Sunday, April 28
Shadow

اردو

کتاب: سائنسی جنگل کہانی ۔تبصرہ :انگبین عُروج

کتاب: سائنسی جنگل کہانی ۔تبصرہ :انگبین عُروج

تبصرے
تبصرہ :انگبین عُروج(کراچی)۔مُصّنفہ کا تعارفمحترمہ تسنیم جعفری ادبِ اطفال کے اُفق پر ایسا روشن ماہتاب ہیں جن کا نام یقیناً کسی تعارف کا محتاج نہیں۔مُصنّفہ کی شخصیت اور ادب کے لیے ان کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترداف ہے۔آپ کی مثبت شخصیت عجز و انکساری،نرم خوئی اور اخلاق و کردار میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔گہوارۀ علم و ادب کا روشن و تاباں چراغ محترمہ تسنیم جعفری جنہیں پاکستان میں"ادبِ اطفال میں سائنس فکشن" کا بانی کہا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا۔فی زمانہ محترمہ تسنیم جعفری کا شمار پاکستان میں ادبِ اطفال کی خدمات اور ترویج کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنے والے چند ایک بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے۔محترمہ تسنیم جعفری کا تعلق پاکستان کے علم و ادب سے منسلک شہرِ لاہور سے ہے۔آپ عرصۀ دراز سے شعبۀ تدریس سے وابستہ ہیں،یہی وجہ ہے کہ قوم کے ننھے معماروں اور نوجوانانِ وطن سے بہت گہرا قلبی و ...
بین کرتی آوازیں/ میں تانیثیت اوروجودیت کااظہار

بین کرتی آوازیں/ میں تانیثیت اوروجودیت کااظہار

تبصرے
محمدشاہدحفیظشعبہ اردو،گورنمنٹ گریجویٹ کالج میلسی (پاکستان)        نسترن احسن فتیحی معروف محقق،نقاد ،ناول وافسانہ نگارہیں۔آپ سمستی پور،بہار(انڈیا)میں سید محمداحسن کے گھرپیداہوئیں۔۱۹۸۶ء میں ایم۔اردو کیااورگولڈ میڈلسٹ قرارپائیں۔۱۹۹۱ء میں پنجاب یونیورسٹی (چندی گڑھ) سے پی۔ایچ۔ڈی کیا۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے پروفیسر علی رفادفتیحی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں تو علی گڑھ (یوپی)میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔نسترن احسن فتیحی بنیادی طورپرناول نگار ہیں۔تاہم انھوں نے "ایکوفیمینزم اور عصری تانیثی اردوافسانہ"(۲۰۱۶ء)سے تحقیق وتنقید کے میدانِ کارزار میں قدم رکھا۔اس کتاب کویوپی اردواکیڈمی سے پہلاانعام حاصل ہوااوربہاراردواکیڈمی سے دوسراانعام ملا۔تانیثیت اورتانیثی افسانے پر مشتمل یہ اہم کتاب( ۲۰۱۸ء) عکس پبلی کیشنز کراچی (پاکستان)سے بھی شائع ہوچکی ہے۔فکشن کے میدان میں ان کا پہلاناول "...
افسانہ: ہم کون ہیں؟ تحریر:  انعم طاہر

افسانہ: ہم کون ہیں؟ تحریر:  انعم طاہر

افسانے
تحریر:  انعم طاہربظاہر وہ دونوں چائے کی چسکیاں لے رہے تھے لیکن ان کی ساری توجہ اپنے پانچ سالہ بیٹے ریان کی طرف تھی جو کافی دیر سے اپنی اسکول کی نوٹ بک ہاتھ میں پکڑے چند سوالات کے لکھوائے گئے جوابات یاد کر رہا تھا۔ ایک جواب کو وہ کئی کئی بار دہرا رہا تھا اور اسکی کوشش تھی کہ جو جواب وہ تیار کر رہا تھا، اسکا ایک لفظ بھی لکھوائے گئے جواب سے مختلف نہ ہو۔ جہاں صنم اپنے بیٹے کی مہارت دیکھ کر دل ہی دل میں صدقے واری جارہی تھی وہیں سعد یہ دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوگیا تھا۔مروجہ تعلیمی نظام سے وہ ذہنی طور پر اسی طرح دور تھا جس طرح مروجہ تعلیمی نظام تعلیم کے اصل مقصد سے دور ہے۔ وہ اکثر سوچتا ' تعلیمی ادارے کیا ہیں ؟ جیل ہیں جہاں سلاخوں کی پیچھے کئی خواب سسکیاں بھرتے ہیں؛ طلباء بے قصور قیدیوں کی مانند خلاؤں کو گھورتے درحقیقت صرف تالا کھلنے کا انتظار کرتے ہیں؛ خاکی وردی والی سوچ کے اساتذہ ہاتھوں ...
عباس علی شاہ کے مقالہ پر نگاہِ عاجزانہ/ آفتاب شاہ

عباس علی شاہ کے مقالہ پر نگاہِ عاجزانہ/ آفتاب شاہ

تبصرے
آفتاب شاہ سیالکوٹ ایک علمی مقالہ بغیر تحقیق اور تنقید کے ردی کی دکان ہوتا ہے۔ اور ایسی ردی کی دکانیں ملکِ خداداد میں جابجا بکھری پڑی ہیں ۔موجودہ عہد میں جہاں پر ہر شعبہ زوال کا شکار ہے وہاں پر یونیورسٹیوں میں لکھے جانے والے مقالہ جات بھی اس علت کا شکار نظر آتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ مقالہ جات تحقیقی اور تنقیدی اوصاف سے عاری نظر آتے ہیں شعبہ اُردو کے غبی اور گپی اساتذہ کرام اپنی رقم کھری کرنا چاہتے ہیں جبکہ طلباء و طالبات ڈگری کے حصول کے لیے آسان پسندی کا شکار نظر آتے ہیں اس آسان پسندی میں اساتذہ کرام کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو گلی محلوں کے شعراء اور ادیبوں پر مقالہ جات لکھنے کی اجازت دے کر وقت ٹپانے کی خوبصورت روائت کو نبھاتے چلے جارہے ہیں شاگردانِ ارسطو و افلاطون چاہتے ہیں کہ انہیں ایسا موضوع مل جائے جس پر زیادہ محنت درکار نہ ہو اور چند دنوں میں مقالے کی ہنڈیا تیار کر کے اساتذہ کرام کے س...
رباب عائشہ کی خودنوشت “لمحوں کی دھول”، تاثرات: نصرت نسیم

رباب عائشہ کی خودنوشت “لمحوں کی دھول”، تاثرات: نصرت نسیم

تبصرے
تاثرات: نصرت نسیم بہت پیاری رباب عائشہ کی منفرد خود نوشت لمحوں کی دھول  کا مسودہ میرے ہاتھوں میں ہے ۔اور۔مجھے بے پایاں مسرت محسوس ہورہی ہے ۔اس مسرت کی وجہ تو آخر میں بیان کرونگی ۔فی الوقت لمحوں کی دھول پر بات کرتی ہوں ۔جو لمحوں کی دھول نہیں ۔بلکہ ایک پورے دور پورے عہد کو رباب نے پوری سچائی کے ساتھ محفوظ کردیا ہے ۔آج سے 50 سال پہلے کا روالپنڈی ،مقامات۔،حالات ،رشتے داریاں ،رسم۔ورواج وضع۔داریاں ،محبتیں  ان سب رنگوں سے دمکتی خود نوشت ہے۔یہ ایک کارکن صحافی اورجرات مند خاتون کی داستان حیات ہے ۔کہ جس نے کارزارِ حیات کی کٹھنایئوں اوررکاوٹوں کاڈٹ کر مقابلہ کیا ۔دو چھوٹے بچوں کے ساتھ اخبار کی نوکری کو ئی آسان بات نہ تھی ۔مگر ہمت و حوصلے کے تیشے سے اس نے مشکلات کے کوہ گراں تسخیر کئے ۔پچاس سالہ صحافتی زندگی کی اس داستان میں عائشہ نے بڑی جرات اورسچائ کے ساتھ ملک کے دو بہت بڑے اورمشہور اخبارات کے اس...

آئی ایم ایف سے نجات کیسے؟ تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن

آرٹیکل
تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن اس وقت اقتصادی بحران کی بنیادی وجہ ادائیگیوں کا توازن ہے۔ روپے کی قدر میں کمی، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، افراط زر میں بے تحاشہ اضافہ، آئی ایم ایف سے بار بار رجوع، سٹیٹ بنک کا آئی ایم ایف کا باج گزار بننا، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے تحت شرح سود میں اضافہ اور پھر شرح سود میں اضافے کے مضمرات، ان سب کے پس منظر میں ادائیگیوں کے توازن کا بگاڑ شامل ہے۔  رواں مالی سال میں ادائیگیوں کا توازن کافی بہتر ہوا۔ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں پاکستانی درامدات 30 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہیں، جب کہ برامدات اور ترسیلات زر سے بالترتیب 19 ارب ڈالر اور 13 ارب ڈالر رہیں، اس طرح مجموعی طور پرکرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا، لیکن قرض کی اقساط کے سبب پاکستان کو بدستور مسائل کا سامنا ہے۔ چونکہ قرض کی اقساط اگلے مالی سال میں بھی ادا کرنی ہیں، اس لئے یہ دباؤ آنے والی حکومت کے دور میں بھی برق...
“لمحوں کی دھول “از رباب عائشہ/تبصرہ : قانتہ رابعہ

“لمحوں کی دھول “از رباب عائشہ/تبصرہ : قانتہ رابعہ

تبصرے
تبصرہ : قانتہ رابعہ "زندگی صرف ایک بار ملتی ہے کسی کے لیے یہ زہر کی مانند ہے اور کسی کے لیے تریاق ،کامیاب ہے وہ جو دوسروں کی زندگی سے سبق سیکھتا ہے ناکامی کا ہو تو بچنے کی کوشش اور قابل رشک ہو،تو اسے اپنانے کی"۔  کسی بھی نامور شخصیت کی داستان حیات بالعموم اس کے مرنے کے بعد لکھی جاتی ہے لکھنے والا جو لکھتا ہے وہ سو فیصد ویسی نہیں ہوتی جو زندگی گزارنے والے نے گزاری۔   انیس بیس کا فرق رہتا بھی ہے لیکن جو داستان حیات لکھنے والے نے خود لکھی وہ ایک فلم کرنے والے کیمرہ کی مانند ہوتی ہے جس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔  میری رائے میں بہترین کتاب وہ ہے جو شروع کریں تو ادھوری چھوڑنا مشکل ہو جائے ۔کتاب ہاتھ سے رکھنا پڑے تو دھیان گیان اسی طرف رہے۔  میرے پاس بھی کسی ناول کے کرداروں سے مزین  ،افسانوں جیسی دلچسپ  اور کہانیوں جیسی سادگی لئے معروف  خاتو...
افسانہ : تکبیر۔تحریر: عصمت اسامہ

افسانہ : تکبیر۔تحریر: عصمت اسامہ

افسانے
عصمت اسامہ ۔حمدان شیخ ،اپنے آرام دہ لگژری بیڈروم میں محو_استراحت تھا ،اس کی سائیڈ ٹیبل پر دنیا کا مہنگا ترین آئی فون پڑا تھا جس پر کسی کی کال آنے کے سبب لائٹ بلنک ہورہی تھی مگر سائیلنٹ موڈ کی وجہ سے شیخ تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ کمرے کا نیم تاریک ماحول شیخ کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔ یکایک شیخ نیند میں کچھ بڑبڑانے لگا اور پھر ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھل گئی ،وہ اٹھ کے بیٹھ گیا ،اس کی نبض تیز چل رہی تھی اور ماتھے پر پسینہ تھا۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور غٹاغٹ پی گیا۔ وقت دیکھا تو آدھی رات کا وقت تھا ،وہ دوبارہ لیٹ گیا اور کچھ دیر بعد کمرہ پھر اس کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔شیخ حمدان کے خاندان کا شمار دبئی کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا تھا۔ اس کا بزنس مشرق_ وسطی' کے متعدد ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔ہر روز کسی نہ کسی کانفرنس میں شرکت کے بعد اسے نئے آئیڈیاز سوجھتے اور پھر چن...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact