Thursday, May 2
Shadow

کہانی

ترغیب / تحریر: نگہت سلطانہ

ترغیب / تحریر: نگہت سلطانہ

کہانی
از قلم نگہت سلطانہ(گجرات) جانے اس میں سوچوں کا دخل تھا یا معمول کی کمزورئِ طبع کہ آج اسے اپنے فرض کی بجا آوری بہت مشکل لگی ایک ایک لفظ کی ادائیگی کے لئے بدن کی ساری قوتوں کو جمع کرنا پڑا تھا۔ اب وہ چٹائی پر اکیلا بیٹھا خیالوں کے تانے بانے بنتا بنتا ماضی کی پگڈنڈیوں پر سفر کر رہا تھا۔ ننھے حامد، احمد اور ارسلان سے اس کی دوستی محض اس لئے نہیں تھی کہ وہ اسے بڑے پیارے لگتے تھے اس کا خون تھے بلکہ اسے ان کی تربیت کی فکر بھی دامن گیر رہتی تھی۔ اس مقصد کے لئے ان تینوں  کو اپنے ساتھ مسجد آنے کی ترغیب دیتا تھا مگر بدقسمتی کہ حامد، احمد اور ارسلان کا باپ، اس کا اپنا بیٹا ہمیشہ آڑے آ جاتا کہ "ابا جان! بچے بہت چھوٹے ہیں مسجد میں نمازیوں کو تنگ کریں گے اور آج کل مسجد میں دھماکے بھی تو ہو جایا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ، بارش ہو، آندھی ہو، گرمی ہو، سردی ہو، اس گھر میں واحد وہی تھا جو ہر نماز کی پکا...
مانیا کی ایجاد/ کہانی کار: شفق عثمان

مانیا کی ایجاد/ کہانی کار: شفق عثمان

کہانی
کہانی کار: شفق عثمانپولینڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک غریب لڑکی رہتی تھی اس کا نام مانیا سکلوڈو وسکا تھا وہ ٹیوشن پڑھا کر گزر بسر کرتی 19 برس کی عمر میں وہ ایک امیر خاندان کی دس سال کی تھی بچی کو پڑھاتی تھی بچی کا بڑا بھائی اس میں دلچسپی لینے لگا وہ بھی اس کی طرف مائل ہوگئی چنانچہ دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا لیکن جب لڑکے کی ماں کو پتہ چلا تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا اس نے مانیا کو کان سے پکڑا اور پورچ میں لا کھڑا کیا اس نے آواز دے کر سارے نوکر جمع کئے اور چلا کر کہا ' دیکھو یہ لڑکی جس کے پاس پہننے کیلئے صرف ایک فراک ہے جس کے جوتوں کے 24 گھنٹے میں صرف ایک بار اچھاتلوئوں میں سوراخ ہیں اور جسے کھانا نصیب ہوتا ہے اور وہ بھی ہمارے گھر سے ، یہ لڑکی میرے بیٹے کی بیوی بننا چاہتی ہے ، یہ میری بہو کہلانے کی خواہش پال رہی ہے " تمام نوکروں نے قہقہہ لگایا اور خاتون دروازه بند کر کے اندر چلی گئ...
چاچا زرافہ کہانی کار: شفق عثمان

چاچا زرافہ کہانی کار: شفق عثمان

کہانی
کہانی کار شفق عثمانجنگل بہت سے جانوروں سے بھرا ہواتھا ، چھوٹے بڑے ، گوشت کھانے والے ، درختوں کے پتے کھانے والے ، آہستہ چلنے والے اور تیز بھاگنے والے سب ہر طرح کے جانور یہاں رہتے تھے۔ مگر ! سب میں مشہور چاچا زرافہ تھے ، سارے جانور ان سے خوش تھے اور چھوٹے جانور تو ان سے بہت پیار کرتے تھے۔زرافہ سے چاچا زرافہ بننے کی کہانی کچھ یوں شروع ہوئی کہ کچھ سال پہلے یہاں بہت تیز بارشیں ہوئی تھیں اور خطرناک طوفان آیا تھا ، کمزور اور چھوٹے درخت تو گر گئے ، مضبوط بڑے اور لمبے درختوں کو کچھ بھی نہیں ہوا ، وہ اپنی جگہ پر صحیح سلامت رہے ، ان پر پھل بھی زیادہ لگنے لگے۔ چھوٹے چھوٹے درختوں کا ٹوٹ کرگر جانا یہاں کے جانوروں کے لئے بڑا مسئلہ بن گیا تھا ، کیونکہ زیادہ تر جانوروں کا قد چھوٹا اور جسم موٹا تھا ، اور وہ بڑے درختوں کے اوپر چڑھ  نہیں سکتے تھے اور اپنے کھانے کا انتظام پورے طریقے سے نہیں کر پاتے تھے۔ا...
کہانی: جادوئی چپس/ کہانی کار: شفق عثمان

کہانی: جادوئی چپس/ کہانی کار: شفق عثمان

کہانی
کہانی کار: شفق عثمان  ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک گاؤں میں غریب آدمی رہتا تھا۔وہ روزی سے بہت تنگ اور پریشان تھا روز صبح سویرے روزی کی تلاش میں جاتا اور تھک ہار کر شام کو گھر واپس آجاتا ۔کئی روز تک وہ یونہی جاتا اور خالی ہاتھ واپس آجاتا ۔وہ کئ دن کا بھوکا تھا اور وہ بھوک کی وجہ سے نڈھال ہو کر سو گیا اور اللہ سے دعا کرتا رہا۔ اگلے روز وہ پھر صبح ہوتے ہی ایک دریا کے کنارے جا کر بیٹھ گیا اور گہری سوچ میں پڑ گیا۔ اچانک ہی دریا میں سے ایک مچھلی نکل کر باہر آئی اور کہنے لگی تم کیوں پریشان بیٹھے ہو تو اس نے اپنی پریشانی کی وجہ مچھلی کو بتائی مچھلی کہنے لگی کہ میں تمھاری مدد کر سکتی ہوں ۔اس نے پوچھا وہ کیسے؟ وہ کہنے لگی کہ ایک دفعہ ہم مچھلیاں بہت بھوکی تھی تو تم آکر ہمیں دانہ ڈالا کرتے تھے جس  کی وجہ سے آج ہم زندہ ہیں۔ مچھلی نے اس کو ایک ٹھیلا لگا دیا اور اس میں جادوئی چپس رکھ دیے ۔وہ یہ د...
چوراہے کی عورت/تحریر: ساجدہ امیر

چوراہے کی عورت/تحریر: ساجدہ امیر

کہانی
ساجدہ امیر ( کوٹ مٹھن ضلع راجن پور)سلطان شاہ ایک رحم دل انسان تھے۔ ان کے دل میں اپنی قوم کے لیے محبت اور ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سلطان شاہ نہ صرف یمن کے لوگوں کے لیے بلکہ آس پاس کے علاقہ جات کے لیے بھی قابلِ محبت تھے۔ دور دراز سے کوئی مسافر یا بادشاہ یمن کی سیر کے لیے آتا تو بادشاہ سلامت ان کا استقبال نہایت دھوم دھام سے کرتے۔ بادشاہ سلامت کی صرف ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام تھا شہزادی یمنہ تھا۔ سلطان شاہ کو یمن سے اتنی محبت تھی کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نام بھی یمنہ رکھ دیا۔ سلطان شاہ کا کوئی بیٹا نہ تھا اور یہی فکر سلطان کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی کہ میرے بعد میری قوم کی خدمت پتا نہیں کون اور کیسے کرے گا۔شہزادی یمنہ ایک خوبصورت اور ہنس مکھ لڑکی تھی۔ یمنہ کے خوبصورت لمبے بالوں نے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے تھے۔ یمنہ کی خوبصورتی کے چرچے آس پاس کی تمام سلطنتوں م...
کہانی : بزم۔ کہانی کار : : عنیزہ عزیر

کہانی : بزم۔ کہانی کار : : عنیزہ عزیر

کہانی
تحریر : عنیزہ عزیردن بھر برسنے والی موسلا دھار بارش کا زور ٹوٹ چکا تھا لیکن کِن مِن ابھی بھی جاری تھی۔ دسمبر کی سرد ہوا، بارش کے قطروں کو چھو کر جسم سے ٹکراتی تو کپکپکی طاری ہو جاتی۔ بیگ منزل کے لاؤنج میں موجود نئی نسل، ایک دوسرے سے لا تعلق اپنے اپنے موبائل پر مصروف تھی۔ جہاں موبائل فون نے فاصلے سمیٹ دئیے تھے، وہیں قریب والوں کو دور کر دیا تھا۔ کچن میں خواتین کھانا پکانے کے علاوہ وقتاً فوقتاً چائے بنا کر بیٹھک میں مرد حضرات تک پہنچا رہی تھیں۔بیگ منزل کے سربراہ، سمیع بیگ اپنے کمرے میں بستر پر دراز سوچوں میں گم تھے کہ حماد دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا دبے قدم اندر داخل ہو کر ماحول میں اپنا تاثر چھوڑ گیا۔"بابا جان! آپ آج سب کے ساتھ نہیں بیٹھے؟ "  حماد نے پوچھا۔"سب موبائل پر مصروف ہوتے ہیں میں وہاں بیٹھ کر کیا کروں؟"" ٹھنڈ کے باعث بچے باہر نہیں جا سکتے اسی لئے موبا...
یہ سب کا وطن ہے، بچا لو اسے / ماوراء زیب

یہ سب کا وطن ہے، بچا لو اسے / ماوراء زیب

کہانی
: ماوراء زیب” ارے بیٹا! یونیورسٹیز کے داخلے بند ہوجائیں گے۔ آپ کب داخلہ لو گی؟“انھوں نے اپنی ہمسائی کی بیٹی سے پوچھا۔آج 14 اگست کی وجہ سے ان کی ہمسائی نے بریانی بنائی تھی۔ ان کی بیٹی جب بریانی دینے آئی تو وہ اس بچی سے داخلوں کی بات کرنے لگ گئیں۔” پتہ نہیں آنٹی! میرے ابو کہتے ہیں پہلے بارھویں کا نتیجہ تو آنے دو۔“” لیکن بیٹا داخلہ تو گیارھویں کے نتیجے کی بنیاد پر ہوتا ہے اور جب تک بارھویں کا نتیجہ آئے گا تب تک تو اچھی یونیورسٹیز کے داخلے بند ہوجائیں گے۔ پھر آپ کو اگلے سیمسٹر کے داخلوں کا انتظا کرنا پڑے گا۔“” ارے نہیں آنٹی! داخلے تو ہوجاتے ہیں۔ ابو کہہ رہے تھے پیسوں سے سب کام ہوجاتا ہے۔“وہ اس سترہ سالہ بچی کی بات سن کر ساکت رہ گئیں۔ وہ بچی چلی گئی لیکن ان کے سامنے ماضی کو کھڑا کر گئی۔ ماضی کی بوسیدہ پوشاک اور جھکے ہوئے کندھے دیکھ کر وہ بےساختہ اسے سہارا دینے آگے بڑھیں۔ماضی کے منہ سے نکلتے جم...
اجرت کا ثواب /مطربہ شیخ

اجرت کا ثواب /مطربہ شیخ

کہانی
کہانی کار: مطربہ شیخاسکول میں پارٹی تھی، سب بچوں نے دل بھر کر انجوائے کیا تھا اور دل بھر کر ہی گتے کے گلاس اور پلیٹیں، کھانے پینے کی بچی کچھی اشیاء چھ سو گز کے بنگلے میں بنائے گئے اسکول کے بڑے سے احاطے میں پھیلائی تھیں۔ثمینہ صفائی کرتے کرتے بے حال ہو گئ، وہ اکیلی ہی اس اسکول کی صفائی پر مامور تھی۔ایک دوسری ملازمہ بھی تھی لیکن وہ اسکول کے بچوں کے ساتھ دن بھر دوسرے امور میں مشغول رہتی، اسکول ختم ہونے بعد صفائی ثمینہ کے ذمے تھی۔ ثمینہ نے متعدد بار اسکول کی مالکن  پرنسپل کو کہا کہ دوسری ملازمہ بھی رکھ لیں۔ لیکن مالکن نے ہمیشہ یہ کہہ دیا، دیکھو ثمینہ چھوٹا سا پرائمری اسکول ہے، ہم چار سو سے زیادہ طلباء کو داخلہ نہیں دیتے۔صرف چند کلاس رومز ہی تو ہیں جن کی صفائی تم کو کرنا پڑتی ہے۔ثمینہ پرنسپل کو اسکا کمرہ، اسٹاف روم، کامن روم، دروازے کھڑکیوں کی جھاڑ پونچھ اور گراونڈ گنواتی تو پرنسپل کہ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact