Saturday, April 27
Shadow

مظفرآباد کے مندروں کی خستہ حالی تحریر: حمزہ سعید 

تحریر: حمزہ سعید 

ہم کمرہ امتحان سے آخری پرچہ دینے کے بعد نکلے، دوست اکٹھے ہوئے اور کہیں گھومنے کے ارادے سے کالج کے صدر دروازے سے نکل کر سڑک پر آ گئے، کسی نے پیر چناسی، کسی نے مچھیارا پارک، کسی نے جلال آباد پارک، تو کسی نے لال قلعے جانے پر زور دیا، بلآخر اتفاق ہوا کہ ہمیں مظفرآباد میں واقع تاریخی مندروں کو دیکھنے کے لیے چلنا چاہیے، ہم میں سے کسی نے بھی ان مندروں کو پہلے نہیں دیکھا تھا تاہم ہم میں سے اکثریت نے ان مندروں کے بارے میں سن رکھا تھا، ہمارے پاس چند موٹر سائیکلیں تھیں، ہم موٹر سائیکلوں پر سوار ہو گئے اور سب سے پہلے ہم نے قریب ترین مندر جو کہ مدینہ مارکیٹ میں واقع ہے اس کی طرف رخ کیا ہم مدینہ مارکیٹ میں داخل ہوئے ہمیں اتنا تو پتہ تھا کہ مندر مدینہ مارکیٹ میں ہی ہے مگر ہمیں لوکیشن کا اندازہ نہیں تھا لوگوں سے پوچھتے پوچھتے کچھ دیر بعد ہم مندر کے دروازے پر پہنچے! کیا سوچ کر آئے تھے اور یہاں کیا دیکھ رہے ہیں؟

پرانی اینٹوں کی ایک اونچی دیوار، ایک پرانا لوہے کا دروازہ اور ایک عدد زنگ آلود بند تالا، دروازے کے ارد گرد کے سوراخوں سے اندر جھانکنے کی کوشش کی مگر اندر کیا دیکھتے ہیں؟ 

گھاس مندر سے اونچی، اور کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر، اور مندر اس سب کے پیچھے غائب، تالے کی چابی کا پتہ کیا تو ارد گرد کے دکان داروں سے پتہ چلا کہ یہ محکمہ بلدیات نے بند کیا ہوا ہے، خیر ہم کسی بھی طرح مندر کے دروازے سے اندر داخل نہ ہو سکے، مندر کے دروازے کے باہر لگی ریڑھی سے ہم نے کچھ پھل خریدے اور وہ کھا کر مایوسی کے عالم میں وہاں سے نکلے تو بنک روڈ پر واقع مندر پر پہنچے، بینک روڈ پر واقع مندر ہمیں باآسانی مل گیا، ہم مندر کی طرف جاتے ہیں اور وہاں کیا دیکھتے ہیں؟

 وہی پرانا لوہے کا دروازہ اور وہی ایک عدد زنگ آلود بند تالا! البتہ اس کے گِرد کوئی بڑی دیوار نہیں تھی، وہاں پر ایک دکان دار نے بتایا کہ اس کی پچھلی طرف ایک کھڑکی ہے وہاں سے آپ مندر کا اندرونی احاطہ دیکھ سکتے ہیں، خیر ہم پیچھے ایک تنگ گلی سے اس کھڑکی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، روشن دان نما کھڑکی تھوڑی اونچائی پر تھی۔ ہم نے اس سے جھانک کر دیکھا تو مکڑیوں کے جالے، پتھروں اور گندگی کے ڈھیر دیکھنے کو ملے! اب کچھ دوستوں نے کہا سہیلی سرکار کے پاس جو مندر ہے اس کی طرف چلتے ہیں شائد وہ کھلا ہو اور ہمیں کچھ الگ دیکھنے کو ملے ہم میں سے اکثریت چوں کہ دو مندروں کو دیکھ کر مایوس ہو گئی تھی اب ہم لوگوں نے یہ سوچا کہ تیسرا بھی بند ہی ہو گا اس لیے اس کی طرف جانا بھی فضول ہے خیر یوں ہم لوگ مایوسی کے عالم میں اپنے اپنے گھروں کو لوٹے۔ کچھ دنوں بعد مجھے خیال آیا مجھے اس مختصر سفر کو ضبطِ تحریر میں لانا چاہیے، میں ایک دن عصر کے بعد گھر سے نکلا میں نے سوچا کوئی پرسکون جگہ ملے تو اس سفر پر کچھ لکھوں، میں گھر سے نکلا اور سیدھا جلال آباد پارک پہنچا، پارک میں بیٹھ کر میں اس سفر کو لکھنے میں گُم ہو گیا، میں نے ان دونوں مندروں کے سفر کو ضبطِ تحریر میں لا رہا تھا،اسی اثنا میں سورج غروب ہو گیا اور شام کا وقت آن پہنچا، اب مجھے خیال آیا کیوں نہ میں تیسرے مندر کو بھی دیکھ آؤں اور اس کو بھی اس تحریر کا حصہ بناؤں!

چوں کہ تیسرا مندر پارک سے چند ہی مِنٹوں کی دوری پر تھا اس لیے میں پارک سے نکلا اور سہیلی سرکار کی جانب چل دیا، سہیلی سرکار پہنچا، مندر کی لوکیشن کا مجھے علم نہیں تھا تو میں نے وہاں کچھ لوگوں سے پوچھنے کی کوشش کی مگر کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہاں مندر بھی ہے جب کہ ان میں سے کئی لوگ وہیں کے باسی تھے، تاہم ایک شخص نے مجھے بتایا کہ سیکرٹریٹ تھانے کی مخالف سمت میں ایک گلی ہے اس کی طرف ایک گیسٹ ہاؤس کے احاطے میں مندر واقع ہے۔ میں اس طرف گیا یہاں کئی گیسٹ ہاؤس تھے، مجھے مندر نہ مل سکا، مندر کی کھوج میں کافی دیر ہو گئی یہاں تک کہ اندھیرا چھا گیا، بلآخر اسی گلی میں مجھے ایک نوجوان ملا، میں نے اِسے روکا، سلام دعا کرنے کے بعد میں نے اس سے مندر کے بارے میں دریافت کیا، جوں ہی اس نے لفظ ”مندر“ سنا وہ پریشان ہو گیا، اس کی آنکھیں لال ہو گئیں، مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ مجھے جاسوس سمجھ رہا ہے، اس نے حیرانی سے مجھ سے پوچھا!

 آپ کون ہیں؟

 کہاں سے آئے ہیں؟ 

کہاں رہتے ہیں؟ 

کیا کرتے ہیں؟ 

مندر میں کیوں جائیں گے؟

میں نے اپنا تعارف کرایا، اس کے سوالات کے جواب دیے، وہ مطمئن ہو گیا کہ میں جاسوس نہیں ہوں، پھر اس نے مجھے مندر کا صحیح راستہ بتایا مگر ساتھ میں یہ بھی تجویز دی کہ آپ دن کی روشنی میں مندر کو دیکھنے آئیں ابھی وہاں اندھیرا ہو گا کچھ نظر نہیں آئے گا! مجھے اس کی تجویز مناسب لگی اور میں نے یہ فیصلہ کیا کہ کل دن کی روشنی میں آؤں گا اور مندر کا وزٹ کر لوں گا، میں اگلے دن ہی ایک دوست کے ہم راہ مندر کی جانب گیا۔ ہم اُسی شخص کے بتائے راستے پر گئے دیکھتے ہیں کہ ایک گیسٹ ہاؤس مندر کے چاروں اطراف بنا ہوا ہے اور مندر گیسٹ ہاؤس کے بالکل درمیان میں واقع ہے، سننے میں آیا کہ یہ گیسٹ ہاؤس  ایک سرکاری ادارے کی ملکیت ہے، ہم گیسٹ ہاؤس میں داخل ہوئے ہمیں مندر کا دروازہ نظر آیا، گیسٹ ہاؤس کے برامدے میں ہمیں چند کرسیاں دیکھنے کو ملِیں، ہم نے چاروں اطراف دیکھا مگر ہمیں وہاں کوئی شخص نظر نہیں آیا، ہم مندر کے دروازے کی طرف بڑھے، جیل کے دروازے جیسا دروازہ جس پر لوہے کے سریے کی کنڈی لگی ہوئی اور اس پر ایک تالا تھا مگر اس دفعہ تالا بند نہیں کھلا تھا، پہلے تو ہمیں باہر سے ہی مندر کی دیواریں ٹوٹی ہوئیں اور اس میں کئی دراڑیں نظر آئیں، اسی احاطے میں ایک طرف ٹین کی چادروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا مگر ارد گرد کے علاقے پر شاید گیسٹ ہاؤس انتظامیہ نے جھاڑو لگایا ہوا تھا کیوں کہ جھاڑو وہیں پر موجود تھا، ہم نے دروازہ کھولا، میں مندر کے احاطے میں داخل ہو گیا، مجھے لگا تھا باہر کی طرح شائد اندر سے بھی صفائی ہوئی ہو گی مگر میں دیکھتا ہوں کہ مندر کے اندر دیواروں کی اینٹیں گری ہوئیں، اور ایک کونے میں کچرے کا بڑا سارا ڈھیر پڑا ہوا، مندر کے اندر کی صورتِ حال دیکھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ یہ مندر نہیں بلکہ گیسٹ ہاؤس کا کوڑا دان ہے اور باہر کے احاطے میں گیسٹ ہاؤس انتظامیہ نے اس لیے صفائی کی ہے کہ وہ جگہ گیسٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی سامنے نظر آتی ہے اور وہ انھوں نے اپنے راستے میں آنے کی وجہ سے صاف کی ہے۔

مظفرآباد کے بقیہ تاریخی مندروں کی سیر اس لیے نہیں کی کہ ایک تو ان کا کھوجنا تھوڑا مشکل تھا اور دوسرا سننے میں یہی آیا تھا کہ ان کی حالت ان مندروں سے بھی پرے ہے۔ لہٰذا یہاں پر میرا سفر اختتام پذیر ہوا لیکن اس سفر کے اختتام پر کئی سوالوں نے میرے ذہن میں جنم لیا جو میں اپنے قارئین کے حوالے کرتا ہوں ان سوالات پر غور کرنا قارئین پر لازم ہے۔

کیا یہ مندر کوئی تاریخی اہمیت رکھتے ہیں؟

ان مندروں کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟

بحیثیت مسلمان ہمیں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے؟

کیا یہ مندر کسی کے لیے مذہبی اہمیت رکھتے ہیں؟

اگر کل کو مقبوضہ جموں و کشمیر آزاد ہوتا ہے تو وہاں صرف مسلمان نہیں بستے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی بڑی تعداد میں ہیں جن میں سکھ، ہندو وغیرہ بھی شامل ہیں تو وہ لوگ مظفرآباد میں آ کر کہاں پوجا کریں گے؟

اللہ نہ کرے کل کو اگر مظفرآباد پر کوئی دوسری قوم مثلاً ہندو، سکھ وغیرہ قابض ہو جاتے ہیں تو کیا وہ ہماری عبادت گاہوں/ مساجد کے تقدس کا خیال رکھیں گے؟

کیا ان تاریخی مقامات کو ٹوریسٹ زون بنا کر ان سے زر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact