Monday, May 20
Shadow

آرٹیکل

راولاکوٹ میں صفائی مہم      تحریر: نقی اشرف

راولاکوٹ میں صفائی مہم      تحریر: نقی اشرف

آرٹیکل
تحریر: نقی اشرف تبلیغی جماعت کے بارے میں میرا تاثر  ہمیشہ سے یہ رہا کہ یہ ترکِ دنیا یا با الفاظِ دیگر رہبانیت کا درس دینے والے لوگ ہیں مگر جب کبھی میں قمر رحیم جیسے لوگوں کو دیکھتا ہوں، اُن کی سرگرمیاں ملاحظہ کرتا ہوں تو کچھ دیر کے لیے سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کیا میں اپنے تاثر کو کلی طور پر درست کہنے میں حق بجانب ہوں یا یہ جُزوی طور پر ہی درست ہے؟  قمر رحیم کو کیڑا ہے، ٹِک کر بیٹھنے والے نہیں ہیں۔ صورتِ حال جیسی بھی ہو، دل برداشتہ ہونے والے نہیں ہیں، ہاں کبھی قلم برداشتہ نظر آتے ہیں اور کبھی میدانِ عمل میں جادہ و پیماں۔ جن کاموں پر یہ نکلے ہوتے ہیں اُن میں خال خال ہی کسی کا  ساتھ میسر ہوتا ہے مگر ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انھیں افراز خان جیسا یارِ غار ہم پیالہ و نوالا ہے۔ یہ گزشتہ سال ہی کی بات ہے میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا کہ یہ دونوں راولاکوٹ کے سیاحتی مقام گورو دوارہ سے...

سکول اور کیریئر کونسلنگ/تحریر : جمیل احمد

آرٹیکل
تحریر : جمیل احمدمیں دسویں جماعت میں اُردو کا پیریڈ لے رہا تھا۔ طلباء کو مضمون لکھنے کا کہا گیا تھا۔ سب ہی طلباء نے اچھی کوشش کی تھی، البتہ ایک طالب علم کے مضمون پر نظر ٹھہر گئی۔ ہینڈ رائٹنگ تو اچھی تھی ہی، مضمون کی روانی اور مواد کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ مجھے تدریس کا شعبہ اختیار کیے زیادہ عرصہ تو نہیں ہوا تھا، البتہ اللّہ کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ ضرور کہتا ہوں کہ میں "بائی چوائس" استاد بنا۔ شاید اسی غیر محسوس اعتماد کی بنیاد پر میں نے طالب علم کو مشورہ دے ڈالا کہ آپ ایک جرنلسٹ بن سکتے ہو۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی کیا خوب ہے۔ شاگرد کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی۔ اس نے اچھے نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس زمانے میں اچھے نمبر لینے والے طلبہ کے دو ہی اولین چوائس ہوتے تھے، پری میڈیکل یا پری انجینئرنگ۔ والدین کی خواہش تھی کہ بیٹا ڈاکٹر بنے، لیکن بیٹے کی آنکھوں میں جرنلسٹ بننے کے خواب ...
ناول ’’دھندلے عکس‘‘ میں تکنیک کے تجربے ڈاکٹر عرشیہ جبین

ناول ’’دھندلے عکس‘‘ میں تکنیک کے تجربے ڈاکٹر عرشیہ جبین

آرٹیکل
ڈاکٹر عرشیہ جبین                     ناول ’’دھندلے عکس‘‘ کرن عباس کرن کا ناول ہے۔کرن عباس کرن اردو کی نو وارد ادیبہ ہیں۔ان کا تعلق آزاد کشمیر،سے ہے۔ان کی ولادت آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ۳؍اکتوبر ۱۹۹۵ء کوہوئی۔۲۰۱۸ء میں آزادجموں و کشمیر یونیورسٹی سے انگریزی میں بی ایس کرنے کے بعد انھوں نے حال ہی میں ایم فل کی ڈگری مکمل کی ہے۔ان کے ادبی سفر کا آغازابتدائی طالب علمی کے زمانے ہی سے ہوگیا تھا۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ۲۰۱۸ء میں ’’گونگے خیالات کا ماتم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ان کا پہلا ناول ’’دھندلے عکس‘‘ انھوں نے ۲۰۲۰ء میں تحریر کیا لیکن یہ ۲۰۲۱ء میں پاکستان کے مایہ ناز اخبار ’’جنگ‘‘  کے سنڈے ایڈیشن میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔اس کے علاوہ ان کے دو اور ناول زیر تحریر ہیں ۔انھوں نے...
مظفرآباد کے مندروں کی خستہ حالی تحریر: حمزہ سعید 

مظفرآباد کے مندروں کی خستہ حالی تحریر: حمزہ سعید 

آثارِقدیمہ, آرٹیکل
تحریر: حمزہ سعید  ہم کمرہ امتحان سے آخری پرچہ دینے کے بعد نکلے، دوست اکٹھے ہوئے اور کہیں گھومنے کے ارادے سے کالج کے صدر دروازے سے نکل کر سڑک پر آ گئے، کسی نے پیر چناسی، کسی نے مچھیارا پارک، کسی نے جلال آباد پارک، تو کسی نے لال قلعے جانے پر زور دیا، بلآخر اتفاق ہوا کہ ہمیں مظفرآباد میں واقع تاریخی مندروں کو دیکھنے کے لیے چلنا چاہیے، ہم میں سے کسی نے بھی ان مندروں کو پہلے نہیں دیکھا تھا تاہم ہم میں سے اکثریت نے ان مندروں کے بارے میں سن رکھا تھا، ہمارے پاس چند موٹر سائیکلیں تھیں، ہم موٹر سائیکلوں پر سوار ہو گئے اور سب سے پہلے ہم نے قریب ترین مندر جو کہ مدینہ مارکیٹ میں واقع ہے اس کی طرف رخ کیا ہم مدینہ مارکیٹ میں داخل ہوئے ہمیں اتنا تو پتہ تھا کہ مندر مدینہ مارکیٹ میں ہی ہے مگر ہمیں لوکیشن کا اندازہ نہیں تھا لوگوں سے پوچھتے پوچھتے کچھ دیر بعد ہم مندر کے دروازے پر پہنچے! کیا سوچ کر آئ...
لند ن کا بدلتا موسم | مظہر اقبال مظہر

لند ن کا بدلتا موسم | مظہر اقبال مظہر

آرٹیکل
برطانوی سماج میں پیشین گوئیوں کا چرچا رہتا ہے۔عوام کی صحت کی حفاظت پر مامور ایک ادارے نے سنہ 2060 تک لندن جیسے بھرے پُرے رونق والے شہر پر موسمیاتی تبدیلی کے سنگین مضمرات کی پیشین گوئی کرتے ہوئے عوام کو خبردار کیا ہے۔ اس پیشین گوئی کا لب لباب یہ ہے کہ بدلتی ہوئی آب و ہوا کا مملکت کی صحت پر اثر نہ بھی ہو عوام الناس کی صحت پریہ اثر ضرور پڑے گا۔ گویا یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ عنقریب خوشحال ملکوں میں بھی آب و ہوا کی خرابیوں کا تماشہ عروج پر ہوگا۔ اور یہاں کا سماجی ماحول جو موسم کے دلفریب مزاج سے جان پکڑتا ہے اسے بھی نظر لگ سکتی ہے۔ کون جانے کل یہاں بھی کرسمس کا تہوار چلچلاتی دھوپ کی نظر ہوجائے اور سانتا کلاز نیکر اور بنیان پہنے آپ کے لان میں قلفیوں کی ریڑھی کے ساتھ ہاتھ کا پنکھا جھلات ہوا نظر آجائے۔ مذکورہ بالا رپورٹ میں لکھا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں لندن کے باسیوں کی صحت پر...
پریس فار پیس  کے زیرا ہتمام پوسٹر اور آرٹ ورک کا مقابلہ 

پریس فار پیس  کے زیرا ہتمام پوسٹر اور آرٹ ورک کا مقابلہ 

آرٹیکل
لندن (خصوصی رپورٹ) عالمی اشاعتی ادارے  پریس فار پیس پبلی کیشنز   کے زیراہتمام   آرٹ اور پوسٹر سازی کا مقابلہ  منعقد کیا جا رہا ہے جس کا مقصد    آرٹسٹوں اور تخلیق کارو ں کو اپنے فن  اور صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔  اس مقابلے میں دنیا بھر کے آرٹسٹ  اپنے فن پارے، پوسٹر اور دیگر آرٹ ورک  پیش کر سکتے ہیں۔ کتب بینی کی اہمیت ، مطالعے کا شو ق کو بھی پوسٹر اور آرٹ ورک  میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس مقابلے کی انچارج    پریس فار پیس کی مدیرہ قرات العین عینی ہیں۔ پوسٹر اور  آرٹ ورک میں  ادارے کی  شائع کردہ انگریزی اور اردو کتب  کے اقتباسات، اقوال  اور منتخب شاعری بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ رکرنے والوں کا انعامات اور اسناد دیے جائیں گے۔  آرٹ مقابلے م...
کالم نگار اور رائٹر   جناب شیخ ریاض کی  خود نوشت  “ ریاض نامہ : یاد وں کےچراغ ” کی تقریب اجرا

کالم نگار اور رائٹر   جناب شیخ ریاض کی  خود نوشت  “ ریاض نامہ : یاد وں کےچراغ ” کی تقریب اجرا

آرٹیکل
برلن میں مقیم پاکستانی نژاد کالم نگارجناب شیخ ریاض کی  سوانح حیات “ ریاض نامہ : یاد وں کےچراغ “ کی تقریب  رانڈنبرگ کے  دارالحکومت پوٹسڈام میں منعقد ہوئی ۔  تقریب کے انعقاد پوٹسڈام  میں واقع کشمیر ہاؤس  ریستوران میں کیا گیا۔ تقریب کا آغاز ناصر بٹ کی تلاوت سے ہوا- نادیہ ریاض نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا ۔ تقریب کی نظامت کے فرائض سرور ظہیر غزالی  نے انجام دیے ، تقریب کی  خاص مہمان روحانی سکالر، شاعرہ اور ادیبہ طاہرہ رباب  (ہیمبرگ ، جرمنی) تھیں۔ انھوں نے مصنف   کی مشرقی تہذیب ، اردو زبان اور ادب سے دیرینہ تعلق  ...
سموگ بن گئ    جان کا روگ/ تحریر و تصاویر: نازیہ آصف

سموگ بن گئ    جان کا روگ/ تحریر و تصاویر: نازیہ آصف

آرٹیکل
نازیہ آصف      سموک یعنی دھواں اور فوگ کا مطلب دھند    فوگ اور سموک  کا مختصر اور جدید نام                   "سموگ" چند سال پہلے ہم صرف لفظ  "دھند " سے آشنا تھے ۔پھر ہماری ڈکشنری میں فوگ بھی آ گیا۔  دھند کا لفظ سنتے ہی چہرے پہ مسکراہٹ آ جاتی اور رومانوی جذبے بیدار ہونے لگتے ۔ ہم پیدل چلتے ، بائیسکل یا تانگے کی سواری کرتے۔ دور جانا ہوتا تو بس یا کسی ریلوے سٹیشن پہ ریل کی لمبی سی پراسرار سیٹی کا انتظار کرتے اور فصلوں کی کٹائی  کسان ہاتھ سے کرتے اور ان کی باقیات جانوروں کے چارے اور پناہ گاہیں بنانے کے کام آتیں۔ پھر ہم نے انھیں آگ لگا کر ضائع کرنا مفید جانا۔  ہم نے مزید ترقی کی  اور دشت نما سڑکوں پہ ٹریفک کا اژدھام لے آئے اور مزید یہ کہ ہم  آکسیجن کی جگہ بھٹوں اور...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact