Sunday, May 12
Shadow

علامتی افسانہ : سرد شام/ حافظ ذیشان یاسین

حافظ ذیشان یاسین

یہ جنوری کی ایک سرد شام تھی فضا میں خنکی اور اداسی بڑھتی جا رہی تھی۔ میں تنہائی اور اداسی کی چادر اوڑھے درختوں کے  پاس خاموش کھڑا تھا اور شام ڈھلتے ہی بچھرنے والا تھا۔ سردیوں کی شام بھی عجیب ہوتی ہے کسی اداس فاختہ کی طرح خاموشی سے آتی ہے وجود کو منجمد اور روح کو مضطرب کر دیتی ہے دل کے نہاں خانوں میں کچھ نقوش رفتگاں ابھرنے لگتے ہیں۔

سرما کی خنک شامیں وصل کی بجائے فصل سے عبارت ہیں سرد شام ہجر و فراق کا استعارہ ہے یہ فرقت اور جدائی کی تمثیل ہے۔ سرد شام ایک ایسی غزل ہے جس کا مطلع اداسی اور مقطع تنہائی ہے جبکہ درمیان کے سارے مصرعے ہجر و فراق پر مشتمل ہیں۔ 

سرما کی شام ایک ایسی داستان ہے جس کی ابتدا افسردگی اور اختتام بے قراری ہے اور درمیان کی ساری کہانی تنہائی اور جدائی پر مبنی ہے۔ شام ایک ایسی مسافت ہے جس کا آغاز رنجیدگی اور منزل سوگواری ہے اور درمیان کا سارا رستہ آوارگی ہے۔ 

سرد شام میں مسافر قافلوں سے بچھڑ جاتے ہیں کونجیں ڈار سے علیحدہ ہو جاتی ہیں تتلیوں سے رنگ اور پھولوں سے خوشبو جدا ہو جاتی ہے۔ سرد شام بے قراریاں بڑھادیتی ہے بہت سے درد جواں کر دیتی ہے چرواہوں کے دل مچلنے، ملاحوں کی آنکھیں جلنے لگتی ہیں، مسافروں کے حوصلے ٹوٹنے لگتے ہیں۔

 سرما کی شامیں اداس ہوتی ہیں جب خنک اداس شام آسماں سے اترتی ہے تو اس میں تنہائی اور فرقت بھی شامل ہوجاتی ہے ہجر کی آمیزش سے شام تنہائی اور اداسی کا استعارہ بن جاتی ہے جنگل اور دل تنہائی اور جدائی کی خوشبو سے مہکنے لگتے ہیں۔ 

جب سرد شام میں تنہائی در دل پر دستک دیتی ہے تو دل مغموم ہو جاتا ہے اداسی روح میں سرایت کر جاتی ہے۔ خنک شام ہر سمت اداسیاں بکھیر دیتی ہے لوگ ملنے سے پہلے ہی بچھڑ جاتے ہیں شتربان اونٹوں کی مہاریں کھول دیتے ہیں ساربانوں اور ملاحوں کے دل ڈوبنے اور دھڑکنیں بے ربط ہونے لگتی ہیں۔

 سرما کی شاموں میں سورج اپنی تمازت کھو دیتا ہے غروب ہوتا سورج اپنی مضمحل زرد کرنیں پرندوں اور چرواہوں میں بانٹ دیتا ہے ڈوبتے زرد سورج کی ساری اداسیاں شتربانوں اور ملاحوں کی آنکھوں میں سمٹ آتی ہیں۔

 پہاڑ کے دامن میں پھیلی سبز وادیوں میں بکریاں چرانے والے چرواہوں سے جاڑے کی شام کچھ ایسی سرگوشیاں کرتی ہے کہ چرواہے مست و بے خود ہو جاتے ہیں اس عالم سرشاری میں اگر کوئی چرواہا وارث شاہ کی ہیر گنگنانے لگ جائے تو پوری وادی وجد میں آ جاتی ہے درخت مخمور ہو جاتے ہیں چرواہے سرد شام کا بھید جان لیتے ہی۔ 

مشرق کی جانب پرواز کرتی پرندوں کی ڈار جب سرد شام کے حصار میں داخل ہوتی ہے تو کیف و سرور کی سرمستی میں پرندے پرواز کی سمت بدل لیتے ہیں اور آشیانے بھول کر آوارگی پر مائل ہو جاتے ہیں۔

 جب کہرآلود شام میں پیپل کے پیڑ پر چڑیاں چہچہاتی ہیں تو ان کے شور سے گاؤں کے در و دیوار گونجنے لگتے ہیں، سر شام چڑیاں طرب و انبساط سے چہچہاتی ہیں یا اپنے رِستے زخموں اور شکستہ خوابوں کا مرثیہ کہتی ہیں یہ راز صرف درخت ہی جانتے ہیں چڑیوں کی بولی بس پیڑ لگانے والے سمجھتے ہیں۔ 

جب شام کو شمال سے سرد ہوائیں چلتی ہیں تو ٹھنڈک جسم وجان میں سرایت کر جاتی ہے دل میں گمشدہ یادیں سلگنے لگتی ہیں بے قراری کسی آری کی طرح دل کو کاٹنے لگتی ہے۔ جب خنک شام میں شاخِ شجر پر اداس بیٹھی کوئل بولتی ہے تو اس کی آواز کا ترنم دل کی دنیا تہہ و بالا کر دیتا ہے کوئل کے نغمے میں پنہاں سوز و گداز روح کے سارے زخم ہرے کر دیتا ہے روح جسم کے مکان میں پھڑپھڑانے لگتی ہے۔

 جب کسی اداس اور سرد شام میں قافلے بیاباں میں پڑاؤ ڈالتے ہیں تو تنہائیاں ان کے جسم و جان سے لپٹ جاتی ہیں، جان کسی اجنبی دکھ سے جلنے لگتی ہے آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے ہیں۔

  سرد شام میں دل کسی پرانی ویران آسیب زدہ حویلی کی طرح اداس اور تنہا ہو جاتا ہے ایسی حویلی جس کی منڈیروں پر ہیبت اور وحشت کے سائے پھیلے رہتے ہیں، جس کے در و دیوار پر  کسی اجنبی آسیب کا تسلط ہوتا ہے، جہاں کوئی مہمان نہیں بنتا جہاں مسافر قیام نہیں کرتے، جس کے در پر کبھی دستک نہیں ہوتی جس کے دروازے اور کھڑکیاں کھلنا اور بند ہونا بھول جاتی ہیں،

 جس کے دالان میں قہقہے یا قلقاریاں نہیں گونجتیں بلکہ وحشتیں اور تنہائیاں بین کرتی ہیں، جس کے شمعدانوں میں قندیلیں روشن نہیں ہوتیں طاقچوں میں چراغ نہیں جلتے بلکہ وہاں تیرگی اور تاریکیاں راج کرتی ہیں، جس کے کواڑ مسلسل بند رہنے سے زنگ آلود ہو جاتے ہیں اور کوئی مہربان ہاتھ انہیں وا نہیں کرتے، جس کے روزن سے آفتاب کی کرنیں اور روشنی چھن کر اندر نہیں آتی جس کے جھروکوں میں روشن چہرے نمودار نہیں ہوتے۔

جب سرد شام میں تنہائی در دل پر دستک دیتی ہے تو دل مغموم ہو جاتا ہے اور اداسی روح میں سرایت کر جاتی ہے۔

 سرد شام میں مفارقت لازم ہے جو کسی اور سے نہ بچھڑے وہ اپنے آپ سے جدا ہو جاتا ہے۔

 میں جب شام کے قدموں کی چاپ سنتا ہوں تو ذات کے حصار سے نکل کر خود سے جدا ہو جاتا ہوں گھر والے مجھے گھر کے کمروں اور برآمدوں میں تلاش کرتے رہتے ہیں جبکہ میں اپنے وجود کی قید سے نکل کر کسی ویران درگاہ کے طاقچہ میں بوسیدہ چراغ کی صورت پڑا ہوتا ہوں، ایسی درگاہ جس کے آس پاس سے لوگ کب کے ہجرت کر چکے ہوں اور اب وہاں سر شام دیا جلانے کوئی نہیں آتا اس درگاہ کی کہنہ منڈیروں پر وحشت کے سائے پھیلے رہتے ہیں۔ 

اگر کوئی بھولا بسرا مسافر درگاه کی طرف آ نکلے تو مجھے طاقچہ میں پڑا چراغ سمجھ کر سلگا دیتا ہے تب میں کسی ہاری ہوئی مَنَت کے چراغ کی مانند رات تک تنہا جلتا رہتا ہوں۔ اپنی ہی آگ میں جلتے رہنا اک کٹھن آزمائش اور اندوہگیں عمل ہے اس کرب کو شمع سمجھتی ہے۔ 

اور پھر شمال سے آنے والی یخ بستہ ہواؤں سے میری لو تھرتھرانے لگتی ہے میرا ناتواں وجود ڈولنے لگتا ہے، ویران درگاہ کے طاقچہ میں جلتا اکیلا خستہ چراغ تیز ہواؤں کے تھپیڑے کہاں تک سہ سکتا ہے؟ آخر ہوائیں مجھے بجھا دیتی ہیں میرا کچا وجود بھربھری مٹی کی صورت بکھر جاتا ہے اور بجھتے سمے مجھ سے اٹھنے والا دھواں درگاہ کی اداسی اور ویرانی کا حصہ بن جاتا ہے۔

 لیکن آندھیوں کا کوئی دوش نہیں میرے اندر کی بے کسی اور تنہائی مجھے خاکستر کر دیتی ہے میری راکھ وہیں پڑی رہ جاتی ہے درگاہ میں اندھیرا چھا جاتا ہے اور مجھے گھر کا راستہ بھول جاتا ہے۔

کبھی سرما کی شام مجھے جسم کے مکان سے جدا کر کے کسی کچے مکان کے آنگن میں چھوڑ آتی ہے جہاں کھلی کھڑکیوں کے پاس بیٹھی لڑکیاں کپڑے سلائی کر رہی ہوتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں دھاگے ٹوٹتے جاتے ہیں اور سویاں ان کی انگلیوں کی پوروں کو زخمی کر جاتی ہیں۔

 یہ کسی غریب مزدور کی بیٹیاں ہیں جو اوروں کے لیے کپڑے اور سویٹر اور اپنے لیے فقط خواب بنتی رہتی ہیں ایسے شکستہ خواب جو کبھی تعبیر کے دھاگے میں نہیں پروئے جاتے۔

 دھاگوں سے کپڑے سلائی کرتے ہوئے ان کی آنکھوں کے خواب بکھرتے جاتے ہیں ان کے ہاتھوں میں لپٹی اون کی ڈوریاں ان کی زندگی کی طرح بے رنگ ہیں، یہ ان ڈوریوں کو جوڑتی رہتی ہیں جبکہ ان کی اپنی امیدیں ٹوٹتی رہتی ہیں۔ رومال پر کڑھائی کرتے ہوئے ان کے نحیف ہاتھ لرز جاتے ہیں اور کڑھائی کے ٹانکے اکھڑ جاتے ہیں۔ 

ان کی آنکھیں دور خلاؤں میں کسی ایسے شہزادے کے خواب بنتی رہتی ہیں جو کبھی ان کی ٹوٹی دہلیز تک نہیں آئے گا جو کبھی ان کے شکستہ دروازے پر دستک نہیں دے گا۔ اس لیے کہ غریب کی چوکھٹ اس گہرے گڑھے کی طرح ہوتی ہے جہاں سے لوگ کترا کر گزر جاتے ہیں مزدور کی ڈیوڑھی اس ٹوٹی ہوئی اجاڑ سڑک کی مانند ہوتی ہے جہاں کوئی راہ گیر نہیں آتا جہاں سے مسافر بھی گزرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

 جب شام اپنی کرنیں سمیٹ لیتی ہے اور رات کی تاریکییاں اترنے لگتی ہیں تو ان میں سے کوئی لڑکی اٹھ کر کھونٹے سے لٹکی لالٹین روشن کر دیتی ہے، لالٹین کی مدھم لو میں مٹی کے تیل کے ساتھ کچھ خواب اور امیدیں بھی جل کر خاکستر ہونے لگتی ہیں۔ لالٹین کی دھیمی روشنی میں دوپٹے اور چادر پر کڑھای کرتے ہوئے وہ دھاگوں کی ترتیب بھول جاتی ہیں اور کچھ بہتے آنسو اسی چادر میں جذب ہو جاتے ہیں۔

  کبھی سرد ٹھٹھرتی شام میں اپنی ذات سے جدا ہو کر ہائی سکول کی مسجد کے کونے میں دبک کر بیٹھ جاتا ہوں اور ان بوڑھے بابوں کی باتیں سنتا رہتا ہوں جو سر شام چادر کی بکل مار کر مسجد میں آ جاتے ہیں۔

 ان کی باتوں میں کوئی بناوٹ اور کھوٹ نہیں ہوتی وہ بابے اس بیتے زمانے کی باتیں کرتے ہیں جب لوگ سادہ سچے اور مخلص تھے معاشرے میں منافقت خوشامد اور طمع ناپید تھی، جب فضا میں دھواں اور بارود نہیں تھا بہار اپنے سارے رنگوں کے ساتھ چمن میں اترتی تھی دن کو گلاب اور شب میں رات کی رانی کی مہک سے فضائیں معنبر رہتی تھیں۔

جب درختوں پر پرندوں کے گھونسلے سلامت تھے اور اندھیری راتوں میں چمکتے جگنو چڑیا کو گھونسلے تک چھوڑ آتے تھے, جب صبحیں بے نور اور شامیں لہو رنگ نہیں تھیں فاختہ غمگین اور چڑیا بےچین نہیں تھی، جب وحشت خوف اور افراتفری نہیں تھی لوگ کوہ قاف کی داستان سن کر عشاء کے بعد نیند کی پرسکون وادیوں میں اتر جاتے تھے۔ میں مسجد کے کونے میں خاموشی سے سر جھکائے بوڑھوں کی باتیں جمع کرتا رہتا ہوں یہ بوڑھے بزرگ عہد گذشتہ کی روایات کے امین ہیں،

 یہ گم گشتہ ماضی کی پرسوز یادوں کے نگہبان ہیں، ان کے خیالات میں خلوص اور ان کی سوچ میں پختگی ہے۔ یہ بدلتی رت کے چہرے پر لکھے تیور پڑھ لیتے ہیں، یہ موسم شناس ہیں آتے جاتے موسموں کی ساری کیفیات سے واقف ہیں، یہ دھوپ میں پھیلتے سائے ماپ کر نمازوں کا وقت جان لیتے ہیں اور اندھیری راتوں میں آسمان پر چمکتے تاروں کی سمت سے راستہ معلوم کر لیتے ہیں۔

ان کی ضعیف نگاہیں کھرے کھوٹے کو پرکھ لیتی ہیں اور ریت پر لکھی انجان تحریریں پڑھ لیتی ہیں۔ انہوں نے زندگی کو اس کے اصل رنگوں کے ساتھ دیکھا ہے ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کیا ہے ان کے دلوں میں احساس اور غمگساری ہے ۔

 میں سرد شام میں ان پرانے بزرگوں کی باتیں جمع کرتا رہتا ہوں پھر ان میں سے کچھ اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیتا ہوں اور کچھ باتیں گلی میں کھیلتے بچوں اور کمسن چرواہوں میں بانٹ دیتا ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact