Thursday, May 16
Shadow

Month: February 2021

وادیٔ گل پوش مقبوضہ کشمیر کا ایک نایاب سفر۔ ڈاکٹرظفرحسین ظفر

وادیٔ گل پوش مقبوضہ کشمیر کا ایک نایاب سفر۔ ڈاکٹرظفرحسین ظفر

آرٹیکل, فطرت
ڈاکٹرظفرحسین ظفر ایک  سیانے کا قول ہے،رواں، ہر دم جواں زندگی کے لیے سفر شرط ہے. اور یہ سفر مثل جنت کشمیر کا ہو تو ’’وسیلہ ظفر‘‘ بن جاتا ہے۔ خوابوں اور خیالوں میں تو یہ سفر گزری تین دہائیوں میں جاری رہا، اکتوبر ۲۰۰۹ء میں آخر انہیں تعبیر مل گئی۔ ۸ اکتوبر کی صبح صادق سے ۱۶؍ اکتوبر کی صبح کاذب تک یہ سفر مکمل ہوا۔ کہتے ہیں بہت دُور، برف پوش پہاڑوں کے پار، سطح سمندر سے ساڑھے پانچ ہزار فٹ بلندی پر کبھی ایک جھیل ہوا کرتی تھی۔ چوراسی میل لمبی اور پچیس میل چوڑی اس جھیل کا نام ’’ستی سر‘‘ تھا۔ اس کا منبع پیر پنجال اور دوسرے پہاڑوں سے پگھلتی ہوئی ٹھنڈی میٹھی، صاف شفاف برف تھی یا بہتے جھرنے اور ابلتے چشمے۔ پیاری سی اس جھیل پہ ایک دیو، جلودبھو قابض تھا۔ گہرے نیلگوں پانیوں کا یہ حکمران آدم خور تھا۔ نسل انسانی اس کے خوف سے جھیل کے قریب جانے سے خوف زدہ رہی۔ پھر کہیں سے ’’کشپ رشی‘‘ آیا۔ م...
اٹک خورد ریلوے اسٹیشن اور دریائے سندھ ۔ حسیب احمد محبوبی

اٹک خورد ریلوے اسٹیشن اور دریائے سندھ ۔ حسیب احمد محبوبی

آرٹیکل, خبریں, سیر وسیاحت
تحریر: حسیب احمد محبوبی چند ماہ پہلے انٹرنیٹ پر پاکستان کے خوب صورت ریلوے اسٹیشن تلاش کیے تو انہی میں ایک نام "اٹک خورد" کا بھی تھا۔ تصاویر دیکھیں تو دل چاہا کہ اس مقام پر جایا جائے اور فطرت کے حسیں نظاروں سے لطف لیا جائے۔ آج صبح پکّا ارادہ کر کے راولپنڈی ریلوے اسٹیشن سے صبح سات بجے چلنے والی "تھل ایکسپریس" پر سوار ہوا اور تقریباً دو گھنٹے کے بعد نو بجے اٹک شہر پہنچ گیا۔ یہاں اتر کے دیکھا تو یہ بالکل مختلف جگہ تھی۔ اُن حسیں نظاروں میں سے تو یہاں ایک بھی نہیں تھا جو میں نے انٹرنیٹ پر موجود تصاویر میں دیکھے تھے۔ وہاں کے عملے سے معلومات لیں تو پتا چلا کہ یہ اٹک شہر ہے اور "اٹک خورد" یہاں سے تقریباً پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سیانے کہتے ہیں منہ میں زبان اور ٹانگوں میں جان ہو تو کہیں بھی پہنچنا مشکل نہیں۔ لہذا میں بھی زبان کا سہارا لے کر رستہ پوچھتا گیا اور ٹانگوں...
Mirpur: a city under water

Mirpur: a city under water

Opinion
Amnah Shaukat Nothing is ever really lost to us as long as we remember it. (L.M. Montgomery) It’s the month of January. The water level in Mangla Dam has lowered greaty in the past two months. As the water level falls, the remnants of an old city become more visible. What happened to that city, I wondered. Why doesn’t it exist anymore? The places of the city, its streets and its buildings: where are they? Why was it demolished? I wanted to know the history of Mangla and the city submerged in it. On inquiring from my father I came to know that the dam is actually named after Mangla Devi, the daughter of King Porus. The Mangla Dam was constructed on top of settlements. The old city was evacuated, its residents were moved to another place now called “New Mirpur City” and then ...
The Kashmir question in the UN

The Kashmir question in the UN

Opinion
/Madiha Shakil Khan/ India took the matter of Jammu and Kashmir to the Security Council on 1st January 1948 and lodged a formal complaint against Pakistan. In reply, Pakistan lodged a counter-complaint against India on 15th January 1948 and had also requested the Security Council to deal with other disputes between India and Pakistan, including Junagadh. As a result, a Security Council meeting was held on 16th January, 1948 with the agenda “Jammu and Kashmir Question” in which the Kashmir issue was discussed. Again, on 20th January, 1948 Zafarullah Khan wrote a letter to the President of the Security Council to call another meeting as earlier as possible to discuss all issues between India and Pakistan, other than Jammu and Kashmir. The next meeting of the Security Coun...
غزل

غزل

شاعری, غزل
ڈاکٹر محبوب کاشمیری میرے دشمن مجھے کاندھوں پہ اٹھانے آئے میرے دشمن مجھے کاندھوں پہ اٹھانے آئے دوست احباب تو بس رسم نبھانے آئے ایک ہی لمحہ غافل تھا میسر مجھ کو یاد اس لمحے میں کیا کیا نہ زمانے آئے گھر سے نکلا تھا تو کیا کیا مجھے خوش فہمی تھی دربدر ہو کے میرے ہوش ٹھکانے آئے میں کہ ویران ہوا جاتا ہوں اندر اندر “ قریہ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے “ میرا دشمن تو میرے اپنے ہی اندر ہے کہیں کون مجھ کو میرے ہاتھوں سے بچانے آئے جانے کس خواب نے کر رکھا ہے پتھر محبوب کوئی محشر مجھے نیندوں سے جگانے آئے ...
یوم یکجہتی کشمیر کی کہانی

یوم یکجہتی کشمیر کی کہانی

آرٹیکل
سید ابرار گردیزی ۱۹۸۷ء کی بات ہے ،خونی لکیر کے اس پارمقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہدآزادی کی راہ ہموار ہورہی تھی، کشمیری جان گئے تھے کہ پر امن جدوجہد کے ذریعے بھارت سے آزادی پاناممکن نہیں،اس کے لیے مسلح جدوجہد ناگزیر ہے۔ بیس کیمپ اس سلسلے میں ہمیشہ کی طرح یکسر بے حس تھا، یہاں کے آقاؤں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جنھیں روزانہ صبح و شام آزاد کشمیر ریڈیو مظفرآباد ’’تم بھی اٹھو اہل وادی ‘ ‘کی صدائیں دیتا ہے، وہ نہ صرف اٹھ چکے ہیں بلکہ پوری طرح بیدار ہو چکے ہیں۔ تب قاضی حسین احمد جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت سنبھال چکے تھے ۔  ۱۹۸۹ء میں جہاد کا غلغلہ بلند ہوا اورجنت ارضی پر کئی دہائیوں سے دبی آزادی کی چنگاری شعلہ جوالہ بنی تو ہزاروں مجاہدین و مہاجرین قافلہ در قافلہ فلک بوس برفانی چوٹیاں عبور کر کے تحریک آزائ کشمیر کے بیس کیمپ آزاد کشمیرآنا شروع ہوئے تو مظفر آباد و اسلام آباد کے ایوان...
پرویز عابدی کی وال سے

پرویز عابدی کی وال سے

شاعری
کِسی درد مند کے کام آ کِسی ڈوُبتے کو اُچھال دے یہ نِگاہِ مست کی مستِیاں کسی بدنصیب پے ڈال دے مُجھے مسجِدوں کی خبر نہیں مُجھے مندِروں کا پتہ نہیں میری عاجزِی کو قبُول کر مُجھے اور درد و ملال دے مُجھے زِندگی کی طلَب نہیں مُجھے سَوٴ برس کی حوَس نہیں میرے کالکوں کو مہُو کر وہ فنا جو ہے لازوال دے یہ مئے کشی کا غروُر ہے یہ میرے دِل کا سُرور ہے میرےمئےکدے کو دُوام دے میرے ساقِیوں کوجمال دے میں تیرے وِصال کا کیا کرُوں میری وَحشتوں کی یہ موٴت ہے ہو تیراجُنوں مجھے پھ._ عطا مجھےجَنتوں سے نِکال دے   ...

تہذیب آیا لیکن تہذیب نہیں آئی

تبصرے
حکومت آزاد کشمیر کے ادارے  کشمیر اکیڈمی کے ادبی مجلے “ تہذیب “ کے بارے میں  بے باک تبصرہ  تبصرہ نگار بشیر مراد   کوئی بھی نام ہو بہت سوچ سمجھ کے رکھنا چاہےاگر بنا سوچےرکھ  ہی لیا جائے تو پھر لاج  بھی رکھنی چاہے فرض کیجیے کے کسی لاغربندے کانام رستم خان ہے تو اس پر سہراب خان نامی بندے کو ڈھونڈڈھانڈ کر پچھاڑنا فرض ہو جاتاہے۔ یہ الگ بات کہ فی زمانہ فرض ادا نہ کرنا بھی ہر  عاقل و بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ بات خواہ  مخواہ دھینگا مشتی کی جانب چل پڑی ہے پس ہم پر بھی فرض ہےکہ آمدم بر سر مطلب کا چلن اختیار کریں۔ ابھی آج ہی کلچرل اکیڈیمی کا رسالہ "تہذیب "بصورت ہدیہ شریف بذریعہ ڈاک شریف موصول ہوا۔پڑھ کر دکھ ہوا کہ ایک کلچرل ادارے کوابھی تک تہذیب  شریف نہیں آئی ۔ یوں تو تہذیب نامی یہ عمر رسیدہ جریدہ برس ہا برس سے  اسی بد تہذیبی اور بے ترتیبی  سے شائع ہونے کی سعادت حاصل کر رہاہے لیکن اس ش...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact