از قلم: نگہم فاطمہ

میرا بچپن عام خیال بچوں کی طرح نہیں تھا۔ میری جماعت میں پڑھنے والے بچے بچیوں کے خواب تھے کہ کسی نے ڈاکٹر بننا تھا، کسی نے جہازوں کو ہوا میں گوتے کھلانے تھے، کسی نے تعلیم کے فروغ میں خدمات انجام دینی تھی، تو کسی نے مادر ملت کے لیے جانوں کی قربانی دینی تھی۔ چھوٹی، ننھی آنکھوں کے بڑے خواب۔ لیکن میں واحد بچی تھی جو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ہمیشہ کشمکش کا شکار رہتی تھی کہ “بیٹا! آپ بڑی ہو کر کیا بنیں گی؟”۔ میرے ذہن میں ہر دم ایک جستجو کا نقشہ بنا رہتا تھا جس کے بھولے بھٹکے راستوں میں، میں ہمیشہ کھو جایا کرتی تھی۔
 مجھے چاند دیکھنا بہت پسند تھا۔ میرے گھر میں میرے دادا کی ایک دور بین ہوا کرتی تھی جو وہ جرمنی سے لائے تھے۔ میں اکثر رات کی پہروں میں بیٹھ کر اس دور بین سے چاند کے گڑھوں کا مشاہدہ کیا کرتی تھی۔ اس دور بین سے صرف چاند ہی دکھتا تھا۔ اگلے ستاروں تک اس کی رسائی نہیں تھی۔ مجھے اکثر چاند کے بارے میں تجسس ہوا کرتا تھا جو مجھے کائنات کے بارے میں مزید سوال کرنے پر اکسایا کرتا تھا۔ میں اپنی کلاس کی وہ بچی ہوا کرتی تھی جسے سائنس کی کتاب میں نظامِ شمسی والا باب بہت پسند ہوا کرتا تھا۔ ان چاند کے گڑھوں میں گھومتے ہوئے مجھے ایک دن خیال آیا کہ میں ایسٹروناٹ یعنی خلا باز بنوں گی۔ بس وہ چاند دیکھتے دیکھتے میں فلاسفر بن گئی۔ اب میں کائنات میں خلاباز کی حیثیت سے جا تو نہیں سکی لیکن فلاسفر کی حیثیت سے زمین پر بیٹھ کر ہی کائنات کے بارے میں کچھ حقائق ڈھونڈ لیے۔ میری اس ناقص تحقیق کا جو نچوڑ نکلا ہے وہ ذرا میں آپ کے ساتھ بھی پیش کرنا چاہتی ہوں۔
اللّٰہ رب العزت کی اِس وسیع و عریض کائنات میں ہر اِنسان کے لیے بے شمار نشانیاں ہیں کہ اِن پر غور و فکر کر کے، اِن کو سمجھ کر اپنے رب کی کھوج کی جائے کہ جس کے وجود کے جلوے اِس کائنات کے ہر ذرے سے جھلکتے ہیں. اس کائنات میں ہر سو کُن فیکون کے نظارے ہیں۔ اگر ہم تخلیقِ کائنات کے قرآنی اور سائنسی پہلوؤں کا جائزہ لیں تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کے کس طرح کائنات وجود میں آئی اور اس کا ارتقا ہوا. تخلیقِ کائنات کے متعلق متعدد اور بے شمار سائنسی نظریے موجود ہیں اور اِن نظریات کا اجراء بابائے فزکس یعنی “نیوٹن” کے دور سے ہوا۔ مختلف ادوار میں مختلف سائنسدانوں نے مختلف تصورات کے پیشِ نظر مختلف نظریات پیش کیے جن پر اختلاف کی صورتیں بھی ہر دور میں مختلف طریقوں سے موجود رہی ہیں۔
نیوٹونین فزکس سے جن تصورات نے جنم لیا اُن سے اِنسانی دماغ میں نقشہ پیدا ہوا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ آج کے سائنسی دور میں اس تصور کی نفی کر دی گئی ہے۔ آج دنیا کے تمام سائنسدانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ کائنات ایک خاص پروسس یا عمل کے تحت عمل میں آئی “اینڈ دِس یونیورس ہیز این اینڈنگ” یعنی کائنات ختم ہو جائے گی۔
تخلیقِ کائنات کا جو تصور سائنس کی رو سے دیا گیا ہے وہ یہ بیان کرتا ہے کہ کائنات ایک دھماکے کے نتیجے میں پھیلتے ہوئے مادے کی صورت میں وجود میں آئی جسے سائنسی اصطلاح میں بگ بینگ تھیوری کا نام دیا گیا ہے
سائنس کی رو سے اگر حقائق سے پردہ اٹھایا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کائنات اک اکائی(یونٹ) سے وجود میں آئی۔

بگ بینگ تھیوری کے مطابق کائنات کے وجود کا آغاز اک دھماکے کے نتیجے میں ہوا۔ ایک عظیم دھماکہ جس کے نتیجے میں کائنات کا ظہور ہوا، ستارے اور سیارے وجود میں آئے، کہکشاؤں کا سلسہ شروع ہوا اور ایک منظم نظامِ کائنات کا آغاز ہو گیا۔ سٹیفن ہاکنگ کے مطابق دھماکے کے بعد کائنات کا درجہِ حرارت آہستہ آہستہ گرنا شروع ہو گیا اور ایک خیال کے مطابق کائنات کے ٹھنڈے ہونے اور پھیلنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے۔ یہ تھیوری کائنات کے آغاز کا تصور پیش کرتی ہے۔ بیسویں صدی میں پیش ہونے والے سائنس کے اس مفروضے پر بڑی تحقیق کے بعد تمام سائنسدان تخلیقِ کائنات کے اس تصور پر متفق ہو گئے ہیں۔ سائنسی دنیا میں ثابت ہونے والی ایک حقیقت کو قرآنی پہلو سے دیکھیں تو آج سے چودہ سو سال قبل اللّٰہ رب العالمین نے قرآن میں اس حقیقت کو واضح کر دیا تھا۔

 آسمان اور زمین میں سب ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنھیں پھاڑ کر جدا کیا”
  (سورۃ الانبیآء ۳۰:۲۱)
کائنات کو وجود میں آئے تقریباً ۱۵ کھرب سال ہو چکے ہیں اور کائنات اور اس میں موجود ہر شہ اپنے ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے۔ قرآن مجید میں سات آسمان و زمیں کا ذکر ہے اور اِن کے وجود کو سائنسی پہلو سے بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
پہلا آسمان وہ خلائی میدان ہے جس کی بنیاد ہمارے نظامِ شمسی پر ہے۔
دوسرا آسمان ہمارے کہکشاں کا خلائی میدان ہے۔
تیسرا آسمان وہ خلائی میدان ہے جو کہکشاؤں کے مجموعے پر مشتمل ہے۔
چوتھا آسمان وہ خلائی میدان ہے جو کہکشاؤں کے تمام گروہوں کی تشکیل پاتا ہے۔
پانچواں آسمان وہ خلائی میدان ہے کائنات کی خلائی پٹی بناتا ہے۔
چھٹا آسمان وہ خلائی میدان ہے جو پھیلی ہوئی کائنات کو گھیرے ہوئے ہے۔
اور ساتواں آسمان وہ ہے جو کہکشاؤں کے غیر محدود بیکرانی سے تشکیل پاتا ہے۔
گو کائنات ایک مکمل نظام کے تحت وجود میں آئی اور کائنات کا نظام بھی ایک خاص ترتیب کے ساتھ بنا اور چل رہا ہے۔
کائنات کے ہمیشہ سے ہونے اور ہمیشہ رہنے کا نیوٹونین تصور سائنس اور قرآن دونوں پہلوؤں سے رد ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں کائنات کے بننے اور خاص مدت تک وجود میں رہنے کے واضح دلائل موجود ہیں۔ سائنس اس بات کو مانتی ہے کہ ایک مخصوص مدت کے بعد کائنات اور اس میں موجود تمام تر مادہ اپنی توانائی کھو دے گا اور کائنات سکڑنا شروع ہو جائے گی اور مزید ایک دھماکے کے نتیجے میں ہمارے نظامِ شمسی اور کہکشاؤں سمیت تمام کائنات تباہ ہو جائے گی۔
قرآن میں ہمارے پاس کائنات کے خاتمے اور قیامت کے وقوع پزیر ہونے کی واضح آیات موجود ہیں۔

پھر ایک وقت معین کیا  اور ( دوسرا )  معین وقت خاص اللّٰہ ہی کے نزدیک ہے  پھر بھی تم شک رکھتے ہو ۔ 
(سورۃ الانعام، ٦:.٢)
یعنی کائنات ہمیشہ کیلئے نہیں ہے، معینہ مدت کے بعد اس کا خاتمہ طہ ہے۔ ایکسپینشن آف یونیورس یعنی کائنات کے پھیلاؤ کے حوالے سے جو سائنسی نظریات موجود ہیں ان کے مطابق کائنات کے وجود میں آنے کے بعد ہر مادے کی حرارت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے کائنات میں پھیلاؤ کا عمل واقع ہوا اور کائنات آج تک پھیل رہی ہے کہ اس کی وسعت کا اندازہ لگانا ماورائے انسانی عقل ہے۔ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور اس میں مسلسل کشادگی واقع ہو رہی ہے۔ قرآن میں بھی کائنات کی وسعت پذیری اور پھیلاؤ کے عمل کے بارے میں آیات موجود ہیں
اقبال نے کہا…
کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون۔

انسانی عقل نے کائنات کے جتنے بھی رازوں سے پردہ اُٹھایا وہ سب قرآن کی آیت میں پہلے سے واضح شدہ ہیں۔ یہ تمام تر حقائق وہ ہیں جو انسانی عقل کی دسترس میں ہیں۔
اس مادی کائنات کے وجود سے پہلے بھی اک حرفِ کُن واقع ہوا تھا۔ اللّٰہ رب العزت کے اُس اولین حرفِ کُن سے ایک لطیف نور پیدا ہوا جس میں نہ حرکت تھی نہ حرارت۔ یعنی تخلیقِ ارواح کا تصور جس کے متعلق قرآن کی روشن آیات موجود ہیں۔ مگر سائنس اس حقیقت تک پہنچنے سے قاصر ہے اور نہ ہی سائنس یہ جان سکی ہے کہ کائنات کے وجود سے بھی پہلے، کُن فیکوں کی کیا صورت رہی ہو گی۔
اگرچہ سائنس روح کی تخلیق اور ضابطوں کے بارے میں بہت سے نظریات پیش کرتی ہے مگر سائنس کا معلومات کا دائرہ بہت محدود ہے۔ سائنس تخلیقِ ارواح کے بعد تنزلات (وجودِ حواسِ خمسہ) اور ارتقا کی حالتوں سے جزوی اور کُلی طور پر نا واقف ہے۔ یہ میرا تجسس تھا جس نے مجھے کائنات کے بارے میں جستجو کرنے پر اآمادہ کیا اور اس میں میرے دادا کی دور بین کا بڑا کردار تھا۔
nighamfatima786@gmail.com

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact