ڈاکٹر محبوب کاشمیری
میرے دشمن مجھے کاندھوں پہ اٹھانے آئے
دوست احباب تو بس رسم نبھانے آئے
ایک ہی لمحہ غافل تھا میسر مجھ کو
یاد اس لمحے میں کیا کیا نہ زمانے آئے
گھر سے نکلا تھا تو کیا کیا مجھے خوش فہمی تھی
دربدر ہو کے میرے ہوش ٹھکانے آئے
میں کہ ویران ہوا جاتا ہوں اندر اندر
“ قریہ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے “
میرا دشمن تو میرے اپنے ہی اندر ہے کہیں
کون مجھ کو میرے ہاتھوں سے بچانے آئے
جانے کس خواب نے کر رکھا ہے پتھر محبوب
کوئی محشر مجھے نیندوں سے جگانے آئے