رابعہ حسن
میں مطلوبہ جگہ پہنچ کر رگ گٸی۔ میری یادداشت جہاں تک کام کرتی تھی اسے یہیں ہونا چاہیے تھا۔  میں نے آخری دفعہ اسے یہیں دیکھا تھا شاید۔۔۔یا۔۔یقینا۔۔۔وقت اتنا گزر چکا تھا کہ یقین بھی شک کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔۔۔میں نے نظریں گھما کر ادھر ادھر دیکھا۔۔۔ہم آخری بار یہیں ملے تھے۔۔۔اسے یہیں کہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔
میں نے ادھر ادھر گھوم کر دیکھا۔ مجھے وہ کہیں بھی دکھاٸی نہیں دیا۔۔میں کتنی امنگوں کے ستارے لے کر اس سے ملنے آٸی تھی۔مگر اب ان ستاروں کی لو بجھتی ہوٸی محسوس ہو رہی تھی کیونکہ وہ یہاں نہیں تھا۔۔۔شوق دید کی آنچ دھیمی پڑ رہی تھی۔۔اس سے پہلے کہ یہ بھڑک کر بجھ جاتی مجھے ایک جھاڑی کے پیچھے ایک مانوس سی جھلک دکھاٸی دی۔
کہیں یہ وہی تو نہیں ؟ میرا دل زور سےدھڑکا۔
میں جوں جوں اس کے قریب جا رہی تھی ایک مانوس سی خوشبو مجھے  مسحور کیے جا رہی تھی۔
میں نے جھاڑی کو ہٹا کر دیکھا۔ ایک لمحے کو مجھے لگا کہ یہ وہ نہیں۔۔۔یہ وہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔یہ وہ کیسے ہو سکتا تھا۔۔میں نے تو اسے ہمیشہ توانا دیکھا تھا اور یہ۔۔اتنا نحیف۔۔اتنا شکستہ حال۔۔۔کوٸی جوان شکسگتی میں بھی ڈھل سکتا ہے؟ میں نے سوچا اور سوچ کر رہ  گٸی۔
مجھے لگا وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔ میں نے اسے وہم سمجھ کر جھٹکنا چاہا .مگر یہ وہم نہیں تھا۔۔وہاں واقعی ایک بھرپور مسکراہٹ تھی ۔۔بالکل ویسی ہی مسکراہٹ کہ جیسی  دو بچھڑے دوستوں کی مدتوں بعد ملاقات میں گفتگو کرتی ہے۔۔”
تم۔۔یہ تم ہی ہو؟“میں بے یقینی سے چلاٸی۔

ہاں۔۔یہ میں ہی ہوں۔۔۔“اس کی مسکراہٹ گہری ہو گٸی۔ ”میں تو تمہیں پہچان گیا تھا۔۔۔بس پہچانے جانے کا انتظار کر رہا تھا۔۔””
تم۔۔ایسے تو نہیں تھے؟” میں نے سوال داغا۔
“ تغیر کو ہی ثبات ہے بس۔۔۔” اس کے لبوں پہ پھیلی مسکراہٹ سنجیدگی میں بدل گٸی۔ ” تم بھی تو اب ننھی بچی نہیں رہی۔۔”۔
اس کے لفظوں نے مجھے لمحوں میں ہی احساس زیاں دلا دیا۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ ننھی سی الہڑ بچی اٹھکیلیأں کرتی ہاتھ میں نیلا لفافہ لیے لہرا گٸی۔ وہ ننھی سی بچی جو کبھی کہانیاں اخباری صفحوں اور رسالوں میں پوسٹ کرنے کے لیے اس کے پاس آیا کرتی تھی۔ 
“ میری کہانی جلدی ایڈیٹر تک پہنچانا۔” میں اس کے کانوں میں سرگوشی کرتی تو وہ کھلکھلا کر مسکرا دیتا۔ 
“ اب یہاں کوٸی بھی نہیں آتا۔۔۔“ وہ زرا سی دیر کو رکا۔ ” نہ آۓ۔۔۔مگر تمہیں تو آنا چاہیے۔”
میری آنکھوں میں نمی سی تیر گٸی۔ میں اسے کیسے کہتی کہ وہ بے فکر بچپن فکروں کی دھول میں دب کر رہ گیا ہے۔ وہ اٹھکیلیاں ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب گٸی ہیں۔ وہ کہانیأں کہیں کھو گٸی ہیں۔۔۔وہ نیلے لفافے بے رنگ ہو کر رہ گٸے ہیں۔۔۔کچھ بھی تو ویسا نہیں رہا۔۔۔
نہ وہ۔۔نہ میں اور نہ یہ دنیا۔۔۔
میرے ان کہے الفاظ کو وہ میرے آنسووں کی زبان میں سن چکا تھا۔
“ آج کل کیا کرتی ہو؟ “ اس نے میرا دھیان بٹانے کی غرض سے پوچھا۔ جواب اتنا طویل ہوتا گیا کہ میری زندگی کی داستان بن گیا۔۔۔۔پر وہ اکتایا نہیں۔۔۔ہر واقعہ وہ انتہاٸی دل جمی سے سنتا رہا۔
“ تم سناو۔۔تم نے اتنے سالوں میں کیا کیا؟” میرے سوال نے اسے مغموم کر دیا۔
“ کچھ نہیں۔۔۔وہ خطوں کی خوشبو مجھ سے روٹھ گٸی۔۔۔میری جوانی آہستہ آہستہ بڑھاپے میں ڈھلتی گٸی۔۔” وہ رکا۔ “ تم جانتی ہو میں کبھی بھی اتنا شکستہ ۔۔۔اتنا بوڑھا نہ ہوتا اگر لوگ مجھے تنہا نہ چھوڑتے۔۔۔تنہاٸی اور بھلاۓ جانے کے احساس کے زہر نے مجھے  بے جان کر دیا۔۔۔”
میں خاموش ہو گٸی۔ میرے پاس کوٸی حرف تسلی تک نہیں تھا۔۔وہ واقعی فراموش کیا جا چکا تھا۔۔وہ واقعی بھلایا جا چکا تھا۔۔۔وہ واقعی تنہا کر دیا گیا تھا۔۔۔
جب خاموشی وحشت ناک حد تک طویل اور ناقابل برداشت ہو گٸی۔ میں گھڑی دیکھنے کی اداکاری کرنے لگی۔
“ اوہ مجھے تو ایک کام یاد آ گیا۔۔۔” میں نے جلدی سے اسے دیکھے بنا کہا۔ “ میں پھر آوں گی”۔
“ تم واقعی پھر آو گی۔ ” اس نے بےیقینی سے کہا۔
“ ہاں میں پھر آوں گی ” میں نے یقین سے کہا۔
حالانکہ ہم دونوں جانتے تھے کہ اب ہم کبھی نہیں ملیں گے۔
“ اللہ حافظ۔”
“اللہ نگہبان” ۔
 میں جب وہاں سے پلٹ رہی تھی تو ایک ہنستی کھلکھلاتی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ میں نے یک لخت پلٹ کر دیکھا۔ وہاں ایک ننھی منی سی لڑکی ہاتھ میں نیلا لفافہ لیٹر بکس میں ڈال رہی تھی۔
وہ۔۔وہ میں تھی۔۔
وہ میں تھی۔۔۔تو میں کون تھی؟
دل میں ایک غبار سا اٹھا اور آنکھوں کے رستے بہہ نکلا واقعی میں کون تھی؟
واقعی میں کہاں تھی؟

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact