Thursday, May 2
Shadow

کہانی

بچوں کے لئے کہانیوں کا مطالعہ ضروری کیوں؟  تحریر :  بینش احمد ( اٹک )

بچوں کے لئے کہانیوں کا مطالعہ ضروری کیوں؟ تحریر : بینش احمد ( اٹک )

آرٹیکل, کہانی
آج ہم بات کریں گے کہ بچوں کے لئے کہانیوں کو مطالعہ کرنا ضروری کیوں ہے؟ میں حیران ہوتی ہوں کہ کیسے پیارے دن تھے ہمارے بچپن کے، جب ہم شدت سے اتوار کا انتظار کیا کرتے تھے۔ کیونکہ ہر اتوار بچوں کا خصوصی میگزین شائع ہوا کرتا تھا۔ اس میں ہم اپنی من پسند کہانیاں پڑھا کرتے تھے اور گھر بیٹھے ہی خُوب لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔اپنی جیب خرچی سے مختلف کہانیاں خرید خرید کر پڑھتے تھے۔ ایک آج کا دور ہے کہ ہمارے بچے صرف پریوں کی کہانیاں ہی جانتے ہیں وہ بھی محض زبانی کیونکہ وہ بچپن سے اپنی دادی نانی اور ماں سے سن رہے ہوتے ہیں۔ دورِ حاضر میں  موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے بچوں کے سیدھے راستے سے بھٹکنے کے امکانات کافی زیادہ ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کچھ اس طرح سے کرنی چاہیے کہ بچوں کو ادب و لحاظ اور اخلاقیات کا مکمل پتا ہو۔ کوئی بھی نامناسب چیز دیکھنے یا پڑھنے سے پہلے اُن کا ضمیر اُنہیں ایک بار ملامت ضرور کرے...
بار وفا—تحریر : پروفیسر رضوانہ انجم

بار وفا—تحریر : پروفیسر رضوانہ انجم

افسانے, کہانی
پروفیسررضوانہ انجم مہرو نے زبیر احمد کی بریل پر پھسلتی سانولی انگلیوں کو دلچسپی سے دیکھا۔وہ تیس نابینا بچوں کو لائیبریری کے پیریڈ میں بریل سے کہانی پڑھ کر سنا رہا تھا۔درمیانے سائز کے کمرے میں اسکی مردانہ آواز کا اتار چڑھاؤ،جملوں کی ادائیگی،تلفظ ایک چھوٹے سے جادو کی طرح بچوں کو متحئیر کر رہا تھا۔تیس بے نور آنکھوں والے بچوں کو جنکا نہ تصور تھا نہ تخئیل۔۔۔پرستان کی سیر کرانا بہت مشکل کام تھا۔وہ آنکھیں جنہوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھے تھے انھیں سبز مخملیں گھاس،نیلے پانیوں والی جھیلوں،ہیرے جواہرات کے پھلوں سے لدے درختوں،درختوں پر کوکتے خوش رنگ پرندوں اور آسمان سے چھم چھم اترتی گلابی،سنہری،کاسنی پروں اور لباس والی پریوں کی لفظی تصویریں دکھانا بے حد مشکل تھا۔۔۔ لیکن مہرو کو لگا کہ درمیانے قد کاٹھ کے مالک اور لگ بھگ چالیس سالہ زبیر احمد کو اس فن میں کمال حاصل تھا۔۔۔۔ شاید وہ کمرے کے درو...
اندر کا بچہ

اندر کا بچہ

آرٹیکل, فطرت, کہانی
تحریر: م ، ا ، بٹ کبھی کبھی سوچتا ہوں ہم جب بڑے ہوتے ہیں تو ہمارا اندر کا بچہ کیوں مر جاتا ہے ۔ بچپن کی یادوں کو ہر شخص حسین اور ناقابل یقین کہتا ہے لیکن اس دور میں رہنا نہیں چاہتا ۔ بچن میں بغیر سکھلائی کے ہم ہمدردی کے جزبہ اور ایثار اور قربانی کا عملی مظاہرہ بھی کرتے تھے ۔ تحائف کے لینے دینے کو بھی سمجھتے تھے ۔ دوست کو وقت دینے اور اس کا سہارا بننے کو بھی سمجھتے تھے ۔ شائد یہ چیزیں ہم بچپن میں ہی کر سکتے ہیں کیونکہ نہ خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے اور نہ ہی حسد ۔ تکبر کا لفظ تو اس وقت آتا ہے جب دوسروں کو ہیچ سمجھنا شروع کرتے ہیں ۔ اسوقت ہر ایک کو اپنا اور اپنے جیسا سمجھ کر گلے لگا لیتے تھے ۔ ہر کوئی اپنا اور کوئی غیر نہ تھا ۔ اب تو فرق بھی نظر آنے لگا اور کبھی کبھی غریب سے نفرت اور حقارت بھی ۔  کیا یہ سب ہمیں معاشرے نے نہیں سکھلایا  ۔اگر یہ صحیح ہے تو معاشرے کی اصلاح کیسے ک...
راولاکوٹ گردوارہ سکھ عہد کی یادگار

راولاکوٹ گردوارہ سکھ عہد کی یادگار

آثارِقدیمہ, آزادکشمیر, تصویر کہانی, کہانی
کہانی کار : حمید کامران آزاد کشمیر کے صحت افزا مقام راولاکوٹ کا گُردوار ہ ایک تاریخی عمارت ہے -چھپے نی دھار یا ساپے نی دھار گاؤں کیانتہائی بلندی پہ تعمیر کردہ یہ  عمارت ہزاروں آندھیوں طوفانوں اور زلزلوں کا مقابلہ کرتی صدیوں سے استقامت سے کھڑیاپنے مضبوطی کو منوانے میں حق بجانب ہے -اس کی تعمیر میں پتھر اور چونے کا مٹیریل استعمال ہوا ہے  اس کے پتھرخوبصورتی سے تراش کر بنائے گئے ہیں جو پرانے زمانے کے لوگو...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact