از قلم عصمت اسامہ ۔

“تیار ہوجاو، پندرہ منٹ تک آرہا ہوں”۔

فراز کی کال پہ وہ اٹھ تو گئ تھی ،اب بستر سے نکل کے وارڈروب دیکھنے لگی ۔آج فراز نے اسے باہر گھمانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔

خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے مشعل نے آخری ٹچ دیا اور پرس اٹھا کے کمرے سے باہر قدم بڑھادئیے۔ فراز آچکا تھا ۔

ان دونوں کی شادی کو پانچ برس ہوئےتھے ،آنگن میں کوئی پھول تو نہ کھلا مگر دونوں کی محبت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔گھر میں دونوں کے سوا اور کوئی موجود نہیں تھا،کچھ عرصہ قبل فراز کی والدہ جو فالج کی مریضہ تھیں ،ان کا انتقال ہوا تھا۔اگرچہ فراز اور مشعل نے ان کی بہت خدمت کی ،چوبیس گھنٹے ان کے سرہانے ڈیوٹی دیتے لیکن قدرت نے اتنی زندگی ہی لکھی تھی۔ مشعل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی ،اس لئے اب تنہائی سے اسے وحشت ہوتی۔ ذرا فراز آفس سے لیٹ ہوجاتا ،مشعل کال پہ کال کرنے لگتی۔ایک دن تو حد ہی ہوگئی ،مشعل نے جب فون کیا،فراز کی لائن بزی ہی ملی ، وقتاً فوقتاً نمبر ملایا مگر وہی بزی ٹون ،”کیا پرابلم ہے” ،وہ بڑبڑاتی ہوئی کچن میں چلی گئ۔جمچہ ،ہانڈی میں گھماتے ہوئے بھی دھیان فون بیل کی طرف تھا کہ شاید فراز کال بیک کرے گا مگر ندارد ،وہ صحن میں لگے پودوں کو پانی دینے لگی ،بوگن ،چنبیلی اور گلاب کے ساتھ جھومر بیل ہوا کے دوش پہ لہرا رہی تھی۔کچھ دیر بعد فراز کی بائیک کی آواز سنائی دی ۔اس نے جلدی سے جاکے گیٹ کھولا۔ فراز نے بہت سے شاپر اس کے ہاتھ تھما دئیے۔

“ہیں ،اتنا سامان کس لئے ؟ کھانا تو میں پکا چکی’، مشعل نے حیرت سے کہا۔

‘زوبیہ آپی آرہی ہے کچھ دن کے لئے ،تو میں نگٹس اور شامی کباب لے آیا ہوں۔ساتھ فروٹس ہیں ۔کھانے کے ساتھ سویٹ ڈش لازمی بنالینا۔اسے بہت پسند ہے”۔فراز نے تھکے لہجے میں بات کی اور شوز اتارنے لگا۔

“اوکے ، کیا زوبیہ کے ساتھ بچے بھی آرہے ہیں ؟”(اس کے تصور میں پچھلے سال کے ڈنر سیٹ کی ٹوٹ پھوٹ آگئ تومشعل پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔ اس کی نند کے دونوں بچے بہت شرارتی تھے )

“نہیں بھئی ،بچوں کو دادی کے پاس چھوڑ کے آئے گی”۔فراز نے جواب دیا۔

مشعل نے مطمئن ہوکے کچن کا رخ کرلیا تاکہ مذید کچھ ڈشز تیار کرسکے۔

فراز ابھی کمر سیدھی کرنے کے لئے دراز ہوا ہی تھا کہ گیٹ بیل کی مسلسل آواز سے اٹھ گیا۔

“ٹھہرو بھئی ،آرہا ہوں”، فراز نے گیٹ کھول دیا۔

مشعل نے جلدی سے اپنا ڈریس تبدیل کیا اور ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئ جہاں سے ہنسنے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔جیسے ہی وہ روم میں داخل ہوئی ،تھوڑی خاموشی ہوگئ۔ مشعل کو بھی تھوڑا جھٹکا لگا کیوں کہ اس کی نند کے ساتھ ایک اور ماڈرن سی لڑکی کھڑی مسکرا رہی تھی۔

“یہ میری دوست ہے حنا “،ذوبیہ نے تعارف کروایا۔

“اچھا، تشریف رکھیں “،مشعل نے کہا ۔کچھ ہی دیر بعد وہ سب ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھے تھے ۔فراز کو نیند آرہی تھی سو وہ کھانا کھاتے ہی بیڈروم میں جا کے سوگیا۔مشعل ،ذوبیہ اور حنا باتیں کر رہی تھیں۔مشعل انھیں اپنا گھر دکھانے لگی۔ اس نے وہ یادگار پینٹنگ بھی دکھائی جو فراز نے اسے برتھ ڈے پہ گفٹ کی تھی۔

“واؤ خوبصورت ترین منظر کشی ہے” ،ذوبیہ نے بے ساختہ کہا۔

“ویسے آپ زندگی کی کتنی بہاریں دیکھ چکی ہیں ؟” حنا نے پوچھا تو مشعل تھوڑا چپ سی ہوگئی ۔

“ٹاپ سیکرٹ، لیڈیز سے عمر نہیں پوچھتے ” ذوبیہ نے حنا کی بات مذاق میں اڑادی۔

البتہ مشعل کے دل میں حنا کے لئے ایک چبھن سی پیدا ہوچکی تھی ۔

اگلی صبح وہ فراز سے بلاوجہ الجھنے لگی کہ زوبیہ نے آنا تھا تو آتی ،ساتھ اپنی دوست کو کیوں لے آئی ہے ؟اور عجیب بات ہے کہ حنا کے والدین نے اسے کسی کے گھر چھٹیاں گزارنے کی اجازت کیسے دے دی ؟

“یار، کبھی تو تم تنہائی کا گلہ کرتی ہو،اب گھر میں دو عدد خواتین تمہاری تنہائی دور کرنے آگئ ہیں تو یہ بھی تمہیں اچھا نہیں لگ رہا؟” چلو مجھے ناشتہ دو ،آفس سے لیٹ ہورہا ہوں۔فراز نے کہا۔

مشعل نے اپنا اور فراز کا ناشتہ بنایا۔ حنا اور زوبیہ سو رہی تھیں تو اس نے ان کو جگانا مناسب نہ سمجھا اور فراز کے جانے کے بعد وہ بھی سو گئی۔

آنکھ کھلی تو دن چڑھا ہوا تھا ،اوہو ،آج میں لیٹ جاگی ہوں، نجانے آنکھ کیوں نہیں کھلی ؟ مشعل آنکھیں ملتی لاونج میں آگئی ۔

زوبیہ اور حنا کے کمرے کی طرف جھانکا تو کمرہ خالی تھا ۔لگتا تھا کہ دونوں جلدی میں کہیں نکل گئ ہیں، چیزیں بے ترتیب پڑی تھیں۔

عجیب بات ہے ،اب ان کی چیزیں بھی میں ہی سمیٹوں؟ بھلا مجھے بتا کے جاتیں کہ کہاں جارہی ہیں؟ وہ غصہ دور کرنے کے لئے لان میں آگئی تاکہ پھولوں کی خوشبو اور سبزے کی تازگی سے موڈ بحال کرسکے ۔

کچھ دیر چہل قدمی کرکے وہ کچن میں چلی گئ۔ کچن میں وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا تھا،اس لئے اسے کچن میں کام کرنا اچھا لگتا تھا۔ کھانا پکانے کے بعد اس نے سویٹ ڈش بھی تیار کرلی اور فریش ہونے کے لئے اپنے روم میں آگئی۔فراز آج بھی لیٹ ہوگیا تھا ۔ اس نے کئ بار فراز کا نمبر ملایا لیکن کال ریسیو نہ ہوئی ،ذوبیہ کو فون کیا مگر اس نے بھی کال پک نہ کی۔مشعل کا موڈ پھر بیزار ہونے لگا ، عجیب لوگ ہیں ،کم از کم بندہ کال ریسیو نہ کرسکے تو ایک ٹیکسٹ میسج ہی کردیتا ہے کہ اس کام میں مصروف ہوں۔ان سے اتنا بھی نہیں ہوتا ۔احساس ہی نہیں ہے کہ کوئی ان کا منتظر ہے۔ مشعل پھر لان میں آگئی۔واک کرتے کرتے اسے گھنٹہ ہوچلا تھا اور شام کے سائے ڈھل رہے تھے کہ گیٹ بیل بجی۔ مشعل نے گیٹ کھولا، سامنے کا منظر اسے چکرا دینے کو کافی تھا۔ذوبیہ کے ساتھ حنا بھی بائیک پر فراز کے ساتھ بیٹھی تھی اور فراز اندر داخل ہوکے اپنا ہیلمٹ اتارتے ہوئے اسے کچھ کہہ رہا تھا اور پھر تینوں ہنسنے لگے۔  مشعل کے کان شائیں شائیں کر رہے تھے۔اسے کچھ سنائی نہیں دیا۔جب وہ تینوں باتیں کرتے ہوئے اندر چلے گئے ،تب اسے ہوش آیا اور وہ پاؤں پٹختی ہوئی لاؤنج کی طرف چل دی۔

جیسے ہی لاونج میں داخل ہوئی ،فراز نے اس کی فیورٹ آئس کریم اسے تھمادی،وہ مشعل کے چہرے کو پڑھ رہا تھا ،” سوری بھئ ،ہم لیٹ ہوگئے۔ یہ دونوں شاپنگ کرکے میرے آفس آگئ تھیں ،ذوبیہ آئس کریم کا کہہ رہی تھی لیکن دیکھو میں تمہیں نہیں بھولا، تمہاری فیورٹ آئس کریم لایا ہوں”,

وہ اپنی طرف سے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن مشعل نے وہ آئس کریم فریج میں رکھ دی اور اپنے کمرے میں آگئ۔اس کا دل رونے کو چاہ رہا تھا ۔

کوئی وقت ایسا ہوتا ہے جب آنسو باہر نہیں بلکہ دل کے اندر گرنے لگتے ہیں !

وہ بیڈروم میں جا کے نماز پڑھنے لگی ،دعا مانگتے ہوئے بے اختیار اسے بابا یاد آنے لگے.بابا اس کی ہر فرمائش پوری کرتے تھے ۔ اس کی رخصتی پر وہ بھی اشک بار ہوگئے تھے (دل کا ٹکڑا کسی اور کے حوالے کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے )

رات کے نجانے کس پہر فراز بھی آکے سوگیا، آدھی رات کو مشعل کی آنکھ کھلی تو فراز کے موبائل کی سکرین روشن تھی ،اس نے بے اختیار فون اٹھالیا ۔ سامنے زوبیہ کی چیٹ آرہی تھی ،مشعل بے اختیار پڑھنے لگی،

” تمہیں حنا کیسی لگی ،اب دوسری شادی کا مائنڈ بناؤ ،اس گھر میں کسی بچے کی قلقاریاں گونجنی چاہئیں ، پانچ سال کافی ہیں ،انتظار کرنے کو ،بس اب میں پھپھو بننا چاہتی ہوں، حنا کی ماما سے میں بات کرلوں گی ،بس تم اوکے کردو “۔۔۔۔۔۔۔پڑھتے پڑھتے مشعل  کی طبیعت خراب ہونے لگی،اس کے سر  میں بہت سے جھماکے ہونے لگے اور پھر اس کا سر ایک طرف کو ڈھلکتا چلا گیا ۔۔۔۔۔

“مشعل ، مشعل کیا ہوا ہے تمہیں ؟” ایک ہیولا سا اس کے اوپر جھکا ہوا تھا ۔وہ ایک چیخ مار کے اٹھ بیٹھی 

“فراز ،فراز مجھے مت چھوڑنا پلیز ” 

اسے بیک وقت خوف اور رونا آرہا تھا ،اس نے کسی چھوٹے بچے کی طرح فراز کا بازو پکڑ رکھا تھا اور کانپ رہی تھی ۔

“مشعل ،کیا تم نے ذوبیہ کے میسج پڑھے ہیں ؟ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا “

اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔

“افوہ، وہ بے وقوف بہن ،میرے گھر میں فساد ڈال کے چلی گئ ہے ! وہ سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔” دیکھو ،میں نے ذوبیہ آپی کے میسجز کا کوئی جواب نہیں دیا ،میں بعد میں اسے سمجھاؤں گا”

اب وہ ہچکیاں لے کے رو رہی تھی ،فراز نے ٹشو پیپرز اس کے ہاتھ میں پکڑاۓ اور پانی کا گلاس بھی تھمادیا۔وہ پانی پی کے کچھ سنبھلی تو فراز ملائمت سے بولا۔دیکھو ، ٹرسٹ می ،میری زندگی میں صرف میری بیوی ہے ،اور کوئی نہیں ہے۔میرا گھر میری جنت ہے ،میں اس کا سکون کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا ۔شادی سے پہلے میری چیزیں بکھری رہتی تھیں ،سوچیں منتشر رہتی تھی ، تم نے مجھے ترتیب دی ،نکاح سے میرا ایمان مکمل ہوا ،میری ذات کی تکمیل ہوئی ۔میں تنہا بے رونق زندگی گزار رہا تھا،تم نے میرے سراپے میں رنگ بھر دئیے مشعل۔ جب امی بیمار تھیں ،تم نے سگی بیٹی سے بڑھ کر انھیں سنبھالا اور میرا حوصلہ بڑھایا ،اس مشکل وقت میں خدا کے بعد تمھارا ساتھ مجھے بہت بڑا سہارا تھا۔ اولاد کے معاملے میں رب کی ذات پر توکل ہے جب اسے منظور ہوگاوہ دے گا۔ مجھے اور کیا چاہئے ،یقین کرو میں آفس میں کام کرتے ہوئے بھی سوچتا ہوں کہ کب

گھر پہنچوں گا “،وہ آہستہ آہستہ بول رہا تھا اور اس کے لہجے کی مضبوطی اور صدق سے  مشعل کے چہرے پہ رنگ واپس آرہے تھے !

۔۔۔۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact