افسانہ نگار : نورِ بدر 

”آپ شادی کیوں نہیں کر لیتیں؟“

میرے اس سوال پر اس نے مجھے دیکھا۔ (ہمیشہ کی طرح چہرے پہ گہری مسکراہٹ لیے ہوئے) 

اس کی آنکھوں میں نجانے کیا تھا جب بھی میری طرف اٹھتیں میرے اندر طلاطم سا برپا ہو جاتا۔ یوں لگتا جیسے وہ آنکھیں نہ ہوں جلتے ہوئے چراغ ہوں جنہیں کسی نے ہوا کے دوش پہ رکھ دیا ہو۔ میرے سوال پر وہ چراغ ٹمٹمانے لگے۔ جلتی بجھتی آنکھوں میں بلا کی تپش تھی یوں لگا میرا دل شعلوں کی زد میں ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے کبھی اس جیسی مضبوط عورت نہ دیکھی تھی۔ تیز آندھیوں کی زد میں بھی وہ چراغ کبھی بجھتے نہ دیکھے حتیٰ کہ ٹمٹماتی ہوئی لو بھی جلا دینے کو کافی تھی۔ نہ تو میں نے کبھی اس شمع کو پگھلتے دیکھا نہ ہی جلتی بجھتی آنکھوں سے آنسو نکلتے دیکھے۔

”شادی کرنا ضروری ہے فراز؟“

اس نے سوال در سوال کیا۔

”ضروری تو ہے۔“ مجھ سے یہی جواب بن پڑا۔

”کس کے لیے؟“ میں سمجھ نہ سکا تو وہ دوبارہ بولی۔

”شادی کرنا مرد کے لیے ضروری ہے یا عورت کے لیے؟“ اس کے میٹھے لہجے میں بھی سوال چبھتا ہوا سا لگا۔

”دونوں کے لیے۔“ میں ذرا گڑبڑا گیا۔

”کس سے کروں شادی؟ کوئی ہے نظر میں؟“

چراغوں کی لو بھڑک اٹھی لیکن آواز اب بھی دھیمی تھی۔

”بہت۔۔۔مل جائیں گے۔“ مجھ سے بمشکل یہی بن پڑا۔

”بہت نہیں چاہئیں۔صرف ایک چاہیے۔ بتاؤ کوئی ہے نظر میں؟“ اس بار لہجہ کاٹ دار تھا لیکن مسکراہٹ پہلے سے بھی گہری۔ ایسے موقعوں پر وہ ٹمٹماتے چراغ بھڑکتا الاؤ بن جاتے۔ وہ کبھی غصے میں بھی اونچی آواز میں نہ بولی تھی لیکن جب غصے میں آتی تو گویا آنکھوں سے ہی کاٹ ڈالتی۔

میں اس کی آنکھوں کے الاؤ کبھی نہ بھولا۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا وہ رو دے لیکن میری یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوئی۔ اس کے معاملے میں میری ہر خواہش ادھوری ہی رہ جاتی تھی۔

عجب سحر تھا اس کی شخصیت میں۔ میں اس کی طرف کھچا چلا جاتا لیکن اس کی موجودگی جیسے کڑا امتحان ثابت ہوتی۔ وہ میرے بولنے سے پہلے میری باتیں بھانپ لیا کرتی۔ چہرے پڑھنا جانتی تھی وہ۔ یا شاید زندگی نے اسے چہرے پڑھنا سکھا دیا تھا۔ میرے لیے وہ پورا معمہ تھی۔ میں سر سے پیر پسینے میں شرابور ہوجاتا لیکن اس کی ذات کی گرہیں نہ کھول پاتا۔ 

جہاں جاتی اپنا اثر چھوڑ جاتی۔ اس کے آنے سے ماحول یکسر بدل گیا۔ وہ سکول کی پرنسپل کم اور آرٹسٹ زیادہ لگتی اس کے دم سے پورے سکول پر جیسے بہار آگئی تھی۔ اس کے دفتر کی سجاوٹ سے میں نے اندازہ لگایا کہ اسے رنگ بہت پسند تھے اس کے باوجود میں نے کبھی اسے بھڑکیلے اور شوخ لباس میں نہ دیکھا تھا۔ ہمیشہ سادہ اور ہلکے رنگ کے کپڑے پہنتی۔ نتیجہ نکلنے کے چند روز بعد سکول میں اول آنے والے بچے کے ماں باپ اپنی خوشی کے اظہار کے لیے تحفتاً مٹھائی کا ڈبہ اور ایک اون کی شال لے کر آئے۔ شال بہت خوبصورت اور گہرے سرخ رنگ کی تھی۔ وہ بڑی دیر اس شال کو چھو کر محسوس کرتی رہی۔ اس کا والہانہ پن دیکھ کر مجھے لگا وہ ابھی اسے اوڑھ لے گی۔ 

”لوگ آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔“ میں نے اس کا انہماک دیکھ کر کہا۔

اس نے شال سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا۔ ایک لمحے کو مجھے لگا چراغوں کی لو ٹمٹمائی ہے لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ اس کے معاملے میں میں کبھی یقین سے کچھ نہ کہہ سکا۔ وہ پرت در پرت کئی شخصیات کا مجموعہ تھی۔ میں اس کے شفاف چہرے کو دیکھتا تو مجھے لگتا وہ کوئی مقدس مورتی ہے۔ کبھی کبھی وہ مجھے کوئی پرانی حویلی لگتی جس کے بے شمار کمروں کے کواڑ جب جب کھلتے ایک نیا منظر سامنے آتا۔ لیکن ان کواڑوں کو کھولنا میرے بس میں نہ تھا۔ اس حویلی کے بند دروازوں کو اس کی اجازت کے بغیر کھولنا جیسے ممکن نہ تھا۔ میں اسے صرف اتنا جانتا تھا جتنا وہ ظاہر کرتی تھی جو اس نے چھپا رکھا تھا میں اس سے ہمیشہ لا علم ہی رہا لیکن اس حویلی میں داخل ہونے کی حسرت ہمیشہ میرے دل میں رہی۔ اس نے مجھے بلا جھجک بات کرنے کی اجازت دے رکھی تھی اس کے باوجود میں کبھی اپنے دل کی بات اسے نہ کہہ پایا۔ ایک حصار تھا جو اس نے اپنے گرد باندھ رکھا تھا۔ میری بات سنتے سنتے اچانک وہ میری طرف دیکھتی تو میں بات بھول جاتا۔

ان دنوں میں پڑھائی سے فارغ ہو کر نوکری کی تلاش میں تھا جب میرے بڑے بھائی نے مجھے اپنے سکول کے معاملات سنبھالنے کو کہا۔ میں بڑی بے دلی سے سکول کے حساب کتاب دیکھا کرتا ساتھ ہی ساتھ بچوں کو کمپیوٹر بھی سکھایا کرتا۔ کچھ ہی عرصے میں پرنسپل نے سکول چھوڑ دیا اور دو دن بعد وہ آگئی۔ اس کے آنے کے بعد میں کبھی نوکری کی تلاش نہ کر سکا۔ میں اس برمودا ٹرائی اینگل میں اپنا آپ کھو چکا تھا۔

”مالی بتا رہا تھا عنقریب اس کی بیٹی کی شادی ہے۔“ اس کی آواز مجھے ماضی سے کھینچ لائی۔

”یہ اسے دے دو اپنی بیٹی کے جہیز میں رکھ لے۔“

میں اس کی بات سن کر حیرت زدہ رہ گیا۔ میں نے حسرت سے اس شال کو دیکھا پھر اسے۔ میرا دل چاہا میں اسے کہوں ایک بار شال اوڑھ کے تو دیکھے لیکن میں نہ کہہ سکا۔ میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ بول پڑی:

 ”جانتے ہو مجھے رنگ راس نہیں آتے۔ ایک بار میں نے اور اماں نے چھوٹی کے لیے ایک جوڑا خریدا گہرے سرخ رنگ کا، بہت ہی شاندار جوڑا تھا وہ۔ چھوٹی کی شادی ہونے والی تھی ناں۔ لیکن اسے وہ جوڑا پسند نہ تھا میں نے سوچا میں رکھ لیتی ہوں۔ جانتے ہو اماں نے مجھے کیا کہا؟“

 میں پوری توجہ سے اسے سن رہا تھا۔ وہ میرے جواب دینے سے پہلے ہی بول پڑی:

 ”اماں نے کہا ایسے کیسے تم یہ جوڑا پہن سکتی ہو۔ کاش تمہارا بھی کوئی رشتہ آجاتا تو میں خوشی خوشی تمہیں جوڑا دے دیتی۔“ اس نے ایسے بات کی گویا اپنے بارے میں بات نہ کر رہی ہو کسی فلم کی کہانی سنا رہی ہو۔

 وہ یہ بات کہہ کر ہنس دی۔ میں نے اسے پہلی بار ہنستے ہوئے دیکھا۔ اس کی آنکھوں کے چراغ آندھیوں کی زد میں تھے اس کے باوجود میں نے ان آنکھوں میں کوئی آنسو نہ دیکھا۔

 ”جانتے ہو فراز جس عورت کو کوئی مرد چھوڑ جائے اسے پھر رنگ راس نہیں آتے۔“

 میرا دل گہری کھائیوں میں غوطے لگا رہا تھا لیکن میں اسے کہہ نہ سکا کہ بدقسمت تھا وہ مرد جو ایسی ہیرہ صفت بیوی کو چھوڑ گیا۔شاید میں ہمت کر کے اسے یہ بات کہہ دیتا اگر اس وقت اسے کوئی ضروری فون نہ کرنا ہوتا۔ وہ ایسی ہی تھی جب مزید بات کرنا نہ چاہتی تو اس ڈھنگ سے موضوع بدلتی کہ سامنے والا دل میں ہی بات دبائے حسرت سے ہاتھ ملتا رہ جاتا۔

 ایک دن سکول کی ملازمہ کو کسی کام سے دو دن کی چھٹی پہ گاؤں جانا پڑ گیا۔ میں نے مالی سے کہہ کر اس کی بیوی کو بلوا بھیجا تاکہ ملازمہ کی جگہ وہ سکول کی صفائی ستھرائی کر دے۔ دفتر پہنچا تو دیکھا کہ ہاتھ میں چھوٹا سا کپڑا لیے وہ میز صاف کر رہی تھی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی: ”چھوٹے چھوٹے کام تو میں خود بھی کر لیتی ہوں۔ جب میں اماں ابا کے پاس واپس آئی تو اماں بہت چڑچڑی سی ہو گئی تھیں، بات بے بات لڑ پڑتیں اور کوسنے لگتیں۔ ایک دن ابا سے کہنے لگیں عائشہ سے کہہ دیں اگر اس گھر میں رہنا ہے تو گھر کے کام کاج سنبھالنا ہوں گے کل کلاں کو بھاوج آگئی تو ایک لمحہ برداشت نہ کرے گی۔ تب سے مجھے کوئی کام مشکل نہیں لگتا۔“

 کبھی کبھی وہ بولنے پہ آتی تو اپنی رو میں کہے چلے جاتی اور سامنے والے کے منہ پر جیسے چپ کے تالے پڑ جاتے۔ میں نے اس کے لہجے میں نمی محسوس کی نہ ہی لرزش۔ وہ اپنے بارے میں ایسے بات کرتی جیسے اخبار سے کوئی خبر پڑھ کر سنا رہی ہو۔

 ”فراز یہ میز کا کپڑا تو بدلوا دو بہت بوسیدہ ہوگیا ہے۔“ کب بات کا موضوع بدل گیا پتہ ہی نہ چلا اور میں مرے مرے قدموں سے دفتر سے نکل آیا۔

 اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان کیا معاملہ ہوا وہ اس پہ کبھی بات نہ کرتی کوئی اصرار کر کے طلاق کی وجہ پوچھتا تو جو نصیب میں تھا ہوگیا کہہ کر ٹال دیتی۔ اس کی ذات ایک بھول بھلیاں تھی جس کے اندر میں خود کو کھو بیٹھا تھا۔ کبھی کبھی میں اسے چپکے سے دیکھنے کی کوشش کرتا تو وہ جھٹ سے پلکیں اٹھاتی اور میں چور سا بنا گڑبڑا جاتا لیکن وہ کمال مہارت سے انجان سی بن کر ایسے کوئی بات شروع کر دیتی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کبھی کبھی میں اپنی بے بسی پہ کھول اٹھتا۔ اس کے جان بوجھ کر انجان بننے پر مجھے بے تحاشہ غصہ آتا۔ ایک دن مجھے اپنی بے بسی کا بدلہ لینے کا موقع مل ہی گیا۔

 ”آپ شادی کیوں نہیں کر لیتیں؟“ میں نے ہمت کر کے اسے پوچھا۔

 ”کس سے کروں شادی؟ کوئی ہے نظر میں؟“ اس نے جواباً پوچھا۔ ایک مرتبہ تو دل میں آئی کہ لگے ہاتھوں اظہارِ محبت کر ڈالوں لیکن میری انا آڑے آ گئی۔

 اس قیافہ شناس نے میرے دل کو ٹٹولا اور اچانک مجھ سے کہنے لگی: 

”مجھ سے شادی کرو گے فراز؟“ پہلے تو مجھے اپنی سماعتوں پہ شک گزرا پھر یوں لگا جیسے دل کسی گہری کھائی میں گر رہا ہو۔ ایک لمحے میں خوشی کا سا سماں ہوگیا لیکن اگلے ہی لمحے مجھے اپنی بے بسی کے بےشمار لمحے یاد آئے جب وہ یکسر انجان بن کر میری بے بسی کو کئی گنا بڑھا دیتی تھی۔ دل میں آئی کہ آج سارے بدلے چکانے کا اچھا موقع ہے تو کیوں نہ کچھ حساب ہی لے لوں۔ وہ منتظر نگاہوں سے میری طرف دیکھ رہی تھی جب میں نے کہا:

 ”آپ یقین کریں آپ بہت اچھی ہیں۔ کوئی بھی شخص آپ سے شادی کر کے خود کو خوش قسمت سمجھے گا لیکن۔۔۔ آپ تو جانتی ہیں جب سے ابا نہیں رہے گھر کا نظام چچا کے ہاتھ میں ہے اور جہاں تک میں اپنے چچا کو جانتا ہوں وہ یہ بات کبھی بھی برداشت نہیں کریں گے کہ آپ ایک۔۔۔مطلقہ ہیں۔“ میں نے بدلے کی آگ میں سارا حساب ایک ہی بار چکا دیا اور اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔

 اس کی آنکھوں کے الاؤ دہک رہے تھے اور ہونٹوں پہ گہری مسکراہٹ۔۔۔۔۔ میں مایوس ہوا اپنی توقع کے مطابق میں اس کے چہرے پہ بے بسی کے آثار نہ دیکھ سکا بس جلتے بجھتے چراغ تھے جنہوں نے چند لمحے مجھے اپنے حصار میں لیے رکھا۔ ان چراغوں کی مدھم لو سے بھی میرا دل پگھل جا رہا تھا جیسے شعلوں کی زد پہ ہو۔ چند ساعتیں خاموش رہنے کے بعد اس نے بڑے اعتماد سے کہا: 

”کوئی بات نہیں ایک سوال میرے ذہن میں آیا تو میں نے پوچھ لیا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سمجھ سکتی ہوں۔ میں نے سوال پوچھا آپ نے جواب دیا بس بات ختم آج کے بعد اس موضوع پر بات نہیں ہوگی۔“

 وہ مسکراتے ہوئے اٹھی اور چادر اوڑھنے لگی۔  ”آج کے لیے سنبھال لینا مجھے آج جلدی جانا ہے۔“

 بات شروع میں نے کی تھی ختم اس نے کر دی لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ یہ موضوع ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ بدلے کی چاہ میں میں نے اس مقدس مورتی کو پاش پاش کر دیا۔

 اگلے دن وہ معمول کے مطابق دفتر نہ پہنچی دل کو بے چینی سی ہوئی تو اس کے گھر فون کر لیا پتہ چلا کل دفتر سے گھر جا کر نماز پڑھنے لگی تو سجدے سے نہ اٹھی ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو پتہ چلا دل کہ دورہ پڑنے سے دل ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ اتنی مضبوط عورت بدلے کی آگ نہ جھیل سکی۔میرے لیے یہ خبر نہ تھی غم کا تازیانہ تھا۔ نجانے کتنے دن تک میرے حواس بحال نہ ہو سکے میرے لیے دنوں اور راتوں کا کوئی حساب نہ رہا۔ سکول سے مجھے وحشت ہونے لگی۔ دنیا کے کسی کونے میں مجھے قرار نہ تھا جہاں بھی جاتا دو دہکتے الاؤ مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتے اور میں اس آگ میں جھلستا رہتا۔ میرے اندر ایک محشر بپا ہے اور میں پچھتاوے کی جہنم میں پھنک رہا ہوں۔ ہر روز اس کی قبر پر تازہ گلاب لے کر جاتا ہوں لیکن جلتے بجھتے چراغوں کی تپش کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ میرا دل شعلوں کی زد میں ہے اور میں سوائے ان چراغوں کے کچھ دیکھ نہیں پاتا۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact