Saturday, May 11
Shadow

اردو

رباب عائشہ کی خودنوشت “لمحوں کی دھول”، تاثرات: نصرت نسیم

رباب عائشہ کی خودنوشت “لمحوں کی دھول”، تاثرات: نصرت نسیم

تبصرے
تاثرات: نصرت نسیم بہت پیاری رباب عائشہ کی منفرد خود نوشت لمحوں کی دھول  کا مسودہ میرے ہاتھوں میں ہے ۔اور۔مجھے بے پایاں مسرت محسوس ہورہی ہے ۔اس مسرت کی وجہ تو آخر میں بیان کرونگی ۔فی الوقت لمحوں کی دھول پر بات کرتی ہوں ۔جو لمحوں کی دھول نہیں ۔بلکہ ایک پورے دور پورے عہد کو رباب نے پوری سچائی کے ساتھ محفوظ کردیا ہے ۔آج سے 50 سال پہلے کا روالپنڈی ،مقامات۔،حالات ،رشتے داریاں ،رسم۔ورواج وضع۔داریاں ،محبتیں  ان سب رنگوں سے دمکتی خود نوشت ہے۔یہ ایک کارکن صحافی اورجرات مند خاتون کی داستان حیات ہے ۔کہ جس نے کارزارِ حیات کی کٹھنایئوں اوررکاوٹوں کاڈٹ کر مقابلہ کیا ۔دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اخبار کی نوکری کو ئی آسان بات نہ تھی ۔مگر ہمت و حوصلے کے تیشے سے اس نے مشکلات کے کوہ گراں تسخیر کئے ۔پچاس سالہ صحافتی زندگی کی اس داستان میں عائشہ نے بڑی جرات اورسچائ کے ساتھ ملک کے دو بہت بڑے اورمشہور اخبارات کے اس...

آئی ایم ایف سے نجات کیسے؟ تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن

آرٹیکل
تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن اس وقت اقتصادی بحران کی بنیادی وجہ ادائیگیوں کا توازن ہے۔ روپے کی قدر میں کمی، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، افراط زر میں بے تحاشہ اضافہ، آئی ایم ایف سے بار بار رجوع، سٹیٹ بنک کا آئی ایم ایف کا باج گزار بننا، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے تحت شرح سود میں اضافہ اور پھر شرح سود میں اضافے کے مضمرات، ان سب کے پس منظر میں ادائیگیوں کے توازن کا بگاڑ شامل ہے۔  رواں مالی سال میں ادائیگیوں کا توازن کافی بہتر ہوا۔ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں پاکستانی درامدات 30 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہیں، جب کہ برامدات اور ترسیلات زر سے بالترتیب 19 ارب ڈالر اور 13 ارب ڈالر رہیں، اس طرح مجموعی طور پرکرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا، لیکن قرض کی اقساط کے سبب پاکستان کو بدستور مسائل کا سامنا ہے۔ چونکہ قرض کی اقساط اگلے مالی سال میں بھی ادا کرنی ہیں، اس لئے یہ دباؤ آنے والی حکومت کے دور میں بھی برق...
“لمحوں کی دھول “از رباب عائشہ/تبصرہ : قانتہ رابعہ

“لمحوں کی دھول “از رباب عائشہ/تبصرہ : قانتہ رابعہ

تبصرے
تبصرہ : قانتہ رابعہ "زندگی صرف ایک بار ملتی ہے کسی کے لیے یہ زہر کی مانند ہے اور کسی کے لیے تریاق ،کامیاب ہے وہ جو دوسروں کی زندگی سے سبق سیکھتا ہے ناکامی کا ہو تو بچنے کی کوشش اور قابل رشک ہو،تو اسے اپنانے کی"۔  کسی بھی نامور شخصیت کی داستان حیات بالعموم اس کے مرنے کے بعد لکھی جاتی ہے لکھنے والا جو لکھتا ہے وہ سو فیصد ویسی نہیں ہوتی جو زندگی گزارنے والے نے گزاری۔   انیس بیس کا فرق رہتا بھی ہے لیکن جو داستان حیات لکھنے والے نے خود لکھی وہ ایک فلم کرنے والے کیمرہ کی مانند ہوتی ہے جس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔  میری رائے میں بہترین کتاب وہ ہے جو شروع کریں تو ادھوری چھوڑنا مشکل ہو جائے ۔کتاب ہاتھ سے رکھنا پڑے تو دھیان گیان اسی طرف رہے۔  میرے پاس بھی کسی ناول کے کرداروں سے مزین  ،افسانوں جیسی دلچسپ  اور کہانیوں جیسی سادگی لئے معروف  خاتو...
افسانہ : تکبیر۔تحریر: عصمت اسامہ

افسانہ : تکبیر۔تحریر: عصمت اسامہ

افسانے
عصمت اسامہ ۔حمدان شیخ ،اپنے آرام دہ لگژری بیڈروم میں محو_استراحت تھا ،اس کی سائیڈ ٹیبل پر دنیا کا مہنگا ترین آئی فون پڑا تھا جس پر کسی کی کال آنے کے سبب لائٹ بلنک ہورہی تھی مگر سائیلنٹ موڈ کی وجہ سے شیخ تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ کمرے کا نیم تاریک ماحول شیخ کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔ یکایک شیخ نیند میں کچھ بڑبڑانے لگا اور پھر ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھل گئی ،وہ اٹھ کے بیٹھ گیا ،اس کی نبض تیز چل رہی تھی اور ماتھے پر پسینہ تھا۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور غٹاغٹ پی گیا۔ وقت دیکھا تو آدھی رات کا وقت تھا ،وہ دوبارہ لیٹ گیا اور کچھ دیر بعد کمرہ پھر اس کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔شیخ حمدان کے خاندان کا شمار دبئی کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا تھا۔ اس کا بزنس مشرق_ وسطی' کے متعدد ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔ہر روز کسی نہ کسی کانفرنس میں شرکت کے بعد اسے نئے آئیڈیاز سوجھتے اور پھر چن...
ممتاز غزنی ہوریں نی آں ادبی خدمات: لِخُت: نقی اشرف

ممتاز غزنی ہوریں نی آں ادبی خدمات: لِخُت: نقی اشرف

تبصرے
لِخُت: نقی اشرف میں فیس بُک اُپر لوکیں بہت چھانی پھٹکی تے ایڈ کرنا ہُونیس۔ اُس نی وجہ ہیک ایہہ دی کہ  کُوتے کوئی ایسا انتہا پسند شخص یا خاتون نہ ایڈ ہوئی  گچھے جس وچ دُوئے کی اختلافِ رائے نا حق دِتے نی ہمت و جرات نہ ویہہ تے او گالم گلوچ اور بدتمیزیار اُتری اَچھیہہ اُٹھی۔   چروکنی گل دی ہیک  مولوی ٹائپ جے ممتاز غزنی نامی بندے نی فرینڈ ریکوسٹ آئی۔میں پروفائل پڑھی دیکھی ایڈ کری شوڑے۔ بَلہی بَلہی پتہ لغا او کوئی روائیتی مولوی نئیں،  بِچا جور دے۔ فیس بُکار میں اُنھیں نیاں پہاڑی تحریراں نظری آئیاں۔فیر بُجیا اُنھیں نی کوئی کتاو آئی، فیر ہور کتاو، فیر ہور کتاو۔ تُسیں کہائی، جس لیتری وی آخنے،اُس نا تے پتہ ہوسی نا ،بہوں سارے لوک مِلی تے ٹہولیں باجیں کنے کہاء کَپنے ہونے سے۔ اس توں علاوہ ہیک ہور کہائی ہونی۔ تویئیر جیہڑی کالخ لغی نی ہونی تے جدوں توا تتہ ہونا تے اُس اَگ ل...
کتاب؛”ننھا سلطان تبصرہ نگار :انگبین عروج

کتاب؛”ننھا سلطان تبصرہ نگار :انگبین عروج

تبصرے
کتاب؛"ننھا سلطان تبصرہ نگار :انگبین عروج تبصرہ نگار :انگبین عروجمحترمہ شمیم عارف صاحبہ سے کون واقف نہیں۔آپ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔نثر اور نظم دونوں اصناف پر طبع آزمائی کرتی ہیں۔ادبی حلقوں میں شمیم عارف صاحبہ کی وجہ شہرت ان کا سفرنامہ حج "عشق کی نگری" بنا،جسے آپ نے ۲۰۱۷ میں حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد قلم بند کیا۔اس کے علاوہ ۲۰۱۹ میں آپ کی شاعری پر مشتمل مجموعہ "ابھی ہم راہ گُزر میں ہیں"،نے بھی ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کی۔زیرِ مطالعہ کتاب "ننھا سلطان" ترک ماں بیٹے کی زندگی پر مشتمل کہانی پر ایک ناولٹ ہے۔مصنفہ محترمہ شمیم عارف صاحبہ کے مطابق یہ ایک سچی داستان ہے۔اس کتاب کے خوبصورت سرورق پر ایک معصوم سے کمسِن بچے کی تصویر دیکھ کر مجھے پہلے پہل محسوس ہوا کہ یہ کہانی بچوں کے لیے لکھی گئی ہے لیکن اس کتاب کو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہوتے دیکھا تو اس کتاب کو پڑھنے کا مصمم ارادہ...
بِسواس: اِس ڈَکے نی گَل ایہہ ہور دی                          لِخُت: نقی اشرف

بِسواس: اِس ڈَکے نی گَل ایہہ ہور دی                          لِخُت: نقی اشرف

تبصرے
لِخُت: نقی اشرفدُنیارا بہوں ساریاں زباناں تے بولیاں مکیر دیاں۔ اِنھیں زبانیں تے بولییں نے اس طرح دندیر پُجے نی وجہ  نہ لِخن ہونا دا۔ انھیں وچا ہیک ساڑی مآ بولی پہاڑی وی دی۔ پہاڑی بولنونی تے بہوں بڑے علاقے تے بہوں بڑیا آبادیاچ دی فہ لخے نے حوالے کنے ساڑے پاسے  اس زبانچ بہوں کہٹ کم واہا۔ سیانے آخنے جس زبانچ ادب تخلیق ویہہ او کدے نی مُکنی۔ ساڑے پاسے اس بارے کُنی کہٹ ایہہ سوچیا۔ جدوں میں یو چِنتا تے بسواس کِیتے والے نے باریچ سوچنیس تے ہیک ناں  میں بہوں مٹا مٹا لخا نا دُورا نظری اینا، او ناں دا ڈاکٹر محمد صغیر خان۔ سارے تھی پہلے اُنھیں پہاڑی آخان کتابی صورت وچ کہٹھے کِیتے فیر ساڑیا پونچھی پہاڑی وچ افسانیاں نی پہلی کتاو ‘‘کٹھی بَٹی‘‘ لِخنیں، ‘فیر ‘‘سَت برگے نا پُھل‘‘، فیر شاعری، سفرنامہ لِخنیں تے ہبن بُجیا پہاڑی خاکیں نی کتاو وِی آچھے والی۔ میں آخنیس بیئک بیئک  نا کی لِخی گئ...
ماہرِ عروض اور پختہ گو شاعر پروفیسر خالد بزمیؔ/صدام ساگر

ماہرِ عروض اور پختہ گو شاعر پروفیسر خالد بزمیؔ/صدام ساگر

آرٹیکل
صدام ساگر نعت گوئی کا آغاز رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک ہی میں حضرت حسان بن ثابتؓ، کعب بن زبیرؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ سے ہُوا، جنھوں نے عربی نعت میں اپنی والہانہ عقیدت اور عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی سلیقہ مندی کے ساتھ بیان کیا بعد میں سعدیؒ و جامیؒ اور رومیؒ جیسے شعرا نے فارسی زبان میں مدحت سرائی کے گلزار کھلائے ، اُردو ادب میں علامہ اقبالؒ اور محسن کارکورویؒ سمیت کئی شعرا نے اُردو نعت میں جو گل ہائے سخن کھلائے اُن کی مہک کو آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر خالد بزمیؔ کا شمار بھی ایسے ہی خوش نصیب نعت گو شعرا میں ہوتا ہے، جو حقیقی طور پر عاشقِ رسولؐ تھے ان کی نعتیں عشق و مستی سے لبریز ہیں۔ عشقِ محمد ﷺ جیسی کیفیت سے سرشار ہونے پر ان کے ہاں بہت سے حمد و نعت، مناقب اور سلام کے پھول کھلتے دکھائی دیتے ہیں جن کی خوشبو ایک عالم کو تا دیر مہکائے رکھے گی۔...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact