Wednesday, May 22
Shadow

Tag: معرفت کی باتیں

اکمل شاکر۔ شاعر ، ادیب ۔ گوادر (بلوچستان)

اکمل شاکر۔ شاعر ، ادیب ۔ گوادر (بلوچستان)

رائٹرز
ایک ادیب اور شاعر ہیں جو پسنی ضلع گوادر میں رہائش پزیر  ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے پی آئی اے میں سترہ سال نوکری کرکے پھر دو سال قبل نوکری کو خیر باد کہا۔ پسنی میں بلوچی زبان کے لوگ رہتے ہیں مگر وہ بلوچی شاعری  کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شاعری کرتے ہیں ۔ان کا ایک ماہیا مجموعہ ، تین شعری مجموعہ ،ایک بلوچی مجموعہ اور ایک اردو شعری مجموعہ چھپ چکے ہیں۔ اکمل شاکر کی تصانیف کتب ۔ پرندے لوٹ آتے ہیں ۔ ماہیے عشق آسر نہ بیت ۔بلوچی مجموعہ آٹھ بحر سخن ۔ شعری انتخاب دشت سخن ۔ شعری انتخاب شہر سخن ۔ شعری انتخاب نظم کے ساحل پر ۔شعری مجموعہ کنگن ترے ہاتھوں میں ۔ماہیا مجموعہ سہ ماہی صحب ادبی رسالہ (مدیر) ایوارڈز اعزاز: ادبی ایوارڈ اور سرٹیفکیٹ کنگن ترے ہاتھوں میں ۔ بھیل انٹرنیشنل پاکستان  2022 سید ظہور شاہ ہاشمی ایوارڈ اور سرٹیفکیٹ بلوچی  کتاب عشق آسر نہ بیت انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان اسلام آباددو ہزار بائ...
جہیز لعنت یا ضرورت: تحریر بینش احمد

جہیز لعنت یا ضرورت: تحریر بینش احمد

آرٹیکل
تحریر: بینش احمد ،  اٹک صدیوں سے ہم دیکھتے آ رہے ہیں  والدین جب اپنی بیٹی بیاہتے ہیں تو اُس کے ساتھ سامان سے لدی ہوئی گاڑیاں بھی بھیجی جاتی ہیں ۔یہ ایک ایسی رِیت ہے جو ازل سے چلتی آ رہی ہے۔ چاہے کوئی امیر ہو یا غریب وہ اپنی حیثیت کے مطابق بیٹی کو جہیز ضرور دیتا ہے۔ہمارے ہاں ایسا  رواج ہے۔ لڑکی والے بیٹی تو دیتے ہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ جہیز بھی دیتے ہیں۔ جہیز معاشرے کی ایک ایسی ضرورت یا رسم بن گئی ہے کہ اگر لڑکے والے جہیز لینے سے انکار بھی کریں تو بھی لڑکی والے اپنی عزت کی خاطر جیسے تیسے کر کے اپنی بیٹی کو جہیز لازمی دیں گے۔ جہیز ہمارے معاشرے کی ایک انتہائی فرسودہ رسم ہے۔ اگر لڑکی والے عین اسلامی طریقے پر عمل کر کے تھوڑی سی ضرورت کی اشیاء دیں گے تو زمانے والے اُن بیچاروں کو جینے ہی نہیں دیں گے کہ فلاں نے اپنی بیٹی کو دو جوڑے کپڑوں میں بیاہ دیا۔فلاں کی بیٹی تو اُس پر بہت بھاری تھی بغیر جہیز ک...
ڈاکٹر منور ہاشمی کی شعر ی بصیر ت / تحریر: حمیرا جمیل

ڈاکٹر منور ہاشمی کی شعر ی بصیر ت / تحریر: حمیرا جمیل

آرٹیکل
حمیرا جمیل۔سیالکوٹ شاعری محض لفظوں کو سلیقے سے برتنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں نادیدہ جذبات و احساسات کی پیش کش بھی ہوتی ہے ۔شاعر محض ایک نقال نہیں ہوتاکہ وہ مصور کی طرح چیزوں اور مناظر کو ہو بہو پیش کردے بلکہ وہ دیکھی ہو ئی چیزوں میں اپنے جذبات و احساسات کو شامل کر کے اسے نئی معنویت عطا کرتا ہے ۔گویا فقط فن ِ شاعری ہی شاعری کا موجد نہیں، بلکہ وہ جذبات جو شاعر کو شعر کہنے پر مجبور کریں شاعری کا اہم ترین جزو ہیں،بہترین شاعری بہترین خیالات و افکار کی عکاسی کرتی ہے ،باکمال شاعر حالات و واقعات کا عکاس ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر منور ہاشمی کی شاعری بھی عصر حاضر کے حالات و واقعات میں ڈھلے جذبات کی ترجمان ہے اور اُس معاشرے اور ماحول کی عکاس ہے جس سے براہ ِراست و ہ نبر د آزما ہیں۔آپ کے اشعار ایسے ہی معانی کے حامل ہیںــ’’ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہیـ‘‘ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب شدید جذ...
غزل | رفعت انجم

غزل | رفعت انجم

شاعری
رفعت انجم اَگ وچ تاری لا کے انجم کی کھٹیا سپاں ددھ پِوا کے انجم کی کھٹیا چنگا سی جے اِکو تھاں تے بہہ جاندی اوہدے در تے جا کے انجم کی کھٹیا کوٸ وی سُندا نئیں اے تیریاں گلاں نوں چیخ چہاڑا پا کے انجم کی کھٹیا رب دا ناں ای رفعت بُوہا بند کر لے اوہنوں کول بلا کے انجم کی کھٹیا چنگا سی جے چُپ دی بُکل وٹ لیندی اپنا درد سنا کے انجم کی کھٹیا؟
شاعری کھیل نہیں|  بشریٰ حزیں

شاعری کھیل نہیں| بشریٰ حزیں

ہماری سرگرمیاں
بشریٰ حزیں دوستو ! پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم پہ آپ کے فکروفن کی حوصلہ افزائی اور ترویج کے لئے ہم سب ہمہ وقت حاضر اور کوشاں ہیں۔ لکھنے کی صلاحیت ایک امانت ہے ٫ ایک فریضہ ہے اور جسے یہ نعمت عطاء ہوتی ہے وہ ادب کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید ہو جاتا ہے ۔ آپ کی تحریریں ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتی ہیں لیکن اس وقت ہم سب کی پیاری فاؤنڈیشن مشکل میں پڑ جاتی ہے جب آپ میں سے کسی کی جانب سے بے وزن اور بے ربط تحریر کو شاعری کے نام سے بھیجا جاتا ہے۔ شاعری ایک بہت ہی منفرد اور مشکل صنف ادب ہے ۔ محض چند الفاظ و تراکیب کو جوڑ لینے کا نام تک بندی کہلاتا ہے شاعری نہیں ۔ شاعری کرنے کے لئے شاعری کو سمجھنا ضروری ہے اور اس مقصد کے لئے بھی محض شاعروں کو پڑھ لینا کافی نہیں ۔ شاعروں کو پڑھ کے ان کے خیال و فکر کو توڑ مروڑ کے نئی شکل میں پیش کرنے کا شوق بھی آجکل بہت فرمایا جارہا ہے ۔ مشکل مشکل ا...
فرح ناز فرح کی کتاب “عشقم”، تبصرہ: کومل یاسین

فرح ناز فرح کی کتاب “عشقم”، تبصرہ: کومل یاسین

تبصرے
تبصرہ: کومل یاسین خوبصورت صوفیانہ سر ورق کے ساتھ کتاب عشقم ہاتھ میں تھامتے ہی ہمیشہ کی طرح میں نے پریس فار پیس فاؤنڈیشن یو کے کی بہترین کوالٹی کو خراج تحسین پیش کی ۔ بہترین کاغذ  اور بہترین تزئین وآرائش پریس فار پیس فاؤنڈیشن  کی ادارتی ٹیم اور گرافک ڈیزائنر کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ خوبصورت انتساب جو کہ ماں کے نام تھا دل کو چھو گیا ۔ کتاب میں ایک  مختصر مگر متاثر کن دعائیہ  نظم پڑھنے کو ملی ہے  ۔ کتاب کا پہلا شعر بہت عمدہ تھا ساتھ ہی ایک ثقافت دیکھاتی خوبصورت دوشیزہ کی تصویر بہت عمدہ تھی ۔ من کی بات میں فرح ناز فرح نے کتاب عشقم میں قلم بند جذبات کا احاطہ کر کے کتاب کو پڑھنے کا تجسس بڑھا دیا ۔  کتاب میں موجود حمد و نعت  نے کتاب کو چار چاند لگا دئیے ماشاءاللہ کتاب کے پہلے حصے میں غزلیات نے  شاعرہ کی شاعری پر مضبوط گرفت کو واضح کردیا ۔ہر غزل پہلی غزل سے عمدہ اور لاجواب تھی ۔ شاعرہ کی...
“ایک تاریخ ساز دستاویز “مشرقی پاکستان: ٹوٹا ہوا تارہ

“ایک تاریخ ساز دستاویز “مشرقی پاکستان: ٹوٹا ہوا تارہ

تبصرے
تبصرہ: اوریا مقبول جان کراچی کے ناظم آباد کا بڑا میدان، 1972ء کے دسمبر کا مہینہ، اسلامی جمعیت طلبہ کا سالانہ اجتماع تھا اور میں ایک شخص کی تقریر کا منتظر تھا۔ گذشتہ چار سال سے ادبی حُسن اور معلومات کے خزانے سے معمور اس کی تحریریں میرے شوق کا سامان تھیں۔ وہ واحد لکھاری ہے جسے میں نے اپنے زمانۂ الحاد سے پڑھنا شروع کیا اور اسلام کی منزلِ تسلیم و رضا کے بعد بھی اسی محبت سے پڑھتا رہا۔ وہ اس مملکتِ خداداد پاکستان میں ایک صالح اور پاکیزہ ادبی صحافت کا امام ہے۔ اس نے ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ کا آغاز کیا تو یہ رسالہ ہر پڑھے لکھے گھر کی زینت بن گیا۔ اس کی دیکھا دیکھی درجنوں ڈائجسٹ مارکیٹ میں آئے، لیکن سوائے شکیل عادل زادہ کے ’’سب رنگ‘‘ ڈائجسٹ کے اور کوئی نہ جم سکا۔ سب رنگ کو تو مرحوم و مغفور ہوئے ایک عرصہ ہو گیا، لیکن اُردو ڈائجسٹ آج بھی اپنی روایتوں کا امین، لوگوں کے ادبی ذوق کی مسلسل تسکین کر رہا ہے۔ ہفت...
فوزیہ رد ا کا شعری مجموعہ ” سپتک”/ رئیس اعظم حیدری کا تبصرہ

فوزیہ رد ا کا شعری مجموعہ ” سپتک”/ رئیس اعظم حیدری کا تبصرہ

تبصرے
تبصرہ نگار: رئیس اعظم حیدری اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرماکر  ہم انسانوں کو اس روئے زمین پر بسنے کا ای حسین  موقعہ  عنایت فرمایا  مگر اس دنیا میں آدم علیہ کو بھیجنے کے بعد اللہ نے  ہم انسانوں کو بہت بڑا امتحان میں ڈال دیا ۔ اگر آدم علیہ السلام اور ماں حوا جنت میں ہوتے تو ہم لوگ بھی جنت میں ہی ہوتے  مگر ایسا نہیں ہوا ایک غلطی کی وجہ کر آدم علیہ السلام  اور ماں حوا کو زمین پر اترنا پڑا  جس کے نتیجے میں ہملوگ امتحان میں آگئے اب اس امتحان کو پاس کر کے  ہی جنت حاصل ہو سکتی ہے۔ بہر حال خدا قادر مطلق ہے  آدم علیہ السلام کی پسلی سے ماں حوا کو  پیدا فرماکر   مرد وعورت کو ایک ذہنی  تسکین بخشی  ہے۔ اگر عورت کا وجود  نہیں ہوتا تو یہ دنیا کی آبادی  کس طرح پھیلتی ۔۔مگر  اللہ ہرچیز پر قادر ہے وہ تو کن فیکون کہہ کر ہر چیز  کو پیدا کر سکتا ہے  ۔آدم‌ کو بغیر ماں باپ کے  حوا کو بغیر ماں کے عی...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact