Sunday, May 19
Shadow

افسانے

افسانہ: تین دن محبت کے/ رابعہ  حسن

افسانہ: تین دن محبت کے/ رابعہ  حسن

افسانے
تحریر: رابعہ  حسنپت جھڑ کی ایک زرد سہ پہر جب چنار کے سرخ پتے ہوا کی خنکی سے ٹھٹھرتے زمیں بوس ہو رہے تھے ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی بلکہ یوں کہاں جائے  شناسائی ہوئی تھی۔۔۔بختاور اس شام جب گھر لوٹ رہی تھی تو تنہا نہیں تھی۔۔۔ایک احساس تھا جو چپکے چپکے اس کے ساتھ ہو لیا تھا۔ کتنا لطیف سا احساس تھا کہ جس نے اماں کی ڈانٹ ڈپٹ کو بھی میٹھا کر دیا تھا۔“ ارے آج اس لڑکی کو کیا ہو گیا ہے؟۔۔یہ وہی ہے یا کوٸی اور؟“ اماں نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ بے یقینی سے تو اس نے خود کو آئینے میں بھی دیکھا۔ کھلی کھلی رنگت۔۔۔صبح بھی تو اس نے آئینہ دیکھا تھا مگر تب تو یہ نکھار نہیں تھا۔۔۔پر صبح میں یہ احساس بھی تو نہیں تھا نا۔۔۔۔وہ زیر لب مسکرائی ۔اس شام ہر کام دھنک رنگ تھا۔۔۔کھانا بنانے سے لے کر برتنوں کی دھلاٸی تک۔۔۔۔کوٸز کی تیاری سے لے کر اسائمنٹ کی تکمیل تک۔۔کچھ بھی بوجھل نہیں تھا۔۔۔کچھ بھی بوجھ نہیں تھا...
دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا/ نورِ بدر 

دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا/ نورِ بدر 

افسانے
افسانہ نگار : نورِ بدر  ”آپ شادی کیوں نہیں کر لیتیں؟“ میرے اس سوال پر اس نے مجھے دیکھا۔ (ہمیشہ کی طرح چہرے پہ گہری مسکراہٹ لیے ہوئے)  اس کی آنکھوں میں نجانے کیا تھا جب بھی میری طرف اٹھتیں میرے اندر طلاطم سا برپا ہو جاتا۔ یوں لگتا جیسے وہ آنکھیں نہ ہوں جلتے ہوئے چراغ ہوں جنہیں کسی نے ہوا کے دوش پہ رکھ دیا ہو۔ میرے سوال پر وہ چراغ ٹمٹمانے لگے۔ جلتی بجھتی آنکھوں میں بلا کی تپش تھی یوں لگا میرا دل شعلوں کی زد میں ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے کبھی اس جیسی مضبوط عورت نہ دیکھی تھی۔ تیز آندھیوں کی زد میں بھی وہ چراغ کبھی بجھتے نہ دیکھے حتیٰ کہ ٹمٹماتی ہوئی لو بھی جلا دینے کو کافی تھی۔ نہ تو میں نے کبھی اس شمع کو پگھلتے دیکھا نہ ہی جلتی بجھتی آنکھوں سے آنسو نکلتے دیکھے۔ ”شادی کرنا ضروری ہے فراز؟“ اس نے سوال در سوال کیا۔ ”ضروری تو ہے۔“ مجھ سے یہی جواب بن پڑا۔ ”کس کے لیے؟...
جلتی رہی حیات ۔ از قلم : عصمت اسامہ

جلتی رہی حیات ۔ از قلم : عصمت اسامہ

افسانے
قلم : عصمت اسامہ۔ "نبیل ،نبیل ،سورج نکل آیا پر تو کمرے سے نہ نکلا !"اماں اسے جھنجھوڑتے ہوۓ جگا رہی تھی ۔اماں نے تین چار بار اس کا چہرہ بھی تھپتپھایا مگر وہ اتنی گہری نیند میں تھا کہ اسے یہ سب کچھ خواب محسوس ہورہا تھا۔کافی دیر بعد اس کی آنکھ کھلی تو وہ کھڑکی سے آتی روشنی دیکھ کر یکدم اٹھ کے بیٹھ گیا۔اسے فیکٹری جانا تھا۔ نبیل اپنے گھر کا واحد کفیل تھا ۔والد صاحب عرصہ ہوا ،وفات پا چکے تھے۔ وہ صبح کے وقت فیکٹری جاتا تھا اور شام کو ایک ریسٹورنٹ میں بطور ویٹر کام کرتا تھا ۔ایک بڑی بہن شادی شدہ تھی ،ایک سال چھوٹی بہن کا سست روی سے جہیز بنایا جارہا تھا اور سب سے چھوٹا بھائی دسویں جماعت کا طالب علم تھا ۔دن رات سخت محنت مشقت کرکے نبیل جب رات کو گھر پہنچتا تو آگے کوئی نہ کوئی مجبوری اس کی منتظر ہوتی ۔ آج بجلی کا اتنا بل آگیا ،آج مٹھو نے رجسٹر ختم ہونے کی وجہ سے ہوم ورک نہیں کیا تھا تو استاد نے...
افسانہ : رنگ لوٹ آئے/تحریر:عصمت اسامہ

افسانہ : رنگ لوٹ آئے/تحریر:عصمت اسامہ

افسانے
از قلم عصمت اسامہ ۔ "تیار ہوجاو، پندرہ منٹ تک آرہا ہوں"۔ فراز کی کال پہ وہ اٹھ تو گئ تھی ،اب بستر سے نکل کے وارڈروب دیکھنے لگی ۔آج فراز نے اسے باہر گھمانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے مشعل نے آخری ٹچ دیا اور پرس اٹھا کے کمرے سے باہر قدم بڑھادئیے۔ فراز آچکا تھا ۔ ان دونوں کی شادی کو پانچ برس ہوئےتھے ،آنگن میں کوئی پھول تو نہ کھلا مگر دونوں کی محبت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔گھر میں دونوں کے سوا اور کوئی موجود نہیں تھا،کچھ عرصہ قبل فراز کی والدہ جو فالج کی مریضہ تھیں ،ان کا انتقال ہوا تھا۔اگرچہ فراز اور مشعل نے ان کی بہت خدمت کی ،چوبیس گھنٹے ان کے سرہانے ڈیوٹی دیتے لیکن قدرت نے اتنی زندگی ہی لکھی تھی۔ مشعل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی ،اس لئے اب تنہائی سے اسے وحشت ہوتی۔ ذرا فراز آفس سے لیٹ ہوجاتا ،مشعل کال پہ کال کرنے لگتی۔ایک دن تو حد ہی ہوگئی ،مشعل ...
افسانہ : پردہ، تحریر: عصمت اسامہ

افسانہ : پردہ، تحریر: عصمت اسامہ

افسانے
تحریر: عصمت اسامہ " "مام ،آج آپ نے آنے میں دیر کردی ،میں کالج گیٹ پر پندرہ منٹ سے دھوپ میں کھڑی ہوں" صبا نے قدرے خفگی سے کہا . "اوہ بیٹا ،چھاؤں میں کھڑی ہوجاتی ،راستے میں ٹریفک جام تھا " مام نے جوس کارنر سے دو گلاس لیے اور گاڑی کا اے سی چلادیا ۔اب گاڑی فراٹےبھر رہی تھی۔ صبا نے سیٹ سے سر ٹکایا اور آنکھیں بند کرلیں۔مام بہت سموتھ ڈرائیو کررہی تھیں کہ یکایک بریک لگادی ۔ صبا نے سٹپٹا کے آنکھیں کھولیں۔ مام نے ونڈو مرر نیچے کر کے کسی کو آواز لگائی: نوری ! نوری !،پھر تیزی سے گاڑی سروس روڈ پہ ڈال دی۔ " نوری کون ہے مام ؟"صبا نے پوچھا ۔ مام تیزی سے دائیں بائیں سڑکوں پہ گاڑی گھما رہی تھیں لیکن جس کی تلاش تھی وہ نہ ملی۔اب وہ پھر اسی روڈ پر آگئیں جو گھر کو جاتی تھی۔" مام بتائیں بھی کہ نوری کون ہے جسے آپ کئ بار سڑکوں پر آواز دیتی ہیں لیکن وہ نہیں ملتی" ،صبا نے پوچھا۔ "نوری ،میرے آفس میں کام ...
علامتی افسانہ : سرد شام/ حافظ ذیشان یاسین

علامتی افسانہ : سرد شام/ حافظ ذیشان یاسین

افسانے
حافظ ذیشان یاسین یہ جنوری کی ایک سرد شام تھی فضا میں خنکی اور اداسی بڑھتی جا رہی تھی۔ میں تنہائی اور اداسی کی چادر اوڑھے درختوں کے  پاس خاموش کھڑا تھا اور شام ڈھلتے ہی بچھرنے والا تھا۔ سردیوں کی شام بھی عجیب ہوتی ہے کسی اداس فاختہ کی طرح خاموشی سے آتی ہے وجود کو منجمد اور روح کو مضطرب کر دیتی ہے دل کے نہاں خانوں میں کچھ نقوش رفتگاں ابھرنے لگتے ہیں۔ سرما کی خنک شامیں وصل کی بجائے فصل سے عبارت ہیں سرد شام ہجر و فراق کا استعارہ ہے یہ فرقت اور جدائی کی تمثیل ہے۔ سرد شام ایک ایسی غزل ہے جس کا مطلع اداسی اور مقطع تنہائی ہے جبکہ درمیان کے سارے مصرعے ہجر و فراق پر مشتمل ہیں۔  سرما کی شام ایک ایسی داستان ہے جس کی ابتدا افسردگی اور اختتام بے قراری ہے اور درمیان کی ساری کہانی تنہائی اور جدائی پر مبنی ہے۔ شام ایک ایسی مسافت ہے جس کا آغاز رنجیدگی اور منزل سوگواری ہے اور درمیان کا سا...
افسانہ   = خاموشی/ بشریٰ حزیں

افسانہ   = خاموشی/ بشریٰ حزیں

افسانے
بشریٰ حزیں خاموشی کے زہر میں بجھی گھر کی فضاء چیخ چیخ کے بتا رہی تھی کہ مکین ناراض ہیں ۔ زین اور روحی ایک گھر میں رہتے ہوٸے بھی ایک قانونی و شرعی رشتے میں بندھے دو اجنبی تھے جن کے درمیان واجبی سی بات چیت ہوتی تھی ۔ ” بھوک لگی ہے “۔؟  ” نہیں ، ابھی نہیں “۔ ” چائے پیئں گے “۔؟ ” پی لوں گا “۔؟ ” آٹا ختم ہو گیا ہے “۔ ” چائے کا سامان لیتے آنا “۔ بس ایسے ہی گنتی کے چند جملوں کا تبادلہ ہوتا اور بس ۔ روحی کبھی کبھی اس لگی بندھی روٹین سے ہٹ کے کچھ کہتی بھی تو زین کا انداز سنی ان سنی والا ہوتا ۔ کچھ دن یکطرفہ گفتگو کا شوق پورا کر کے زین کی بے حس خاموشی سے مایوس ہو کے وہ لب سی لیتی ۔  ناراضگی ۔۔۔۔۔۔ اسے ناراضگی کا نام دینا بھی زیادتی ہو گا کیونکہ ناراضگی تو اپنوں سے ہوتی ہے جبکہ یہاں اپائیت کا احساس تو کیا شائبہ تک نہ تھا ۔ ناراضگی نما سے ردٍعمل کے طور پہ...
تیسرا (افسانہ )|تحریر: رفعت رفیق

تیسرا (افسانہ )|تحریر: رفعت رفیق

افسانے
تحریر: رفعت رفیق اس جدید طرز کی آبادی کے عین وسط میں بنائے گئے اس خوبصورت  پارک میں روزانہ شام کو چہل قدمی کرنا ایک عرصے سے میرا معمول ہے۔شام کا وقت،غروب ہوتا  ہوا سورج،گھونسلوں کو لوٹتے پرندے،آسمان پہ پھیلی شفق  ،یہ سب چیزیں مجھے اپنی اور کھینچتی  ہیں اور ایک نامعلوم سی اداسی کی کیفیت  مجھے اپنی روح میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ سمینٹ اور کنکریٹ  سے انسانوں کے اپنے لئے بنائے بندی خانوں میں میرا دم گھٹتا ہے  ۔اور میں سانس لینے کوبے ساختہ فطرت کی قربت میں کھنچا چلا آتا ہوں۔زندگی کی ہمہ ہمی  سے چرا کر میں چند لمحے اپنے ساتھ گزارتاہوں اور قطرہ قطرہ سکون اپنے اندر اترتا محسوس کرتا ہوں۔کائنات میں پھیلے عمیق سکوت  کی تال پر میری روح محو رقص ہوتی ہے۔یوں اگلے دن کارزار حیات میں اترنے کے لئے تازہ دم ہوجاتا ہوں۔ لیکن آج طبعیت کچھ مضمحل سی ہے۔اس ل...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact