Friday, May 17
Shadow

اردو

نصرت نسیم کی کتاب ” بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں”، تبصرہ نیئر سرحدی

نصرت نسیم کی کتاب ” بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں”، تبصرہ نیئر سرحدی

تبصرے
نیئر سرحدیاس کرہ اراض پر کون سا ایسا انسان ہو گا جس کے پاس اس کی عمر رفتہ سے جڑی کئی یادوں کی پٹاریاں نہیں ہوں گی مگر ان پٹاریوں کو کھولنا اس وقت مشکل ہو جاتا ہے جب ان پٹاریوں میں موجود کچھ تلخ یادیں سانپ سنپولوں کی طرح ڈسنے لگتی ہیں جبکہ کچھ یادیں ایسی بھی ہوتی ہیں جووقت کے دئیے زخموں پر مرہم کا کام دیتی ہیں ایسی ہی یادوں کی ایک پٹاری انہی دنوں ہمارے ہاتھ لگی ہے ' ہمدم دیرینہ ڈاکٹر نثار ترابی نے ہمارے ذوق مطالعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کوہاٹ کی ایک خاتون ذی وقار محترمہ نصرت نسیم جو کچھ عرصہ قبل گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین رسالپور سے ریٹائر ہوئی ہیں 'کی خود نوشت "بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں" ہماری نذر کی ' عنوان تصنیف دیکھ کر ہم نے سوچا کہ بیتے دن تو قصہ پارینہ ہو جایا کرتے ہیں' ماضی بعید یا پھر ماضی قریب کا حصہ کہلاتے ہیں اسلئے بیتے ہوئے کچھ یا زیادہ دنوں کیلئے "ایسے ہیں"کے بجائے ایسے تھے ل...
روبوٹس کی کہانیاں/ تبصرہ: قانتہ رابعہ

روبوٹس کی کہانیاں/ تبصرہ: قانتہ رابعہ

تبصرے
بسمہ تعالیٰ نام کتاب ۔۔روبوٹس کی کہانیاں مرتبہ ۔۔تسنیم جعفری تبصر ہ : قانتہ رابعہ  ناشر پریس فار پیس پبلیکیشنز میٹرک کے طلبہ کو   امتحان دینے کے لیے آرٹس گروپ اور سائنس گروپ میں تقسیم کر کے دونوں کو ایک  دوسرے کے لیے شجر ممنوعہ قرار دے دیا جاتا تھا اور آرٹس کے مضامین دلچسپی کے حامل جبکہ سائنسی مضامین کو خشک اور ثقیل سمجھا جاتا تھا چونکہ راقمہ نے بھی آرٹس میں گریجویشن کی ڈگری لی تو سائنسی مضامین سے دلچسپی محسوس نہ ہوئی ،یہی بنیادی غلط فہمی تھی جسے دور کرنے کے لیے اردو ادب میں محترمہ تسنیم جعفری کا بڑا نام ہے ان کی کہانیوں میں سائنس کی زبان اور اصطلاحات بہت حد تک  عوامی انداز میں بیان کی جاتی ہیں۔  “روبوٹس کی کہانیاں” ،کتاب سوشل میڈیا پر ،ادیب نگر گروپ میں انعامی مقابلے کے انعقاد کے نتیجے میں سامنے آئی ۔ آنے والی دنیا ٹیکنالوجی کی دنیا ہے اور صر...

تبصرہ کیسے کیا جاتا ہے؟؟تبصرہ نگاری کا فن سیکھیں انور غازی

آرٹیکل
انور غازی)”تبصرہ نگاری“ ایک دلچسپ فن ہے۔ تبصرے ملکوں پر بھی کیے جاتے ہیں اور نظاموں پر بھی۔ تبصرے شخصیات پر بھی کیے جاتے ہیں اور کتابوں پر بھی۔ تبصرے حالات پر بھی کیے جاتے ہیں اور موسموں پر بھی.... تبصرہ کائنات میں موجود ہر ہر چیز، ہر ہر کام اور ہر ہر شے پر ہوسکتا ہے۔یاد رکھیں کہ تبصرے کی بیسیوں اقسام ہیں اور تبصرہ کرنے کے کئی مختلف انداز ہیں۔ تبصرے کی کوئی بھی قسم ہو اور تبصرے کا کوئی بھی انداز ہو، لیکن ایک بات قدرِ مشترک ہے کہ تبصرہ نگار کا ذہین فطین، وسیع المطالعہ، گہری نظر، حاضر جواب، گرم سرد چشیدہ، ماہر، پڑھا لکھا، تیزطرار، قادر الکلام اور فی البدیہہ کہنے.... جیسی صفات کا حامل ہونا ضروری ہے۔مثال کے طور پر آپ کسی کی ناک پر تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو کم از کم آپ کو ناک کی قسمیں معلوم ہونا ضروری ہےں کہ ناک کتنے انداز کی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پکوڑا ناک، چپٹی ناک، ستواں ناک، ڈڈو ناک، اونچی...
بےحس معاشرہ /حمیراعلیم

بےحس معاشرہ /حمیراعلیم

تصویر کہانی
حمیراعلیمیہ تصویر صرف پاکستان کے ایک شہر کی نہیں بلکہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ جمہوری ملک میں بھی ایسے لوگ جا بجا نظر آتے ہیں۔جو نشے میں دھت اپنے آپ سے بے گانہ کسی اور ہی دنیا کے باسی ہیں۔اسے معاشرتی بے حسی کہیے، حکومتی نا اہلی یا ان نشئیوں کی بدقسمتی لیکن یہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا رخ ہے جس سے ہم نظریں چرا کر گزر جاتے ہیں۔  حالانکہ یہ سب بھی کسی خاندان کے جگر گوشہ ہیں۔جن کی پیدائش پر ان کے والدین نے خوشی منائی ہو گی جن کے آرام و سکون اور اچھی تعلیم و تربیت کے لیے اپنا آرام و سکون تج دیا ہو گا۔ اس سب کے دوران ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ کچھ خودغرض معاشرتی ناسوروں کی وجہ سے ان کا بچہ منشیات کی لت لگا بیٹھے گا اور کسی محکمے کے اعلی عہدے دار یا کامیاب بزنس مین کی بجائے اس نالے کے کنارے ہوش و حواس سے بے گانہ پڑا ہو گا۔     اولین ذمہ داری تو حکومت اور قانون نافذ ک...
کتاب :   ریاض نامہ تبصرہ : پروفیسر   محمد اکبر خان 

کتاب :   ریاض نامہ تبصرہ : پروفیسر   محمد اکبر خان 

تبصرے
کتاب :   ریاض نامہ: یادوں کے چراغ  مصنف:   شیخ ریاض  تبصرہ :پروفیسر   محمد اکبر خان  یوں تو ریاض نامہ شیخ ریاض کی اولین کتاب ہے مگر ان کے تحریری سفر کا آغاز کئی سال قبل ہو چکا تھا اور انھوں نے مختلف اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس پر نہایت معلوماتی اور اعلی مضامین لکھ کر اپنی تحریری صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا۔. ان کی یہ  کتاب ایک ایسی منفرد خودنوشت سوانح عمری ہے جس میں وہ اپنے ماضی کے اوراق تیزی سے پلٹے دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے  اس کتاب میں موئے قلم کی جنبش سے نہایت اعلی نقاشی کی ہے۔ ان کی تحریر میں سادگی روانی اور شفافیت ہے ان کی خودنوشت ہر قسم کی پیچیدگی اور الجھاؤ سے مبرا ہے۔ ان کی خودنوشت کا مطالعہ ان کی شخصی وضعداری، خوش مزاجی، سادگی، اور بردباری سے قارئین کو آشنا کرواتا ہے۔ان کی کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اس میں کسی قسم ک...
A New Magi’s Gift/Written by Anam Tahir

A New Magi’s Gift/Written by Anam Tahir

افسانے
انعم طاہر کل ایما اور علی کی شادی کو پورے چھ سال ہونے والے  تھے۔ ہر سال وہ اپنی شادی کی سالگرہ بہت دل سے مناتے تھے۔ انکے لیے یہ دن بہت خاص اہمیت رکھتا تھا۔ دونوں میں محبت بھی تو اتنی تھی۔ اس محبت کی شادی کے لیے دونوں نے بہت انتظار کیا تھا۔ اب دونوں ساتھ تھے تو خوشی منانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ خاص طور پر شادی کی سالگرہ انکے لیے کسی تہوار سے کم نہیں تھی __ نئے کپڑے ، سیر سپاٹا،  ایک دوسرے کی پسند کے تحفے۔  ایما کچن میں کام کرتے ہوئے مسلسل اپنی شادی کی سالگرہ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ گزرے دنوں کی اچھی یادیں بار بار اسے بےچین کررہی تھیں۔ اور  کل آنے والی ان کی شادی کی سالگرہ اسے اداس کررہی تھی۔ اب حالات پہلے جیسے کہاں تھے۔ کچھ ماہ پہلے ہی علی کی اچھی خاصی نوکری چھوٹ گئی تھی جہاں سے اسے بہت اچھی تنخوا ملا کرتی تھی۔ اس وقت تو وہ ایک معمولی سی تنخو...
ضیعف الا عتقادی یا صحیح الاعتقادی/ حفصہ محمد فیصل

ضیعف الا عتقادی یا صحیح الاعتقادی/ حفصہ محمد فیصل

تصویر کہانی
حفصہ محمد فیصل بطور لکھاری راستوں میں اس طرح کی وال چوکنگ دیکھ کر کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یہ بابے اور عامل وغیرہ کیسی پہنچی ہوئی چیز ہیں، ہم بھی جا کر اپنی قسمت ازمائی کر ہی لیں۔دیوار کوڑے کے ڈھیر کی ہو، کسی میدان کی  ہو یا کسی پارکنگ ایریا کی۔ ہر جگہ ہی ان کے کارناموں اور صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑھے بلکہ لکھے نظر آتے ہیں۔ ویسے اگر ہر تمنا  انہی سے پوری ہو سکتی ہے یعنی؛ محبوب قدموں میں بھی آسکتا ہے، روزی کا مسئلہ ہو یا بیوی بچوں کی پریشانی ہو ہر مسئلے کا حل بابا بنگالی اور عامل چوپالی سے ہی مل جاتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے، واقعی لوگ ان کے پاس جاتے ہیں؟ موبائل نمبر کے ساتھ رابطے کے سارے انتظامات بھی میسر ہوتے ہیں۔ ایسی ضعیف الاعتقادی والے لوگ پوری دنیا ہی میں پائے جاتے ہیں لیکن ہمارے دیس کی تو بات ہی نرالی ہے۔ یہاں تو ویسے بھی گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔ لوگ ایسی چیزوں کو بڑھاوا ...
“ان مکانوں میں عجیب لوگ رہا کرتے تھے”، تحریر : نادیہ انصاری  

“ان مکانوں میں عجیب لوگ رہا کرتے تھے”، تحریر : نادیہ انصاری  

تصویر کہانی
نادیہ انصاری ۔ کراچیآج برسوں بعد اُس علاقے سے گزر ہوا تو بےاختیار جی چاھا کہ اُس گلی میں قدم رکھا جائے جہاں بچپن بےفکری لیے گزرا۔ اُس گھر کے سامنے کچھ دیر کو ٹھہرا جائے کہ جس کے کھلے دروازے سے کبھی زندگی ٹپکا کرتی تھی ۔ وہ گھر کہ جس کی سیڑھیوں پر اچھل کود کرتے ، ٹرین بنائے کھانا کھاتے اور جس کے ٹیریس پر کھوکھو ، برف پانی کھیلتے بچپن نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا۔ آج زمانے بعد اُس گھر کے سامنے کھڑے ہوئے بے اختیار جی چاہا کہ اُن گزرے لمحات کو ایک بار پھر سے جیا جائے ۔ جی چاہا کہ بچپن پھر سے لوٹ آئے ۔ نگاہوں میں وہ مناظر ، سماعت میں وہ شور آج بھی زندہ تھا ۔ دل یک دم بے اختیار ہوا ایک بار تو اندر داخل ہو کر دیکھوں لیموں کا درخت اب بھی پھل دیتا ہے ۔ پیپل کے درخت پر جھولا پڑا  ہے ۔ اُس گھر میں ایک عہد بستا تھا لیکن وہ کہتے ہیں نا ہر منظر ایک سا نہیں رہتا ۔ وقت بدل جاتا ہے سو وہ گھر جو کبھی ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact