از:*حمزہ سعید*
کالج سے چھٹی ہوئی ہم تیزی سے باہر نکلے خون دینے کے لیے ہمیں اسپتال جانا تھا ہم کالج کے صدر دروازے سے نکلے موٹر سائیکل کو کک لگائی اور تین دوست موٹر سائیکل پر سوار ہو گئے اسپتال ”عباس انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز“ (امبور) کا رخ کیا،  اسپتال پہنچے، خون نکالنے والے وارڈ میں پہُںچے، خون نکلوانے سے پہلے ہم نے مِلک شیک(جوس) پی لیا، میرا اور مریض کا بلڈ گروپ چوں کہ ایک ہی تھا لہٰذا میں نے فارم فل کیا اور وارڈ میں جا کر نرس کی ہدایت کے مطابق بیڈ پر لیٹ گیا، نرس آئی اور میری بائیں کلائی پر پٹی باندھی اور رگ کی کھوج میں مگن ہو گئی، تھوڑی کوشش کی مگر میری پتلی رگوں کی وجہ سے رگ کھوجنے میں ناکام رہی، دائیں بازو سے پٹی نکال کر بائیں بازو پر کس دی اور پھر سے رگ ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئی، کُچھ کوشش کے بعد ایک رگ کو کھوجنے میں کامیاب ہو گئی اور فوراً سے سوئی اٹھا کر اپنے نازک ہاتھوں سے آہستہ آہستہ میری بائیں کلائی کی ایک رگ میں داخل کر دی اور خون نالی میں آنا اور پیکٹ میں جمع ہونا شروع ہو گیا دس منٹ کے لگ بھگ پیکٹ پورا ہو گیا اور اسی نرس نے آ کر خون بند کر کے میری کلائی سے سوئی نکال لی اور مجھے پانچ منٹ بیڈ پر لیٹے رہنے کا مشورہ دیا، خیر میں پانچ منٹ تک لیٹا رہا اور پھر بیڈ چھوڑ کر باہر آ گیا، میں عام حالت میں تھا، انتظار گاہ میں ایک ادھیڑ عمر خاتون (جو لباس اور چال چلن سے غریب گھر کی لگتی تھیں) بیٹھی تھی اس نے شاید مجھے وارڈ میں خون دیتے دیکھ لیا تھا اس نے مجھ سے کہا! ”آؤ بیٹھ جاؤ تمہیں چکر آ جائیں گے گر جاؤ گے“ میں نے نفی میں سر ہلا کر کہا نہیں آنٹی میں ٹھیک ہوں اور میں ایک ضروری فون کرنے کے لیے باہر نکلا تب اچانک سے میرے ماتھے سے پسینہ آنا شروع ہو گیا اور مجھ پر غنودگی طاری  ہونے لگ گئی، میں واپس اندر آ کر انتظار گاہ میں اس ادھیڑ عمر خاتون کے عقب میں بیٹھ گیا، اس دوران میرے تین ساتھیوں میں سے دو باہر اور ایک وارڈ میں دوسرے دوست کے ساتھ تھا جس کا اس دوران خون نکالا جا رہا تھا۔ میں کرسی پر بیٹھ گیا میرے عقب میں بیٹھی وہی خاتون مجھے بار بار گھورے جا رہی تھی، میں نے اُس کی طرف زیادہ توجہ نہ دی اور جیب سے ٹشو نکال کر اپنے ماتھے سے پسینہ صاف کیا اور کرسی سے  ٹیک لگا کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر کے تھوڑی دیر آرام کے لیے بیٹھ گیا، کُچھ ہی منٹوں میں میرا پسینہ خشک ہو گیا اور میری نیند بھی ختم ہو گئی المختصر میں اپنی اصل حالت میں واپس آ گیا، تب تک میرے دو ساتھی بھی میرے پاس آ کر بیٹھ گئے، اسی اثنا میں وہ اُدھیڑ عمر خاتون میرے پاس آئی اور اس کے ہاتھ میں سو روپے کا نوٹ تھا اس نے وہ سو روپے کا نوٹ میری طرف بڑھایا کہ تم اس کا جوس پی لو، تم نے خون دیا ہے تمہیں چکر آ رہے ہوں گے انہوں نے کافی کوشش کی وہ پیسے مجھے دیں مگر میں نے وہ پیسے لینے سے انکار کر دیا میں نے اور میرے دوستوں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انھیں کسی بھی قسم کی مدد کا پوچھا! انہوں نے جواب دیا بیٹا مجھے خون کی ضرورت تھی جو مجھے مل گیا اور پھر جاتے ہوئے ایک ایسی بات کہہ گئیں جس پر مجھے خود پر بہت فخر ہوا مگر ان کے الفاظ نے مجھے آبدیدہ کر دیا۔ ان کے الفاظ کُچھ یوں تھے! ” میری چار بیٹیاں ہیں جن میں سے آج ایک بیمار ہے میں اُسی کے ساتھ یہاں آئی ہوں، میرا اپنا ایک ہی بیٹا تھا جو دو سال قبل حادثاتی موت کا شکار ہو کر اس وجہ سے اللّٰہ کو پیارا ہو گیا کہ اسے وقت پر خون نہیں مل پایا جس سے اس کے آپریشن میں تاخیر ہو گئی، بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ چل بسا “ ان الفاظ کے ساتھ اس خاتون کی آنکھوں سے آنسوں نکل پڑے۔ اس خاتون کے ان الفاظ سے مجھے احساس ہوا کہ ہمارا خون کا دیا گیا ایک پیکٹ نا صرف ایک زندگی بچا سکتا ہے بل کہ اس ایک کے پیچھے کئی زندگیاں/ کئی خاندان اجڑنے سے بچا سکتا ہے!
جیسا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے:
”جس نے ایک انسان کو بچایا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا“


Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact