قلم : عصمت اسامہ۔

“نبیل ،نبیل ،سورج نکل آیا پر تو کمرے سے نہ نکلا !”اماں اسے جھنجھوڑتے ہوۓ جگا رہی تھی ۔اماں نے تین چار بار اس کا چہرہ بھی تھپتپھایا مگر وہ اتنی گہری نیند میں تھا کہ اسے یہ سب کچھ خواب محسوس ہورہا تھا۔کافی دیر بعد اس کی آنکھ کھلی تو وہ کھڑکی سے آتی روشنی دیکھ کر یکدم اٹھ کے بیٹھ گیا۔اسے فیکٹری جانا تھا۔

نبیل اپنے گھر کا واحد کفیل تھا ۔والد صاحب عرصہ ہوا ،وفات پا چکے تھے۔ وہ صبح کے وقت فیکٹری جاتا تھا اور شام کو ایک ریسٹورنٹ میں بطور ویٹر کام کرتا تھا ۔ایک بڑی بہن شادی شدہ تھی ،ایک سال چھوٹی بہن کا سست روی سے جہیز بنایا جارہا تھا اور سب سے چھوٹا بھائی دسویں جماعت کا طالب علم تھا ۔دن رات سخت محنت مشقت کرکے نبیل جب رات کو گھر پہنچتا تو آگے کوئی نہ کوئی مجبوری اس کی منتظر ہوتی ۔ آج بجلی کا اتنا بل آگیا ،آج مٹھو نے رجسٹر ختم ہونے کی وجہ سے ہوم ورک نہیں کیا تھا تو استاد نے اسے سزا دی اور سب کے سامنے کھڑا رکھا ۔دو دن بعد نازلی کے سسرال والے منگنی کرنے آرہے ہیں ،ان کے کھانے کا انتظام کرنا ہوگا۔ نبیل اپنی تھکاوٹ بھول کر ماں کو تسلی دینے لگ جاتا “فکر نہ کرو ماں ،میں سب سنبھال لوں گا،اسے اپنی جنت اپنی ماں کو راضی رکھنا تھا “،شب و روز اسی طرح حالات کے جبر کا شکار تھے جب اچانک فیکٹری بند کردی گئ۔ نبیل جیسے سینکڑوں ورکرز پر یہ خبر بجلی بن کے گری۔اب کیا کریں گے اس جاںگسل مہنگائی میں ،دوسری نوکری ملنے تک جسم و جان کا تعلق کیسے برقرار رکھیں گے؟ایک انجانا سا خوف سب پر طاری تھا۔ افسوس اس بات کا تھا کہ کئ دن کی کوشش کے باوجود نوکری نہیں مل رہی تھی اور اماں کو اسے گھر پر دیکھنا ناگوار گزرتا تھا،وہ بلا وجہ کی ڈانٹ سے بچنے کے لئے باہر وقت گزاری کرتا رہتا،جب شام کی نوکری کا وقت ہوجاتا تو وہاں چلا جاتا۔ ایک رات بارہ بجے وہ گھر واپس آرہا تھا ،گلیاں سنسان تھیں اور اکا دکا بلیوں کے سوا کوئی ذی روح دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ اچانک اس کے پاس سے ایک رکشہ تیزی سے گزرتا ہوا اس کے گھر کے سامنے جاکے رک گیا۔ نبیل آگے بڑھا تو اس کی باجی اپنے دو بچوں کا ہاتھ تھامے اتر رہی تھی ۔ 

“باجی ،آپ اس وقت ؟” نبیل نے حیرت سے پوچھا۔

” ہاں ،کیوں ،میں اس وقت امی کے پاس نہیں آسکتی ؟” باجی نے تلخی سے کہا اور اسے اپنے دو بیگ پکڑا دئیے ۔نبیل کے تھکاوٹ سے ٹوٹتے جسم کے لئے یہ بیگ نہیں دو پہاڑ تھے۔

” پتہ نہیں کیا بھر کے لے آتی ہے ” وہ سوچتا سوچتا بیگ اٹھاۓ باجی کے پیچھے گھر میں داخل ہوگیا۔باجی اب اماں کے گلے لگ کے رو رہی تھی ۔نبیل کو بس اتنا سنائی دیا کہ باجی کی ساس نے اسے جھگڑا کر کے گھر سے نکال دیا ہے ۔ ہمارے معاشرے کا المیہ بن گیا ہے کہ ساس ہو یا بہو ،خواہ مخواہ کی مقابلہ بازی جاری رکھتی ہیں اور پھر دونوں بے سکون ہوتی ہیں ،یہ سوچتا سوچتا وہ اپنے کمرے میں جاکے بیڈ پر گر گیا اور اسی وقت سو گیا۔اگلی صبح اس کی آنکھ کچھ بے ہنگم آوازوں سے کھلی،وہ لیٹے ہوئے چھت کو دیکھتے ہوۓ سننے لگا ۔اس کا چھوٹا بھائی مٹھو اماں سے کسی بات پر جھگڑ رہا تھا۔ پھر وہ دونوں بولتے بولتے نبیل کے کمرے میں داخل ہوگئے ۔

” نبیل ،تم نے مٹھو کی فیس نہیں جمع کروائی تھی ،کل سر نے اس کی بہت بے عزتی کی ہے ۔تمہیں کوئی خیال ہے کہ وقت پر فیس ادا کردیا کرو؟نکھٹو، تمہیں تو سونے سے ہی فرصت نہیں ؟”

اماں کی بات پر وہ تڑپ کے بولا ” اماں میں ہی اتنے سالوں سے اس کی فیس دیتا آیا ہوں نا ،اب نہیں دے سکا کیوں کہ فیکٹری بند ہونے کی وجہ سے آمدنی کم ہوگئ ہے “.

” جو بھی کرو ،آج اس کی فیس کا انتظام کرو لازماً, اماں نے پرزور انداز سے کہا اور غصے سے کمرے سے نکل گئیں ۔نبیل سر پکڑے بیٹھا رہا پھر اٹھ کے اپنے کپڑے استری کرنے لگا کہ گھر سے فوری نکلنا ضروری تھا ۔

باجی ایک ہفتہ رہنے کے بعد واپس اپنے گھر چلی گئ تو گھر میں کچھ سکون ہوا۔ سردیوں کی آمد آمد تھی ، اسے ایک جگہ کام مل گیا تھا اور آج پہلی تنخواہ ملی تھی نبیل اپنے دھیان میں سوچ رہا تھا کہ اپنی تنخواہ کہاں کہاں خرچ کرے گا۔سب سے پہلے جوتے خریدے گا کیوں کہ یہ جوتے بہت خستہ حالت کو پہنچ چکے تھے ،یہی سوچتے ہوۓ وہ گھر آرہا تھا کہ سامنے سے گذرتی ایک لڑکی سے کسی چور نے پرس چھیننے کی کوشش کی مگر اس لڑکی کی گرفت مضبوط تھی ،چور پرس نہ چھین سکا تو اس نے زور سے لڑکی کو دھکا دے کر گرادیا۔اتنے میں نبیل اس کے سر پر پہنچ گیا اور دوچار پنچ چور کے منہ پر رسید کئے ۔چور مار کھا کے بھاگ گیا تو اس نے لڑکی سے پوچھا کہ اس کا گھر کہاں ہے ،پھر اسے گھر تک چھوڑ کے اپنے گھر چلا گیا۔ کاش ایسی ایک لڑکی اس کی زندگی میں ہوتی جو اس کا خیال رکھتی۔اسے گرم گرم روٹی پکا کے دیتی،اس کے کپڑے استری کرتی،اپنی سوچوں کے تانے بانے بنتے ہوۓ وہ گھر پہنچ گیا۔صبح ہوئی تو اس نے ڈرتے ڈرتے اماں سے اپنی خواہش کا اظہار کردیا جو اماں کو بالکل پسند نہیں آیا۔

” تمہیں پتہ ہے نا کہ اس سال ہم نے نازلی کی رخصتی کرنی ہے ؟ اس کے لئے چار پیسے جوڑنے ہیں۔اگلے سال مٹھو کا کالج میں داخلہ کروانا ہے ،اس کے خرچے کا بندوبست کرنا ہے ،ابھی تمہاری شادی کے معاملے پر میں بات نہیں کرسکتی ،مجھ سے موقع محل دیکھ کے بات کیا کرو” اماں کی بات سے اس کی امیدوں پر اوس پڑگئ اور وہ چپ چاپ گھر سے نکل گیا۔کبھی کبھی فیملی میں بڑا ہونا کتنا اذیت ناک ہوجاتا ہے جب ساری زمہ داریاں آپ کے کندھوں پر ڈال دی جائیں مگر کوئی آپ کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنے والا نہ ہو!

 ~ کوئی دھواں اٹھا نہ کوئ روشنی ہوئ

جلتی رہی حیات بڑی خاموشی کے ساتھ

سال گذرنے کا پتہ نہ چلا اور نازلی بہن کی شادی ہوگئ۔چھوٹے بھائ کا داخلہ کالج میں ہوگیا تھا۔ نبیل کے بالوں میں سفید بال نظر آنے لگے تھے ۔ایک دن وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہوا تو خود کو پہچان نہیں پایا،کیا یہ میں ہوں ؟۔اس دن جمعے کے خطبے میں مولوی صاحب والدین کے حقوق بیان فرمارہے تھے ۔جب نماز پڑھ کے سلام پھیرا تو نبیل مولوی صاحب کے پاس جا کے بیٹھ گیا اور کہنے لگا ” میں ہاتھ جوڑتا ہوں مولوی صاحب ،کبھی کسی خطبے میں یہ بھی بتایا کریں کہ ہمارے دین میں” اولاد” کے کیا حقوق ہیں ؟”

مولوی صاحب اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو کو غور سے دیکھ رہے تھے ۔

#

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact