تحریر: رابعہ حسن
پت جھڑ کی ایک زرد سہ پہر جب چنار کے سرخ پتے ہوا کی خنکی سے ٹھٹھرتے زمیں بوس ہو رہے تھے ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی بلکہ یوں کہاں جائے شناسائی ہوئی تھی۔۔۔
بختاور اس شام جب گھر لوٹ رہی تھی تو تنہا نہیں تھی۔۔۔ایک احساس تھا جو چپکے چپکے اس کے ساتھ ہو لیا تھا۔ کتنا لطیف سا احساس تھا کہ جس نے اماں کی ڈانٹ ڈپٹ کو بھی میٹھا کر دیا تھا۔
“ ارے آج اس لڑکی کو کیا ہو گیا ہے؟۔۔یہ وہی ہے یا کوٸی اور؟“ اماں نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ بے یقینی سے تو اس نے خود کو آئینے میں بھی دیکھا۔ کھلی کھلی رنگت۔۔۔صبح بھی تو اس نے آئینہ دیکھا تھا مگر تب تو یہ نکھار نہیں تھا۔۔۔
پر صبح میں یہ احساس بھی تو نہیں تھا نا۔۔۔۔وہ زیر لب مسکرائی ۔
اس شام ہر کام دھنک رنگ تھا۔۔۔کھانا بنانے سے لے کر برتنوں کی دھلاٸی تک۔۔۔۔کوٸز کی تیاری سے لے کر اسائمنٹ کی تکمیل تک۔۔کچھ بھی بوجھل نہیں تھا۔۔۔کچھ بھی بوجھ نہیں تھا۔۔کچھ بھی بے رنگ نہیں تھا۔۔جو رنگ وہ اپنی روح میں لے کر آٸی تھی اس نے ہر چیز کو ست رنگی بنا دیا تھا۔
کروٹیں بدلتے سوتے جاگتے میٹھے خوابوں میں جانے کب رات گزری پتا ہی نہیں چلا۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی وہ اٹھ گٸی۔ نہ جانے کتنے عرصے بعد اماں کے کہے بغیر وہ فجر کی نماز پڑھنے جا رہی تھی۔
“ ارے آج سورج کہاں سے نکلا؟۔۔پر ابھی سورج نکلا کہاں۔۔۔پھر چاند کہاں ڈوبا؟” اماں نے اسے برآمدے میں لگے واش بیسن پر وضو بناتے دیکھ کر حیرت زدہ آواز میں کہا۔ اماں کی بات پر چڑنے کے بجاۓ وہ مسکرا کر رہ گئی۔
محبت بھی کیا چیز ہے انسان کو کتنا نرم اور فراخ دل بنا دیتی ہے ۔ وہ سوچ کر رہ گٸی۔ محبت۔۔۔تو کیا اسے محبت ہو گئی تھی۔۔۔اس پر پہلی دفعہ اس جذبے کا نام آشکار ہوا جو کل سے اس کے ساتھ ساتھ گھوم رہا تھا۔
یونیورسٹی پہنچ کر اس کی نظریں اسی شناسا گم نام چہرے کی متلاشی رہیں ۔ کلاسز سے پہلے اور ان کے دوران بھی اسے وہ کہیں بھی دکھائی نہ دیا۔ کلاس آف ہونے کے بعد وہ سبز لان میں کھوئی کھوئی کھڑی تھی کہ اس کی سہیلی عندلیب نے اسے ٹہوکا دیا۔
“ کیا ہو گیا ہے؟ مشاعرہ نکل جاۓ گا۔ “
اوہ وہ تو اس سب میں مشاعرے کو بھلا ہی بیٹھی تھی۔۔اور ستم ظریفی یہ کہ وہ نوٹ بک گھر پر بھول آٸی تھی۔
”اب کیا ہو گا؟میری تو نوٹ بک ہی گھر رہ گٸی۔۔۔“ اس نے روہانسی ہو کر پوچھا۔
” یہ کیا کہہ رہی ہو تم۔۔۔نوٹ بک گھر رہ گٸی۔ تمہیں یاد نہیں رہا۔۔“ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گٸیں۔
” اچھا کچھ زبانی سنا دینا۔۔۔“ عندلیب نے حل پیش کیا مگر اس کی آنکھیں اس وقت ناقابل یقین حد تک پھیل گٸیں جب بختاور نے اسے یہ کہا کہ اسے کچھ یاد ہی نہیں۔ ” کیسی شاعرہ ہو تم بھئی ۔۔۔نہ مشاعرہ یاد۔۔نہ کلام یاد اور نہ ہی کاپی لانایاد۔۔شاعر تو مرتے ہیں ایسے مواقع کے لیے۔۔“
اب وہ اسے کیا بتاتی کہ وہ کل سے کس یاد کی یاد میں گم ہے کہ اسےیہ سب یاد رہتا۔ کچھ دیر تنہا گوشے میں بیٹھ کر وہ آمد تازہ کا انتظار کرنے لگی۔ یہ آمد بھی کیا چیز ہے کبھی کبھار بارش کی پھوار کی طرح موسلا دھار برستی ہے اور کبھی کبھار بالکل صحرا کا بادل بن جاتی ہے۔ عجیب سی بے چینی نے اسے جکڑ کر رکھ دیا۔ قریب تھا کہ وہ اس مشاعرے میں شرکت کے ارادے ہی کو ترک کر دیتی کہ دفعتا اسے وہی دکھاٸی دیا اسے یوں لگا کہ صحرا کا بادل نخلستاں میں آ نکلا ہے اور وہ کھل کر برس رہا ہے۔ اس کا قلم خود بخود ہی رواں ہو گیا اور تھوڑی ہی دیر میں ایک غزل مکمل ہو گئی ۔ وہ حیرت سے کبھی اپنے قلم کو اور کبھی اپنے سامنے موجود کاغذ پر اپنی غزل کو دیکھتی جاتی۔ محبت بھی کتنے معجزے دکھاتی ہے وہ مسکرا کر رہ گئی ۔
مشاعرہ بہت اچھا ہوا تھا، اسے بہت داد ملی تھی۔ وہ حاضرین میں غیر محسوس طریقے سے شناسا چہرے کو تلاش کر رہی تھی ۔۔اور جب وہ مقطع سنا کر اتر رہی تھی وہ اسے ایک کونے میں دکھائی دے گیا۔
اسٹیج سے اترنے کے بعد بھی وہ غیر شعوری طور پر اسی طرف مڑ مڑ کر دیکھتی رہی مگر اب وہ جا چکا تھا۔۔۔پر اپنے پیچھے اپنی خوشبو چھوڑ گیا تھا۔۔ محبت کا وہ احساس جو افراتفری میں مدھم پڑ گیا تھا اب دل بن کر اس کے سینے میں دھڑک رہا تھا۔
جب وہ گھر لوٹی تو سرمئی شام کے دامن میں لپٹی کسی چیز سے بھی اسے یاسیت محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔ اسے شام کا وقت پسند نہیں تھا۔ یہ اسے ہمیشہ اداس اور خوف زدہ کر دیا کرتا تھا مگر آج ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ گھر پہنچ کر نہ ہی اس نے تھکاوٹ کا رونا رویا اور نہ ہی کوٸی الٹی سیدھی حرکت کی جو کہ اس کا معمول ہوا کرتی تھی۔ اماں کو اس کے اس بدلاو نے تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ بارہا اس کی صحت کا پوچھ چکی تھیں۔ اب وہ اماں کو کیا بتاتی کہ۔۔۔
جب وہ بستر پر لیٹی تو بہت سی خواہشیں خوابوں کا روپ دھار کر اس کی نیند میں چلی آئیں ۔ روپہلے خوابوں کو دیکھتے دیکھتے اس کی نیند کل کی نسبت لمبی ہو گئی ۔ جب آنکھ کھلی فجر کی نماز قضا ہو ہی چکی تھی۔ اماں نے استہزائیہ انداز میں دیکھا۔بس ایک ہی دن کی مسلمانی تھی محترمہ کی۔۔” وہ شرمندہ سی ہو کر رہ گئی جبکہ اماں اس کے انداز پر انگشت بدنداں ۔۔۔اس نے ان کے طنز کا جواب دینے کے بجاۓ ندامت آمیز خاموشی اختیار کر لی تھی۔
بچپن میں جب اس سے کوئی غلطی ہوا کرتی تھی تو وہ دن بھر پریشان رہا کرتی تھی کہ اللہ جی اسے سزا دیں گے۔ آج نماز قضا ہوئی تو وہ اس شناسا چہرے کے کھو جانے کے خوف میں مبتلا ہو گئی جو کہ ابھی تک اسے ملا بھی نہیں تھا۔ پتا نہیں آج وہ ملے گا بھی کہ نہیں؟ اس کی محبت میں گرفتار ہونے کا آج تیسرا دن تھا اور مختلف احساسات کے مدارج طے کرتے ہوۓ آج وہ کھونے کے خوف تک پہنچ چکی تھی۔
وہ سبزہ زار میں گم سم بیٹھی گھاس کے تنکے نوچنے میں مگن تھی کہ ایک نامانوس سی مردانہ آواز نے اسے چونکنے پر مجبور کر دیا۔
” اس گھاس کا کیا قصور؟ جو اسے آپ اپنے عتاب کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ “ اس نے چونک کر دیکھا اور دیکھتی رہ گٸی۔ سامنے وہی شناسا چہرہ تھا۔
وہ بے یقینی کے عالم میں منہ کھولے دیکھ رہی تھی۔
” اتنی حیرت کا اظہار بعد میں کیجئے گا میں ابھی جلدی میں ہوں۔ “ اس نے مسکراتے ہوۓ ایک کتاب اسےتھمائی۔ ” میں کہانیاں لکھتا ہوں اور میری پہلی کتاب کی ایک کاپی آپ کے لیے۔“
اس اچانک کی تعبیر نے اسے ساکن کر کے رکھ دیا تھا اس لیے وہ کوئی رد عمل ہی نہ دے سکی۔ ” مجھے لگا آپ صاحب ذوق ہیں۔۔مگر آپ کے ایکسپریشن تو بڑے بے ادب ہیں۔ اس لیے میں واپس لے جاتا ہوں۔ “ اس سے پہلے کہ وہ کتاب واپس لے جاتا اس نے تیزی سے اچک لی۔
کتنی ہی دیر وہ کتاب کو یوں ہی پکڑے گھورتی رہی۔ ہمت مجتمع کر کے اس نے اسے کھولا تو پہلے صفحے پر لکھی تحریر سے اس کا دل دھڑک کر رہ گیا۔ تین دن کی محبت اس کی آنکھوں سے آنسووں کی صورت برسنے لگی ۔ وہاں لکھا تھا:
” پھولوں جیسی لڑکی کے لیےجس کے لفظوں نے میرے دل کو مہکا دیا۔“