے ہیں۔ یہ بال مقامی چرواہے اور مزدور محنت و مہارت سے ‘ چُنتے’ اور کاروانوں میں کشمیر لاتے جہاں عورتیں بچے اور مرد مزدور کئی دنوں کی مسلسل اور سخت محنت سے بُنتے۔

اٹھارویں صدی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج کو تربیت دینے کے لیے آنے والے یورپی افسران نے اس مسحور کن، نرم اور لچکدار شالوں کو دیکھا تو اس کو اپنے گھر والوں کو تحفے کے طور پر بھیجنے لگے۔ 1798-99 میں مصر پر قبضے کی مُہم کے دوران فرانس کے بادشاہ نپولین بوناپارٹ نے اپنی ملکہ جوزفین کو کشمیری شال تحفے میں دیے تو دیکھتے ی دیکھتے یورپ بھر میں کشمیری شال فیشن بن گیا۔ اونچے طبقات میں طلب کو پورا کرنے کے لیے فرانسیسی تاجروں کی کشمیر میں آمدورفت ہونے لگی۔

ستارویں صدی  کے ژروع عشروں میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں کی  ہندوستان آمد کے بعد جلد ہی اس کے افسران بھی کشمیری شال سے واقف ہو گئے تو انہوں نے بھی یہ شاندار تحفہ اپنی خواتین کو بھیجنا شرور کیا اور جلد ہی یہ برطانیہ کے اعلیٰ طبقات اور شاہی خاندانوں کی خواتین میں ‘حیثیت کی علامت’ ( سٹیٹس سمبل) کے طور پر جانا جانے لگا۔

16 مارچ 1846 کو جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے درمیان معائدہ امرتسر کے نیتجے میں ریاست جموں کشمیر کا قیام عمل آیا تو مہاراجہ گلاب سنگھ نے نوخیز ریاست کی آمدنی کو بڑھانے کے لیے اس صنعت کو استعمال کرنے کے لیے استحصالی اقدامات کیے۔

کارخانہ داروں نے ٹیکسوں میں کمی، دستکاروں کی تنخوائیں مقرر کرنے اور شال بافی کی صنعت کے لیے باضابطہ قوانین بنانے کی درخواستیں کیں لیکن گلاب سنگھ کے دربار میں شنوائی نہ ہو سکی۔

کشمیری  مزدوروں کی پہلی تاریخی ہڑتال۔

لہذا قحط سالی میں نئے ٹیکسوں کے خلاف دستکاروں میں اندر ہی اندر بغاوت پیدا ہوتی رہی اور 6 جون 1847 کو چار ہزار مزدور کھڈیاں چھوڑ کر یعنی ہڑٹال کر کے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ لاہور اور امرتسر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں تنخواہوں اور خوراک سے محروم دیگر مزدور اور کسان بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ مہاراجہ کے کارندوں نے ترک وطن کرنے والوں کو روکنے کے لیے طاقت کے استعمال اور پنجاب کے ساتھ ریاست جموں کشمیر کی سرحدیں بند کرنے سمیت مختلف حربے استعمال کیے۔

مزدوروں کے حالات ابتر ہونے کے باجود یورپ میں بڑھتی ہوئی مارکیٹ کی وجہ سے شال بافی کی صنعت فروغ پاتی رہی ۔ 1865 میں گیارہ ہزار کھڈیوں پر ستائیس ہزار مزدور کام کرتے تھے۔ معاشی مورخ ڈی این دھر کے بقول 1860 اور 1870 کے درمیان شالوں کی سالانہ درآمد اڑھائی سے تین لاکھ روپے تھی۔ ریاست کے تخت پر اب مہاراجہ رنبھیر سنگھ بیٹھا ہوا تھا ۔ اس نے داغ شالی کا ایک نیا شعبہ قائم کیا جس کے ذمے 12 لاکھ روپے سالانہ اکٹھے کرنا تھا۔ اس شعبے کی سربراہی پنڈت کاک دھر کو ملی جس نے یہ ہدف پورا کرنے کے لیے کارخانہ داروں کے ساتھ مل کر ٹیکس کا سار بوجھ مزدوروں پر ڈال دیا۔ انہیں سالانہ 49 روپے ٹیکس کی مد میں ادا کرنا پڑتے تھے۔ جبکہ کل آمدنی تقریباً سات روپے یومیہ کے حساب سے 84 روپے بنتی تھی یعنی آدھے سے زیادہ آمدنی ٹیکس میں چلی جاتی تھی۔ اس پر ستم یہ کہ داغ شالہ کا عملہ بھی مزدوروں سے غیر قانونی طور پر رقم بٹوڑتا رہتا تھا۔ جب صورت حال فاقوں تک جا پہنچی تو مزدوروں نے مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔

کشمیری  مزدوروں کی دوسری ہڑتال

لہذا 29 اپریل 1865 کو ہزاروں  بافندے کام چھوڑ کر  ایک پر امن جلوس کی شکل میں اپنے حقوق کے لیے نعرے لگاتے ہوئے گورنر کرپا رام کے دفتر واقع زیلدہ گر میدان کی طرف چل نکلے۔ کاک دھر نے اعلیٰ حکام کو خبر دی کہ مزدوروں نے بغاوت کر دی ہے۔ جلوس ابھی پرانے شہر کے مضافات میں  پہنچا تھا  کہ ریاستی فوج کے کرنل بیجے ( ہندی میں وجے)  سنگھ کی کمانڈ میں مسلح فوجیوں نے نہتے مزدوروں پر لاٹھی چارج کرتے ہوئے ان کو حاجی پتھر پل کی طرف دھکیل دیا۔  بعض شہادتوں کے مطابق فوجیوں نے مظاہرین پر گولی بھی چلائی کے نتیجے بھگدر مچنے پر کئی مزدوروں نے جان بچانے کے لیے نیچے دریا میں چھلانگیں لگا دیں اور 28 مزدور جان بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ دوسرے دن دریا سے اپنے ساتھیوں کی لاشیں نکال کر مزدوروں نے مہاراج کے محل کی طرف جلوس کی شکل میں چلنا شروع کیا تو مہاراج کے فوجیوں نے انہیں راج محل کی طرف جانے سے روک دیا۔

جیسا کہ  دنیا بھر میں جابر و ظالم حکمرانوں کا وطیرہ ہوتا ہے مزدوروں کے پر امن احتجاج کو جبووتشدد کے ذریعے کچلنے کے بعد مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے جموں کے بہوو قلعہ جیل  میں ڈال دیے گئے جہاں کئی ایک وحشیانہ تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گئے۔ مورخ تمام مقتولین کے نام تو معلوم نہیں کر سکے تاہم کچھ مزدور رہنماؤں کے نام تاریخ کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ ان میں سے شیخ رسول اور علی بابا کو شیر گڑھی محل میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا جب کہ قدوس لالہ اور سونا شاہ کو پچاس ہزار فی کس جرمانہ ادا نہ کر سکنے پر جموں کے بدنام زمانہ باہو قلعے میں قید کر دیا گیا۔ سینکڑوں دوسرے قیدیوں کو ‘ہابک’ کی جیل میں قید میں ڈال دیا گیا جہاں وہ بھوک اور سردی کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوئے۔

اس تاریخٰ ہڑتال کی ناکامی اور احکام کی سخت گیر پالیسیوں اور سلوک کے اور کچھ عالمی واقعات کے نتیجے میں شال بافی کی صنعت اور بافندوں کے حالات مزید ابتر ہو تے گئے۔ 1870 میں فرانس کی جرمنی کے ساتھ جنگ کہ وجہ سے شالوں کے لیے فرانسیسی مارکیٹ بند ہو گئی ۔ کشمیر میں 1877  کے قحط کے باعث ہزاروں دستکار شہر سے دیہات  اور کچھ کی طرف نکل گئے۔ تنخوائیں مزید گر گئیں اور 1891 تک شال بافوں کی تعداد ستائیس ہزار سے کم ہو پانچ ہزار ہو گئی۔ 1895 میں سامراجی ایڈمنسٹریٹر والٹر لارنس نے اپنے مشاہدات میں لکھا کہ جتنا خوبصورت مزدوروں کا یہ آرٹ ہے ان کے کام کے حالات اتنے ہی گندے اور بھدے ہیں۔ اس نے مزدروں کی حالت زار پر افسردگی سے لکھا کہ سری نگر میں کوئی دستکار کھانے کے لیے پیشگی پیسے لیے بغیر کام نہیں کرتا۔

کشمیری مزدوروں کی تیسری ہڑتال

1897 میں ریشم انجمن برطانیہ کے صدر  تھامس وارڈل نے سری نگر سلک فیکٹری ( رشیم کارخانے) کی بنیاد رکھی۔ 1920 کے عشرے تک ریشم خانہ صنعت تو بحال ہو گئی لیکن ایسا لگتا ہے کہ مزدوروں کی تنخوائیں بڑھنے کی بجائے کم ہوتی گئیں۔ 1924 میں مزدور کی تنخواہ ساڑھے چار آنے تھی اور انہیں بدتر حالات میں کام کرنا پڑتا تھا۔ اس کے خلاف ایک بار پھر مزدوروں نے اعلیٰ احکام تک اپنی شکایات اور مطالبات پہنچائے مگر بہتری کے لیے کوئی اقدامات نہ اٹھائے گئے۔ لہذا 26 مارچ 1924 کو تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتال کر دی۔ مطالبات منظور نہ ہونے پر 12 جولائی کو مزدوروں نے ایک پر امن جلوس نکالا جو کسی ناخوشگوار واقعے کے بغیر ختم ہو گیا۔ تاہم 15 جولائی کو تنخواہ کمشن نے فیکٹری کا دورہ کیا لیکن مزدورجو فیکٹری کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھے تھے انہوں نے کمشن کو اندرنہ جانے دیا۔ اگلے روز انہوں نے گپکار جا کر اپنے مطالبات احکام کے سامنے پیش کیے ۔ 19 جولائی کے روز ضلعی مجسٹریٹ کو بتایا گیا کہ فیکٹری میں حالات بہت سنگین نوعیت اختیار کر گئے تھے ۔ صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے پورا علاقہ ایک کرنل رینک کے فوجی کی کمان میں انفنٹری اور کاولری کے حوالے کر دیا گیا۔ 20 جولائی 1924 کو پچیس افراد چپکے سے گرفتار کر لیے گئے جن میں سےاکیس کو سنٹرل جیل سری نگراور چار کو شیرگڑھیتھانے میں ڈال دیا گیا۔ 21 جولائی کو دو ہزار مزدور جلوس کی شکل میں اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے نعرے لگاتے ہوئے شیر گڑھی تھانے کے باہر پہنچ گئے۔ مجمعے کو منتشر کرنے کا حکم ملنے پر فوجیوں نے گولی چلا دی جس کے نتیجے میں سرکاری ذرائع کے مطابق دس مزدور جاں بحق اور بیس زخمی ہو گئے۔  پورے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ احتجاجی مزدوروں کو لوگوں نے مشن ہسپتال پنچایا جب کہ لاشیں سپائی لے گئے۔

ریشم خانہ مزدوروں کی اس ہڑتال کے بعد ریاست کے دونوں بڑے صوبوں جموں اور وادی کشمیر میں برٹش انڈیا سے کی یونیورسٹیوں اور شہروں میں مقیم طلباء اور متوسط طبقے کے سیاسی کارکنان کے ذریعے  جدید عوامی سیاست کے مختلف اظہار سامنے آنا شروع ہو گئے۔ 1930 تک سیاسی بیداری نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ اگرچہ اس تحریک کے مطالبات میں مزدروں اور کسانوں کے حالات اور حقوق کو بھی شامل رکھا گیا لیکن ریاست میں مزدوروں اور کسانوں کی بھاری اکثریت مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ تحریک بتدریج مہاراجہ راج اور استحصال کے خلاف عوامی تحریک کی بجائے مذہبی تحریک کی شکل اختیار کرتی گئی اور پھر برطانوی ہند میں برطانوی راج کے خلاف تحریک کی طرح یہاں بھی تحریک ہندو راج اور جموں کے ڈوگڑوں کے خلاف تحریک بن گئی جو جلد ہی دو قومی نظریے کے طوفان میں بہہ کر کانگرس اور مسلم لیگ کے سیاسی اثرورسوخ تلے ریاست جموں کشمیر کی تقسیم اور یہاں فوجی قبضے پر منتج ہوئی۔

اگرچہ اس عوامی سیاست کے مختلف پہلوؤں پر بیسیوں کتابیں موجود ہیں لیکن مزدوروں کی ہڑتال دھیرے دھیرے پس منظر میں چلی گئی اور آج ریاست میں آزادی اور انقلاب پسند حلقوں میں بھی ان ہڑتالوں کے بارے میں کوئی خال خال ہی جانتا ہے۔ امید ہے کہ جلدی میں لکھا گیا یہ مضمون اس حوالے سے کسی حد تک مفید ثابت ہو گا اور مزید لکھاری اس پر اور بھی لکھیں گے۔

منقسم کشمیر میں مزدوروں کی جدوجہد کی نوعیت کیا رہی اور اس نے کیا شکلیں اختیار کیں یہ ایک طویل موضوع ہے جس پر کسی اور نشست میں۔

حوالہ جات

https://kashmirlife.net/1865-kashmir-weavers-agitation-173473/

https://tnlabour.in/service-sector/4526

https://www.facebook.com/KPAFofficial/photos/21-july-1924-it-is-disheartening-to-notice-that-no-kashmir-based-newspapers-toda/808107302912701/

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact