Saturday, May 11
Shadow

اردو

گڑھی کا ڈاک بنگلہ

گڑھی کا ڈاک بنگلہ

تصویر کہانی
کہانی کار : محسن شفیق  یہ مظفرآباد کے نزدیک گڑھی دوپٹہ کے ڈاک بنگلے کی 1920 کی تصویر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح رح جب جہلم ویلی روڈ سے سرینگر کشمیری گئے تھے تو انہوں نے اس عمارت میں بھی پڑاؤ ڈالا تھا۔ اس کے بعد دوسرا پڑاؤ چناری کے ریسٹ ہاؤس میں ڈالا تھا اور وہاں چنار کے درخت کے نیچے بچھی چٹائی پر کچھ دیر سستانے کے لیے بھی رونق افروز ہوئے تھے۔ چناری کا ریسٹ ہاؤس وہاں کے عوام نے صرف اس وجہ سے بہت سنبھال کر رکھا رہا ہے، کسی عاقبت نااندیش نے اسے نذر آتش کیا، مگر کچھ ہی عرصے میں دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا، گڑھی دوپٹہ کے اس ڈاک بنگلے پر عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے 'گڑھی کا ڈاک بنگلہ' کے عنوان سے افسانہ بھی لکھا تھا۔ اس عمارت کا ایک تابناک ماضی اور مسلمہ تاریخ ہے۔۔ تاہم دو ہزار آٹھ کے زلزلے میں یہ عمارت تباہ ہوگئ -گڑھی دوپٹہ ایک اہم مرکز تھا اور اس میں بہت سی تار...
قدیم کشمیری سماوار

قدیم کشمیری سماوار

تصویر کہانی
کہانی کار : سید سبطین جعفری  تصویرمیں نظر آنے والی چا ئے یا قہوہ کی چینک  ہے ۔ جو 1930 میں راولپنڈی میں خرید گئی ۔ مگر  ابھی اپنی اصلی حالت میں  موجود ہے ۔ یہ چینک تانبے کی بنی ہے۔ اور  پیر سید محمد صدیق شاہ ندوی اور کشمیری مصنف سید بشیرحسین جعفری کے آبائی گھر سوہاوہ شریف باغ ، آزاد کشمیر میں موجود ہے۔ یہ ہمارے دادا پیر سید محمد ایوب شاہ صاحب نے خریدی اور استعمال کی ۔ اس کے ڈھکن پر پیرایوب شاہ کانام بھی کندہ ...
راولاکوٹ گردوارہ سکھ عہد کی یادگار

راولاکوٹ گردوارہ سکھ عہد کی یادگار

آثارِقدیمہ, آزادکشمیر, تصویر کہانی, کہانی
کہانی کار : حمید کامران آزاد کشمیر کے صحت افزا مقام راولاکوٹ کا گُردوار ہ ایک تاریخی عمارت ہے -چھپے نی دھار یا ساپے نی دھار گاؤں کیانتہائی بلندی پہ تعمیر کردہ یہ  عمارت ہزاروں آندھیوں طوفانوں اور زلزلوں کا مقابلہ کرتی صدیوں سے استقامت سے کھڑیاپنے مضبوطی کو منوانے میں حق بجانب ہے -اس کی تعمیر میں پتھر اور چونے کا مٹیریل استعمال ہوا ہے  اس کے پتھرخوبصورتی سے تراش کر بنائے گئے ہیں جو پرانے زمانے کے لوگو...
کتاب دوست: معراج جامی

کتاب دوست: معراج جامی

آرٹیکل, شخصیات, مظفرآباد
حبیب گوہر معراج جامی صاحب سے غائبانہ تعارف تو تھا لیکن ملاقات گزشتہ سال مظفر آباد میں ایک شادی میں ہوئی۔ دلہے فرہاد احمد فگار کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ ہل چل مچی ہوئی ہے۔ پتا چلا کہ ہل چل کا باعث شادی نہیں بلکہ کراچی سے سید معراج جامی کی تشریف آوری ہے۔ ان کے اعزاز میں شعری نشست کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ احمد وقار میر اور شوکت اقبال مصور سخن فہموں اور عبدالمنان وانی، واحد اعجاز میر کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔ دلہے کے دوست حسن ظہیر راجہ شادی کے جھمیلوں کے سمیٹنے میں جت گئے ہیں۔ سید معراج جامی اور فرہاد احمد فِگار ڈاکٹر ماجد محمود اور ظہیرعمر جامی صاحب سے رودادِ سفر سن رہے ہیں۔ سب بہم ہوئے تو نشست برپا ہوئی۔ نشست کے بعد پرتکلف عشائیے کا اہتمام تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جامی صاحب ایک ایک شریک سے حال احوال کے ساتھ اس کی ضرورت کی کتابوں کی تفصیل بھی پوچھ رہے تھے۔ اگلے...
کیا سرکاری ادارے منافع بخش ہونے چاہئیں؟

کیا سرکاری ادارے منافع بخش ہونے چاہئیں؟

آرٹیکل
تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن ، ڈائریکٹر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس گذشتہ کچھ عرصے میں جن غلط ترین تصورات نے جنم دیا ہے، ان میں سے ایک ہر سرکاری ادارے کو منافع بخش بنانے کا تصورہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اداروں کاجواز ہی وہیں ہوتا ہے  جہاں منافع بنیادی  ترجیحات میں نہ ہو۔سرکاری ادارے  کاروباری ادارے نہیں ہوتے، بلکہ جہاں کاروباری ادارے  کم منافع یا منافع کی عدم موجودگی کے سبب مداخلت نہ کرنا چاہیں، یا جہاں ادارے کے فنکشن کو کاروباری اداروں کے ہاتھ میں دینا ممکن نہ ہو، یا جہاں کاروباری اداروں کی ناجائز منافع خوری سے عوام کو بچانا مقصود ہو، سرکاری اداری ادارہ جات کو صرف وہیں موجود ہونا چاہئے۔ اگر نفع نقصان کے تناظر میں ہر چیز کا وزن کیا جائے تو کیا افواج کو منافع میں چلایا جا سکتا ہے؟ یا بالفرض فوج کو پرائیویٹ انٹرپرائز کے طور پر چلانا ممکن ہو، تو بھی کیا فوج کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دیا ...
مہاجرین جموں کشمیر کی آبادکاری

مہاجرین جموں کشمیر کی آبادکاری

آرٹیکل, آزادکشمیر, مظفرآباد
 شبیر احمد ڈار       ریاست مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے ظلم و ستم اور غاصبانہ قبضے سے ہم سب ہی باخبر ہیں . اس ستم وظلم کی وجہ سے لاکھوں گھرانے اب تک ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے. تحریک آزادی کشمیر  کا جذبہ لے کر  آزادکشمیر میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے  انہیں "مہاجرین جموں کشمیر " کے نام سے پکارا جاتا . مہاجرین جموں کشمیر 1990-1989ء بھی ان میں شامل ہیں جنھوں نے اپنا گھر بار ، عزیز و اقارب ،زرمبادلہ سب کچھ تحریک آزادی کشمیر  کے لیے وقف کیا اور آج آزادکشمیر کے مختلف کیمپوں میں آباد ہیں .مہاجر ہونا ایک اعزاز کی بات ہے اور مہاجر ہونا سب سے مشکل  کام بھی  ہے .     مہاجرین جموں کشمیر 1990ء مقبوضہ کشمیر کے مختلف شہروں سے ہجرت کر کے بیس کیمپ آزادکشمیر میں داخل ہوئے ان میں زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مقبوضہ ضلع  پونچھ ، اوڑی ...
باغسر جھیل اور قلعہ باغسر

باغسر جھیل اور قلعہ باغسر

آثارِقدیمہ, آرٹیکل, آزادکشمیر, سیر وسیاحت
تحریر: مرزافرقان حنیف تصاویر :  مرزا فرقان حنیف  ۔ سوشل میڈیا    بھمبر آزاد کشمیر کا تاریخی مقام ہے۔ یوں ریاست جموں و کشمیر کا ہر شہر اپنی تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن بھمبر کی تاریخی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کے مغل حکمران یہاں سے گزر کر سرینگر جایا کرتے تھے۔ اسے بابِ کشمیر بھی کہا جاتا ہے۔ کسی دور میں بھمبر ایک ریاست کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ موجودہ بھمبر کو آزاد کشمیر کے ایک ضلع کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ضلع تین تحصیلوں پر مشتمل ہے، تحصیل بھمبر، تحصیل سماہنی، تحصیل برنالہ۔ضلع بھمبر میں ماضی کی بہت ساری یادگاریں موجود ہیں۔ ایسی ہی تاریخی جھیل اور باغسر قلعہ ضلع بھمبر کی تحصیل کے گاؤں باغسر میں واقع ہے۔ گاؤں باغسر یہ گاؤں ضلع بھمبر کی تحصیل سماہنی میں واقع ہے،جو کہ بھمبر شہر سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ باغسر گاؤں لائن آف کنٹرول کے قر...
اصلی چہرہ

اصلی چہرہ

تصویر کہانی
تحریر: راجہ ندیم سرور  سیاست اور جمہوریت کے نام پر اس ملک میں کیا کیا ہوتا رہا۔ اگرچہ سب لوگ باخبر تھے مگر زبان سب نے سی رکھی تھی صرف اس لیے کہ کہیں وہ بھی نشانہ نہ بن جائیں۔ کہیں تعلقات خراب نہ ہو جائیں۔ کہیں مل کر کھانے کا یہ قصہ تمام نہ ہو جائے۔ یہ تباہی ٩٠ کی دہائی سے پہلے ہرگز نہ تھی۔ نوے کی دہائی کے ساتھ شروع ہونے والی قتل و غارت۔ غنڈہ گردی۔ بھتہ خوری۔ رشوت ستانی۔ اقربا پروری۔ منی لانڈرنگ اور سفارش کلچر نے سب کچھ یکسر بدل کر رکھ دیا۔ دنیا اکیسوی صدی میں جب داخل ہو رہی تھی تو ایک بدلی ہوئی دنیا۔ تعلیم و تربیت۔ سائنس و ٹیکنالوجی۔ علوم و فنون جبکہ ہم اوپر بیان ہونے والی ہولناکیوں کو لے کر داخل ہوئے۔ چنانچہ دنیا نے ترقی کی جدید خطوط پر اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی استوار کی۔ چاند پر کمندیں ڈالیں۔ طب اور سائنس میں نئی نئی ایجادات کیں اور پوری دنیا کے انسانوں کی زندگی کو ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact