Thursday, May 9
Shadow

آرٹیکل

کتاب : اک سفر جو تمام ہوا /تاثرات :مہوش اسد شیخ

کتاب : اک سفر جو تمام ہوا /تاثرات :مہوش اسد شیخ

آرٹیکل
تاثرات :مہوش اسد شیخپریس فار پیس نام ہے اعتماد کا۔ اس ادارے کی شائع کردہ کتب کی تو میں دیوانی ہوں، عمدہ کاغذ بہترین ڈیزائننگ، طباعت و اشاعت ۔ اس کے علاوہ ان کی شائع کردہ کتب کا مواد بھی معیاری ہوتا ہے۔ "اک سفر جو تمام ہوا" قانتہ رابعہ ایک معروف مصنفہ کی نئی کتاب ہے جو حالیہ ہی پبلش ہوئی ہے۔ قانتہ رابعہ صاحبہ کا نام ہر ماہ بیشتر رسائل و ڈائجسٹ میں دکھائی دیتا ہے، ماشا اللہ اب تک ان کی دو درجن کتب شایع ہو چکی ہیں۔ کئی کتب پر مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ بچپن میں بچوں سے اکثر پوچھا جاتا ہے آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے اگر آج کوئی مجھ سے یہ سوال کرے تو بے اختیار میرے منھ سے نکلے گا ،"قانتہ رابعہ بنوں گی"۔ میں بھی ان کے طرح تسلسل سے اور بہترین لکھنا چاہتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے وہ معاشرے کے ہر فرد کی نفسیات جانتی ہیں۔ سوچ پڑھنے کی ماہر ہیں۔ان کی تحاریر ایسی ہوتی ہیں جیسے ہمیں گھریلو واقعات سنائے جا رہے...
بارشوں کی شاعرہ/ مبصر:۔انتظار حسین ساقیؔ۔ 

بارشوں کی شاعرہ/ مبصر:۔انتظار حسین ساقیؔ۔ 

آرٹیکل
مبصر:۔    انتظار حسین ساقیؔ۔ کائنات کی ہر چیز میں محبت کا پہلو نمایاں ہے۔کائنات کی دلکشی اور  خوبصورتی  ، محبت، پیار ،عشق اور اعلی اخلاق سے عبارت ہے اپنی کسی بھیمحبت بھری بات کا اظہار کرنے کے لیے شاعری کا سہارا لینااس معاشرے میں سب سے زیادہ خوب صورت عمل ہے ۔عام سی گفتگو کو شاعری خاص بنا دیتی ہے اگر کسی بے وزن ، بے ڈھنگے جملے  کو غزل کے کسی شعر یا نظم کے بند میں تخلیق کر دیں تو وہ شاعری بن جاتا ہے ۔اور اپنے ارد گرد ہونے والے تمام حالات و واقعات ، احساسات ، محبتوں ، چاہتوں  ، عقیدتوں  ، حسرتوں  ، شرارتوں اور آرزؤں کو لفظوں کے پیرہن میں لپیٹ کر اپنے جزبات اور احساسات کی ترجمانی کرنا شاعری کہلاتا ہے ۔یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ایک اچھا شاعر ایک اچھا قلمکار اور ایک اچھا لکھاری اور ناول نویس لفظوں کی صورت  تحریر  کی صورت ، کبھی کسی غزل یا کسی گیت کی صورت ، کسی نظم  ، گیت یا کسی فلم کی صورت ہمیش...
افسانچہ: ذائقہ  / تحریر: ساجدہ امیر

افسانچہ: ذائقہ  / تحریر: ساجدہ امیر

آرٹیکل
تحریر: ساجدہ امیر” درد کی شدت ایسی ہوتی ہے کہ چیخا بھی نہیں جاتا، روم روم جھلس جاتا ہے، آنگ انگ ٹوٹنے لگتا ہے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے سب کچھ دھندلا سا دکھائی دینے لگتا ہے۔ پاؤں سے وجود بےجان ہونا شروع ہوتا ہے۔ لذت ایسی کہ روح کانپ جائے؛ بہت سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو فقط سامنے پڑے اس وجود کو ہی نظر آتی ہیں۔“” کیا اتنا تکلیف ہوتی ہے؟“ ائزل نے خوف سے پوچھا۔” درد کی شدت لفظوں سے بیان کرنا اور بات ہے لیکن جب وہ وقت آتا ہے تو اصل تکلیف کیا ہوتی ہے تب معلوم ہوتا ہے۔“ سامنے بیٹھی سیرت نے جواب دیا۔ ائزل کی روح ڈر کے مارے کانپ سی گئی۔” اس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے؟“ نم آنکھوں سے دیکھا۔” پتا نہیں، اس کا جواب وہی دے سکتا ہے جس نے اسے چکھا؛ لیکن جو چاہتا ہے وہ اس لائق رہتا ہی نہیں کہ بتا سکے کہ کیا ہوتا ہے۔“پورا کمرہ اندھیرے کی لپٹ میں تھا، لیکن روشنی کی کرن بس ایک طرف سے آ رہی تھی جہاں سے کھڑکی تھی ...
سموگ کے بحران کا پائیدار حل/پروفیسر سلیمان طاہر

سموگ کے بحران کا پائیدار حل/پروفیسر سلیمان طاہر

آرٹیکل
پروفیسر سلیمان طاہر | پاکستان کے سرسبز و شاداب کھیتوں پر مبنی منظرنامہ جو اپنی پیداواری صلاحیت کے لیے معروف اور مسرت و سرشاری کا باعث ہے، آج ایک زبردست چیلنج کا سامنا کر رہا ہے۔  زرعی فضلے کا تشویش ناک مسئلہ اور سموگ کے بڑھتے ہوئے بحران کا اہم سبب ہے۔ اس پیچیدہ مسئلے کی جڑیں روایتی کاشتکاری کے طریقوں، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور فضلہ کی تلافی کی مؤثر حکمت عملیوں کے فقدان سے جڑی ہوئی ہیں۔ چونکہ پاکستان کو زرعی فضلے کو جلانے سے سموگ کے بحران کا سامنا ہے، اس لیے ایسے پائیدار حل کی فوری ضرورت ہے، جو آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں درپیش چیلنج کا سامنا کرسکے۔ پاکستان میں کسان محدود متبادل ذرائع کی وجہ سے روایتی طریقوں کو اپنانے پر مجبور ہیں اور اکثر پائیدار طریقوں کے بارے میں فہم نہیں رکھتے۔ نتیجتاً زرعی فضلہ تلف کرنے کے لیے جلانے کے پرانے طریقہ کا سہارا لیتے ہیں۔ گنے،...
مہرماہ /تحریر : ساجدہ امیر

مہرماہ /تحریر : ساجدہ امیر

آرٹیکل, افسانے
تحریر : ساجدہ امیر وہ عام لڑکی نہیں ہے، وہ محبت کی چاشنی ہے۔ اس سے باتیں کرو تو دل نہیں بھرتا تھا؛ اس کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اس کا لمس اندھے کو جینا سیکھا دے، اس کی آنکھیں اس سیارے کی نہیں لگتی وہ چاند کی اٹھائیس منازل میں سے ایک منزل کی ملکہ ہے لیکن کس کی۔۔۔؟ معلوم نہیں ہے۔ وہ مریخ کے رہنے والوں کی طرح کم گو ہے، وہ مریخ کی سردی کی طرح سرد بھی ہے۔ لیکن وہ بن بولے بہت کچھ بول جاتی ہے۔ اس کی ہنسی آبِ حیات ہے جو یمن کے شہر میں دریا کے وسط میں رکھی ایک شیشے کی بوتل میں قید ہے اور کیا تم جانتے ہو؟ آبِ حیات تک ہر انسان نہیں پہنچ سکتا؛ مجھ جیسا گداگر اس تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ ”وہ میری پہنچ سے دور ہے لیکن پھر بھی اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں، ایک کینوس پر بکھیرے رنگوں کی طرح جو سفید کپڑے کو رنگین کر دے، ہاتھ میں بندھے اس دھاگے کی طرح جو لوگ اس لیے باندھتے ہیں کہ ان کی منت پوری ہو جائے،...
راولاکوٹ میں صفائی مہم      تحریر: نقی اشرف

راولاکوٹ میں صفائی مہم      تحریر: نقی اشرف

آرٹیکل
تحریر: نقی اشرف تبلیغی جماعت کے بارے میں میرا تاثر  ہمیشہ سے یہ رہا کہ یہ ترکِ دنیا یا با الفاظِ دیگر رہبانیت کا درس دینے والے لوگ ہیں مگر جب کبھی میں قمر رحیم جیسے لوگوں کو دیکھتا ہوں، اُن کی سرگرمیاں ملاحظہ کرتا ہوں تو کچھ دیر کے لیے سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کیا میں اپنے تاثر کو کلی طور پر درست کہنے میں حق بجانب ہوں یا یہ جُزوی طور پر ہی درست ہے؟  قمر رحیم کو کیڑا ہے، ٹِک کر بیٹھنے والے نہیں ہیں۔ صورتِ حال جیسی بھی ہو، دل برداشتہ ہونے والے نہیں ہیں، ہاں کبھی قلم برداشتہ نظر آتے ہیں اور کبھی میدانِ عمل میں جادہ و پیماں۔ جن کاموں پر یہ نکلے ہوتے ہیں اُن میں خال خال ہی کسی کا  ساتھ میسر ہوتا ہے مگر ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انھیں افراز خان جیسا یارِ غار ہم پیالہ و نوالا ہے۔ یہ گزشتہ سال ہی کی بات ہے میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا کہ یہ دونوں راولاکوٹ کے سیاحتی مقام گورو دوارہ سے...

سکول اور کیریئر کونسلنگ/تحریر : جمیل احمد

آرٹیکل
تحریر : جمیل احمدمیں دسویں جماعت میں اُردو کا پیریڈ لے رہا تھا۔ طلباء کو مضمون لکھنے کا کہا گیا تھا۔ سب ہی طلباء نے اچھی کوشش کی تھی، البتہ ایک طالب علم کے مضمون پر نظر ٹھہر گئی۔ ہینڈ رائٹنگ تو اچھی تھی ہی، مضمون کی روانی اور مواد کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ مجھے تدریس کا شعبہ اختیار کیے زیادہ عرصہ تو نہیں ہوا تھا، البتہ اللّہ کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ ضرور کہتا ہوں کہ میں "بائی چوائس" استاد بنا۔ شاید اسی غیر محسوس اعتماد کی بنیاد پر میں نے طالب علم کو مشورہ دے ڈالا کہ آپ ایک جرنلسٹ بن سکتے ہو۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی کیا خوب ہے۔ شاگرد کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی۔ اس نے اچھے نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس زمانے میں اچھے نمبر لینے والے طلبہ کے دو ہی اولین چوائس ہوتے تھے، پری میڈیکل یا پری انجینئرنگ۔ والدین کی خواہش تھی کہ بیٹا ڈاکٹر بنے، لیکن بیٹے کی آنکھوں میں جرنلسٹ بننے کے خواب ...
ناول ’’دھندلے عکس‘‘ میں تکنیک کے تجربے ڈاکٹر عرشیہ جبین

ناول ’’دھندلے عکس‘‘ میں تکنیک کے تجربے ڈاکٹر عرشیہ جبین

آرٹیکل
ڈاکٹر عرشیہ جبین                     ناول ’’دھندلے عکس‘‘ کرن عباس کرن کا ناول ہے۔کرن عباس کرن اردو کی نو وارد ادیبہ ہیں۔ان کا تعلق آزاد کشمیر،سے ہے۔ان کی ولادت آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں ۳؍اکتوبر ۱۹۹۵ء کوہوئی۔۲۰۱۸ء میں آزادجموں و کشمیر یونیورسٹی سے انگریزی میں بی ایس کرنے کے بعد انھوں نے حال ہی میں ایم فل کی ڈگری مکمل کی ہے۔ان کے ادبی سفر کا آغازابتدائی طالب علمی کے زمانے ہی سے ہوگیا تھا۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ۲۰۱۸ء میں ’’گونگے خیالات کا ماتم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ان کا پہلا ناول ’’دھندلے عکس‘‘ انھوں نے ۲۰۲۰ء میں تحریر کیا لیکن یہ ۲۰۲۱ء میں پاکستان کے مایہ ناز اخبار ’’جنگ‘‘  کے سنڈے ایڈیشن میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔اس کے علاوہ ان کے دو اور ناول زیر تحریر ہیں ۔انھوں نے...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact