Friday, May 3
Shadow

اردو

ثاقب ندیم کی کتاب نروان گھڑی کا سپنا پر پروفیسر محمد اکبر خان کا تبصرہ

تبصرے
کتاب : نروان گھڑی کا سپنا مصنف : ثاقب ندیم تبصرہ نگار: پروفیسر محمد اکبر خان ثاقب ندیم ایک مستقلاً محوعمل شخصیت ہیں وہ ان کا قلم ان کی ہنگام جولانی کا چشم دید گواہ ہے. وہ اردو نظم اور غزل کے نمائندہ شاعر کے طور پر معروف ہیں. ان کی کتاب *نروان گھڑی کا سپنا*نظم نگاری کا منفرد نمونہ ہے جس میں کئی بے چین کرنے والی نظمیں ہیں، اور کئی چونکادینے کی پوری خصوصیات سے لبریز ہیں. وہ اس مجموعہ نظم کے دیباچے میں اپنی بات کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ "میں نے ایک سگ آوراہ سے محبت سیکھی جو روزانہ شام جو میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا. بچپن میں جب مجھے کوئی نہیں جانتا تھا وہ مجھے پہچانتا تھا پھر لفظ نے مجھے نام دیا تو میں نے لفظ کو برتنا سیکھا میں نے لفظ کو جیسا اور جتنا برتا اس کا کچھ حصہ آج کتاب کی شکل میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں " ثاقب ندیم کی نظمیں دھڑکنوں کی صدا ہیں جن کے الفاظ میں جذبات و احساسا...
کتاب: ٹام سائر کے کارنامے خلاصہ: عرفان حیدر

کتاب: ٹام سائر کے کارنامے خلاصہ: عرفان حیدر

تبصرے
مصنف: مارک ٹوین خلاصہ: عرفان حیدر ٹام سائر کے کارنامے مارک ٹوین کا ایک شاہکار ناول ہے جس نے مصنف کو پوری دنیا میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا تھا۔ ٹام سائر کو امریکا کا سب سے بڑا بڑا مزاح نگار بھی مانا جاتا تھا۔ ٹام سائر کے کارنامے ناول نہ صرف پڑھنے والوں کو تفریح فراہم کرتا ہے بلکہ ناول میں بڑی مہارت سے معاشرے کے منفی پہلوﺅں پر طنز کیا گیا ہے۔ کہانی شروع ہوتی ٹام نامی لڑکے سے جس کا نام تھامس سائر عرف ٹام ہوتا ہے۔ وہ اپنے سوتیلے بھائی سڈ کے ساتھ اپنی خالہ پولی گے گھر رہ رہا ہوتا ہے۔ ٹام ایک نمبر کا شرارتی اور کام چور لڑکا تھا۔ ہر وقت نئی نئی شرارتیں کرتا تھا اور اپنی خالہ کو بھی بہت تنگ کرتا تھا۔ سڈ اس کی شکایتیں لگا کر اسے خالہ پولی سے سزا دلوتا تھا۔ جبکہ ٹام بھی اس سے اپنا انتقام لازمی لیتا تھا۔ ایک دن خالہ پولی نے اسے سکول سے بھاگ جانے کی سزا دی اور اس سے باغیچے کی باڑ میں لگے تختوں ک...
گاؤں کی رات- تابندہ شاہد

گاؤں کی رات- تابندہ شاہد

افسانے
تابندہ شاہد وہ پہلی مرتبہ گاؤں جا رہی تھی۔ اُس کی بیٹی کی سرکاری تعیناتی گاؤں میں نئے کُھلے خواتین کالج میں ہوئی تھی۔ کالج کے احاطے میں ایک چھوٹا سا گھر بھی مل گیا اور وہ اپنے پانچ سالہ بیٹے کے ساتھ وہاں منتقل ہو گئی۔ دو ماہ ہو چکے تھے۔ ابا، بہن، بھائی،  خالہ وغیرہ نے دو تین مرتبہ گاؤں کا ایک روزہ چکر لگایا مگر اُسے موقع نہ ملا۔ آج بغیر کسی منصوبہ بندی کے اُسے ۔۔۔۔۔ بیٹی کے ساتھ جانا پڑ گیا۔ بیٹی ہمیشہ عوامی بس میں سفر کرتی تھی۔ گھر کے بقیہ افراد ذاتی گاڑیوں میں جاتے رہے تھے لیکن اِسے بیٹی کے ساتھ عوامی بس میں جانا پڑا۔ بسیں پچھلی صدی کی یادگار تھیں۔ تنگ تنگ نشستیں اور کھٹارا ڈھانچہ ۔۔۔۔۔ انجن کی آواز سے مردے جاگ جائیں اور پریشر ہارن کی آواز سے مردے دوڑ لگا دیں ۔۔۔۔۔۔ سفر شروع ہوا۔ آدھا گھنٹہ موٹروے پر قدرے بہتر رہا پھر بس موٹروے سے اُتر کر ضلع کی حدود میں داخل ہو گئی۔ اصل سفر ( انگری...
خواب اور خالی سیٹ ۔تحریر اقرارالحسن تبسم

خواب اور خالی سیٹ ۔تحریر اقرارالحسن تبسم

افسانے
تحریر اقرارالحسن تبسم بس کھچا کھچ بھری تھی۔کونے میں صرف ایک سیٹ خالی تھی۔ میری نظر اس سیٹ پر اٹک گئی۔حیران تھا کہ کیسے لوگوں سے رہ گئی لوگوں سے ان دیکھی وہ جگہ۔لگتا ہے قدرت آج مہربان ہے ورنہ اس وقت بس میں جگہ ملنا یعنی لاٹری لگنا ۔ شام پانچ سے سات تک تو جیسے پورا شہر سٹک پر سوتا ہے یا بس میں یاترا کر رہا ہوتا ہے۔تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں۔ایک دوسرے کے پاوں کچلتے لوگ،پسینے سے بھیگے ماتھے اور تھک کر پست ہوئے چہرے والے لوگ سوچ کر ہی مجھے کھیچ آنے لگتی ہے۔یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ کاش!کہ اسکوٹر ہوتی تو یہ روز روز کی لڑائی نہیں کرنی پڑتی۔ کیا قسمت ہے ایک ماسٹر کی۔ہر سال نجانے کتنے بچوں کی قسمت چمکاتا ہوں خود وہیں کا وہیں سارے سپنے وہیں کے وہیں۔میں لوگوں سے ٹکراتا،کندھے سکوڑتا،پاوں پھلانگتا بچتا بچاتا وہاں تک پہنچ گیا اس خالی سیٹ تک۔بیٹھے ہی لگا کہ اس کے خالی ہونے کی وجہ نظر آ گئی۔سیٹ کا ریگزین پ...
اندھی اڑان، سمیہ شاہد

اندھی اڑان، سمیہ شاہد

افسانے
سمیہ شاہد کٹے ہوئے پروں کے ساتھ اڑنے میں اسے بہت دقت پیش آ رہی تھی۔ وہ اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ "اچھا بھلا میں رہ رہا تھا ان۔سب کے ساتھ !! " وہ بے ساختہ بول اٹھا۔ لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ۔اس کے پر کٹ چکے تھے۔    °°°°°°°°°° دو دن پہلے اس کی اپنے ماں باپ کے ساتھ منہ ماری ہو گئی۔ جس کے بعد اس نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ جس کے بہلاوے میں آ کر وہ اپنا آ شیانہ چھوڑ ریا ہے وہی اس کی طاقت، اس کا غرور توڑنے کا سبب بننے والا ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر ، انمول اور بے قیمت رشتے کو چھوڑ کر صرف اور صرف حرص و ہوس کے پجاریوں میں پہنچ گیا۔ اور انہوں نے اسے پکڑ کر اس کے پر کاٹ ڈالے۔ وہ ہکا بکا ، اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھتا رہا ، اس قدر سکتے میں کہ اسے کسی قسم کی تکلیف کا احساس بھی نہ ہو سکا۔ جب انہوں نے اچھی طرح اس کے پر کاٹ ڈالے ...
برقعہ پوش۔ ارحاء مدثر

برقعہ پوش۔ ارحاء مدثر

افسانے
ارحاء مدثر سہ پہر کا وقت تھا۔ سورج نے دلہن کی طرح گہرا سُرخ جوڑا پہنےہوئے تھا۔  آسمان بھی سورج کے  گہرے سُرخ رنگ کے عروسی جوڑے میں اپنا منہ قدرے شرماہٹ سے چھپائے بیٹھا ایک دن کی دلہن کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کالج میں افراتفری کا سما تھا ۔ بی ایڈ کا امتحان شروع تھا ۔سب طلبہ حال میں بیٹھے پرچہ لکھنے میں مصروف تھے، اور باہر اس کے ساتھ آئے ہوئے مہمان ہاتھ میں تسبیح لیے دعاگو تھے۔ انیقہ بھی ان میں سے ایک تھی ،جو اپنی بہن کی ہمراہ آئی تھی۔  جاڑے کا موسم تھا۔  کالج کے لان میں سب ادھر ادھر تاش کے پتوں کی طرح بکھرے بیٹھے تھے۔ انیقہ بھی تاش کے ان پتوں میں سے ایک تھی جو غلطی سے ہاتھ سے پھسل کر کہی دور  لان میں سب سے الگ ہیڈ فون کانوں میں لگائے ،اپنے چہرے کو ہاتھوں کا سہارا دئیے بیٹھی، آسمان کو عروسی لباس میں منہ چھپائے ہوئے شرماتے لجھاتے ہوئے مزے سے دیکھ  کر مسرور ہو رہی تھی۔ ۔  وہ اردو ادب سے تعلق ر...
کھاری پانی، تحریر: دانیال حسن چغتائی

کھاری پانی، تحریر: دانیال حسن چغتائی

افسانے
دانیال حسن چغتائی پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے ۔ بڑا بھائی تو امیر تھا لیکن چھوٹا بھائی کنگال تھا ۔ ایک دفعہ نئے سال کے دن جب کہ سارا شہر جشن کی تیاری کر رہا تھا ۔ اس چھوٹے بھائی کے گھر کھانے کو چاول نہ تھے ۔ وہ اپنے بڑے بھائی سے ایک سیر چاول ادھار مانگنے کے لئے گیا لیکن اس نے اسے ٹکا سا جواب دے دیا۔ جب وہ نا امید ہوکر واپس آ رہا تھا تو اسے راستے میں لکڑی کا بھاری گٹھا اُٹھائے ہوئے ایک بوڑھا ملا ۔ بوڑھے نے اس سے پوچھا: ” تم کہاں جا رہے ہو؟ معلوم ہوتا ہے تم کسی مصیبت میں پڑے ہوئے ہو؟ چھوٹے بھائی نے اسے اپنی مصیبت کی ساری کہانی سنا دی۔ بوڑھے نے اسے حوصلہ دلاتے ہوئے کہا. اگرتم لکڑی کے اس گٹھے کو میرے گھر تک پہنچا دوتو میں تمہیں ایک ایسی چیز دوں گا جس کی مدد سے تم مالا مال ہو جاؤ گے ۔ چھوٹا بھائی بہت رحم دل تھا۔ اس نے لکڑی کا گٹھا سر پر رکھ لیا اور بوڑھے کے پیچھ...
کاغذ کے پھول تحریر: مرحا شہباز

کاغذ کے پھول تحریر: مرحا شہباز

افسانے
تحریر: مرحا شہباز ”ارے سرخ آنکھیں لیے ہر صبح کہاں سے آ جاتی ہو؟“ سوالات کی بوچھاڑ لیے ایک نٸ صبح فاریہ کی منتظر تھی۔ پل پل تنہا ئی میں سِسَکنا اور تخیل میں ایک ہی چہرہ بناتے رہنا، زندگی کا حقیقی مقصد فاریہ سے دور کرتا جا رہا تھا۔ وہ خلا کو تکتے بولی: ”کھونے کا درد تم کہاں جانو۔ بس وہ جانیں جن پر زوال کا یہ دل شکن دور آتا ہے۔“ ”ہوش میں آٶ فاریہ کہ کھونے اور چلے جانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیوں اُس کے لیے دُکھیاری ہوٸی پڑی ہو جو خود گیا ہے۔“ سوچوں میں محو ذہن شعور کے مراحل طے کر رہا تھا سو وہ عالمِ سکوت کی باادب مسافرہ رہی۔ مگر کبھی کچھ بول بھی دیتی۔ ”نۓ لباس زیب تن کیوں نہیں کرتی؟“ نرمی سے پوچھا گیا۔ ”سب عزت کا پیرہن چاک کر دیتے ہیں، سو جی نہیں چاہتا۔“ کرچی کرچی وجود کے پیوند عیاں ہونے لگے۔ ”ہنسا کرو تاکہ درد میں افاقہ ہو۔“ اُسے سمجھایا گیا۔ ”ہنسنا درد بڑھاتا ہے۔ دل مزید مارتا ہ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact