Friday, May 17
Shadow

Author: editor_1

آزادکشمیر کے جنگلات کیوں کم ہورہے ہیں؟

آزادکشمیر کے جنگلات کیوں کم ہورہے ہیں؟

آرٹیکل, آزادکشمیر
تحریر : مظہر اقبال مظہر ، لندن گلوبل فاریسٹ واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ گیارہ برسوں میں آزاد کشمیر کے جنگلات کا تقریباً چار ہزار دو سو ایکڑ رقبہ کم ہوگیا ہے۔ جب آزاد جموں و کشمیر کی پہلی حکومت بنی تو جنگلات کا کُل رقبہ 32 فیصد تھا۔آج یہ رقبہ سُکڑ کر 15 فیصد رہ گیا ہے۔ آزادکشمیر میں جنگلات کے تحفظ کا قانون اتنا ہی پرانا ہے جتنی آزادکشمیر کی اپنی عمر ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ ایند ایگریکلچر آرگنائزیشن کی آرکایئوز میں آزادریاست جموں وکشمیر کا 1948 کا ایک قانون ٹِمبر پروٹیکش ایکٹ محفوظ ہے جس کا مقصد آزاد کشمیر کی حدود میں لکڑی کی سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ جہاد ِ آزادی کے زمانے میں اس قسم کے قوانین کا پاس ہونا اس وقت کے سماجی ڈھانچے ، جرائم کی نوعیت اور حکومت وقت کی دلچسپیوں کے حوالے سے ایک علیٰحدہ بحث کو جنم دیتا ہے جسے ہم کسی اور وقت کے لیے اٹھا لیتے ہیں۔ مذکورہ بالا قانون...
اسی گھوڑے تے مضمون لکھیا / تحریر: ڈاکٹر فضیلت بانو

اسی گھوڑے تے مضمون لکھیا / تحریر: ڈاکٹر فضیلت بانو

کہانی
                  اج کئی وریاں بعد اسی سارے بیلی ملے سی۔ آپ بیتیاں تے جگ بیتیاں دا سلسلہ شروع سی۔اچانک مینا کہن لگا اوئے اسحاقے تینوں اوہ گل یاد آ،جدوں تیجی جماعت وچ آپاں گھوڑے تے مضمون لکھیا سی۔اک دن ماسٹر صاحب نے آکھیا سی کہ کل تسی سارے گھوڑے تے مضمون لکھ کے لیانا اے۔ہاں ہاں مینوں وی یاد آگیا میں حافظے تے زور دیندہوئے آکھیا،کیونکہ ساری کلاس وچ سب توں ودھیا مضمون میرا ہی سی۔پر جس طرحاں لکھیا سی اوہ وی بڑی دلچسپ کہانی سی۔ میں کہیا مینے یار پہلاں توں ہی دس کہ توں کس طرحاں مضمون لکھیا سی۔مینا کہن لگا یار ہن تے ایہہ گل لطیفہ ای لگدی اے پر اوہدوں لوکی واقعی بہت بھولے تے سدھے سی۔ تینوں یاد ہی آ جدوں سانوں ماسٹر صاحب نے کہیا سی کہ کل مضمون نہ لکھیا تے سزا ملو گی۔اسی سکولوں آوندے سارے راہ وچ ایہہ ہی سوچدے رہے بھئی گھوڑے تے مضمون کداں لکھاں گے؟ساڈے گھر تے گھوڑا ہے نہیں سی۔سارے پنڈ وچ اوہدوں چار،پ...
اختیاری ہجرت کا کرب، نائلہ رفیق

اختیاری ہجرت کا کرب، نائلہ رفیق

آرٹیکل
ہم جو اپنے اپنے گاؤں سے نکل آئے ہیں، ہمارے گاؤں ہمارے اندر سے نہیں نکلتے۔ برسوں اینٹ پتھر کے بیچ رہ کر بھی ہم اپنے ہریالے اشجار میں جیتے رہتے ہیں۔ صبح آنکھ کھلتی ہے تو کتنی ہی دیر کان ان مانوس چہچہوں اور اللہ ہو کے منتظر رہتے ہیں جو ہماری صبحوں کے نقیب رہے۔ میں اپنے بچپن میں جہاں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلاکرتی تھی وہ بہی دانہ کا ایک پیڑ تھا۔ جب بہار آتی تو سب سے پہلے اس پیڑ کے نیچے گھاس کا نہایت ملائم اور ایک منفرد سے ہرے رنگ کا قالین سا بچھ جاتا۔ بہار کے دن ان گنت ہوتے سفید سفید تتلیاں گھاس پہ کھلے رنگ برنگے پھولوں پہ یہاں وہاں ہر طرف اڑتیں۔ درخت نوخیز پتوں اور رنگ برنگے شگوفوں سے بھر جاتے۔ ہائے کیسے بتاؤں کہ دنیاکی سب سے مہنگی خوشبو کیکر کے پھولوں کی خوشبو سے اچھی نہیں ہو سکتی۔ وہ مہکتے سفید گچھے درختوں کو بھر دیتے اور عصر کے وقت انکی دھیمی مہک ساری کائنات کو بھر دیتی۔ اور وہ دریک...
امانت علی کے سفرنامہ انجانی راہوں کا مسافر پر ثناء ادریس چغتائی کا تبصرہ

امانت علی کے سفرنامہ انجانی راہوں کا مسافر پر ثناء ادریس چغتائی کا تبصرہ

تبصرے
تبصرہ نگار : ثناء ادریس چغتائی ۔ کراچیکتاب کا نام : انجانی راہوں کا مسافرمصنف : امانت علیصنف : سفر نامہناشر : پریس فار پیس فاؤنڈیشن ( برطانیہ)قیمت : 600 روپے ( پاکستانی قارئین کے لئے)  پانچ پاؤنڈ ( انٹرنیشنل قارئین کے لئے)تعارفِ مصنف :امانت علی صاحب کا تعلق ریاست جموں و کشمیر کے ایک خوبصورت گاؤں سے ہے ۔ جامعہ کشمیر سے انگریزی میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے اور پھر 2012 میں قسمت انہیں سرزمینِ حجاز لے آئی ۔ جہاں وہ المجمعہ یونیورسٹی ریاض میں بطور انگریزی لیکچرار تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ وہ اس شعبے سے بارہ سال سے وابستہ ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ قلم قرطاس سے ان کی گہری وابستگی ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔امانت علی صاحب ان لوگوں میں سے ہے جنہیں کچھ پانے ، کھوجنے اور نئی منزلیں تلاشنے کی جستجو ہے ۔ ان کا یہی وصف انہیں نئی راہوں کا مسافر بناتا ہے ۔ علا...

میں ایک چیڑھ کا درخت ہوں/ مظہر اقبال مظہر

آرٹیکل
میں ایک چیڑھ کا درخت ہوں اور راولاکوٹ  جیسے ٹھنڈے اور بالائی علاقے میں رہتا ہوں۔مجھے میدانی علاقے دیکھنے کی حسرت ہے مگر شائید قدرت کو یہی منظور تھا کہ میں کبھی بھی میلوں تک پھیلے ہوئے کسی ہموار قطعہ زمین کو نہ دیکھ پایا۔  دنیا عجائبات سے بھری پڑی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ میں خود بھی قدرت کا ایک عجوبہ ہوں۔ مجھے میرے دادا نے بتایا تھا کہ ہماری نسل   بہت قدیمی نسلوں کے درختوں میں شامل ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میرے جد امجد اس دور سے تعلق رکھتے ہیں  جس  کو انسان  prehistoric  زمانہ کہتے ہیں۔  دادا نے یہ بھی بتایا تھا کہ  دیار یا دیودار کہلایا جانے والا  وہ اونچا درخت جو سامنے والے ٹیلے پر ہر وقت کھڑا رہتا ہے  اس کا خاندان بھی قدیم دور سے یہاں آباد ہے۔  میر ا اور دیودار کا رشتہ بھی بہت مختلف نوعیت کا ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی...
تبصرہ نگار مظہراقبال مظہر| نام کتاب| تماشائے اہلِ کرم

تبصرہ نگار مظہراقبال مظہر| نام کتاب| تماشائے اہلِ کرم

تبصرے
 تبصرہ نگار  : مظہر اقبال مظہر   پروفیسر محمد ایاز کیانی کی تصنیف "تماشائے اہلِ کرم " میرے سامنے ہے۔طباعت ، املاء اور پروف کی غلطیوں سے مبرَّا یہ دیدہ زیب کتاب پریس فار پیس فاؤنڈیشن (یو ُکے) نے شائع کی ہے۔  رنگین ٹائٹل پر تاریخی عمارات کے عقب میں ہرے بھر ے کھیت اور برف پوش چوٹیاں  قاری کے تخیل کو اندرونی صفحات کھولنے پر مجبور کردیتی ہیں۔  کتاب  کا پہلا صفحہ ایسے منظرکی تصویر کشی کر رہا ہے جس  میں ایک سیدھی دو رُویہ سڑک کا داہنی حصہ خالی ہے جب کہ   بائیں جانب "محمد ایاز کیانی" کے الفاظ تحریر ہیں ۔ گرد سے اٹے اوردائیں بائیں  لڑھکتے ہوئے  پتھروں اور خود رو جھاڑیوں  کے بیچ میں سے گزرتی ہوئی یہ سڑک دُور کہیں پانیوں، پہاڑوں اور بادلوں میں یُوں گم ہو رہی ہے  جیسے کوئی مسافر ان دیکھے راستوں پر چلتا اور اگلی منزلوں کے نشان ڈھونڈتا  ہوا سفر میں گم ہو جائے۔ ٹھنڈے  ...

Environmentalists call to protect natural resources in Azad Jammu and Kashmir

Activities, News
The episode is based on a report by a virtual panel of environmentalists and social activists. The environmentalists call to protect the natural resources of Muzaffarabad. A statement issued at the end of the virtual panel discussion on Sunday 19 June, said that the process of diverting rivers for power generation projects has significantly increased the environmental issues in the region of Azad Kashmir.
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact