Saturday, May 11
Shadow

اردو

سلیم الرحمان سے ملاقات / کہانی کار: جہانگیر تاج مغل

سلیم الرحمان سے ملاقات / کہانی کار: جہانگیر تاج مغل

تصویر کہانی
تحریر و تصویر: جہانگیر تاج مغلگزشتہ سال ڈاکٹر سلیم الرحمن پاکستان تشریف لاۓ ۔ جب انھوں نے آمد کی خبر دی تو دل ان سے ملنے کو بے تاب ہونے  لگا ۔ چوں کہ طویل مسافت کر کے پاکستان پہنچے تھے ۔ ایک طرف طویل سفر کی تھکاوٹ اور دوسری طرف رشتہ دار مسلسل ملاقات کو آرہے تھے تو اس نا چیز کو غالباً دس دن بعد شرف ملاقات حاصل ہوا ۔ خیر ایک دوپہر ان کا ہنگامی فون آیا کہ دو دن بعد میری واپسی کی فلائیٹ ہے آج تین ساڑھے تین بجے آپ آجائیں ۔  تو میں غالباً ساڑھے تین بجےان کے مغل پورہ میں واقع گھر کو تلاشتا پہنچ گیا ۔ بہت تپاک سے ملے اور کم و بیش دو گھنٹے تک ان سے گفتگو ہوئی جس کی میں نے ریکارڈنگ بھی کی تھی ۔بعد ازاں ان سے دسخط شدہ کتابیں تحفے میں ملیں ملیں اور میں نے انھیں مقالے کی کاپی پیش کی تو بہت خوش ہوۓ ۔                       سلیم الرحمن صاحب کا شمار نئی شاعری کے ایک معتبر حوالے کے طور پر ہوتا ہے ۔ وہ  اس ...
کتاب: نیکی کا پھول تبصرہ: دانش تسلیم

کتاب: نیکی کا پھول تبصرہ: دانش تسلیم

تبصرے
تبصرہ: دانش تسلیمکتاب "نیکی کا پھول" بچوں کے لئے لکھی گئی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ جو کراچی سے تعلق رکھنے والی صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنفہ حفصہ محمد فیصل کی تصنیف ہے۔مصنفہ 2002ء سے اسلامی مضامین، کالم، کہانیاں اور افسانے لکھ رہی ہیں۔ تقریبا ابھی تک مصنفہ کی 300 کہانیاں، 150 کالم اور 100 مضامین مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ حفصہ محمد فیصل تین کتب کی مصنفہ ہیں۔ جنت کے راستے، باتیں اعضاء کی اور نیکی کا پھول۔کتاب کا انتساب مصنفہ نے اپنے بہت پیارے تین بچوں کے نام کیا ہے۔ کتاب پر بچوں کی ایوارڈ یافتہ مصنفہ تسنیم جعفری صاحبہ نے تبصرہ بھی لکھا ہے جو کتاب میں موجود ہے۔ پیش لفظ میں مصنفہ نے اپنے قلمی مقاصد کا بھی ذکر کیا کہ وہ معاشرے کی بھلائی کے لئے لکھ رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ہمارے معاشرہ میں اچھائی عام ہوجائے اور برائی کا خاتمہ ہو جائے۔ کتاب کے آخر میں بچوں کے لئے "سرگرمیاں" کے نام سے ...
عرضِ حال بحضور سرورِ کائنات ۔۔۔!!!کلام: کوکب علی  

عرضِ حال بحضور سرورِ کائنات ۔۔۔!!!کلام: کوکب علی  

شاعری
کلام: کوکب علی راولپنڈی پاکستان  میرے رسول کریم جیسے دعائیں قیمتی پھول ہوتی ہیں اور پھول کبھی  پتھر نہیں بن سکتے  اسی طرح  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جہاں سے  اس جہاں میں پکارنا  ایک لافانی پکار ہے  آپ کے در پر ہماری دستکوں کے نشاں  ہمیشہ باقی رہیں گے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہونٹوں نے بھی شاید  ویسی ہی مشقت  کرنے کی  کوشش کی ہے  جو اماں ہاجرہ کے پیروں نے کی تھی  ہم ان کے تلوؤں کی خاک سے بھی کمتر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری دعاؤں کی تعبیریں  اماں ہاجرہ کے پیروں کے تلوؤں پر قربان  ...
Precious Box written by Anam Tahir

Precious Box written by Anam Tahir

افسانے
انعم طاہر اُس نے گھر میں ایک کمرہ صرف اپنی پرانی چیزوں کے لیے مختص کر رکھا تھا۔ وہ اپنی پرانی ڈائیریاں، دوستوں کے بھیجے کارڈز اور تحفے، حتیٰ کہ بہت سی ناقابلِ استعمال اور ٹوٹی پھوٹی اشیاء یہاں بہت پیار سے جمع کرتی تھی۔ اُسے اِس کمرے میں موجود تمام چیزوں سے بےحد لگاؤ تھا۔ یہیں کمرے میں درمیانے سائز کا ایک کارٹن بھی رکھا تھا جس پہ کالے رنگ کے مارکر سے پریشیس باکس لکھا تھا۔ وہ کارٹن بہت حد تک بھر چکا تھا۔ بھرتا کیسے نہ؟ بہت سالوں سے وہ صوفی کے استعمال میں تھا۔ وہ مہینے دو مہینے بعد اِس میں چند کاغذ پھینک جایا کرتی تھی۔ وہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ وقت ملنے پر وہ اِن کاغذوں کو استعمال میں لے آئے گی۔ آج وہ اِسی مقصد کے لیے اِس اسٹور نما کمرے میں آئی تھی۔  اُس نے غور کیا کہ کارٹن واقعی بھر چکا تھا۔ کچھ کاغذ باہر کی طرف نکلے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اُس کے شوہر حسن نے ایک ...
کتاب: سائنسی جنگل کہانی ۔تبصرہ :انگبین عُروج

کتاب: سائنسی جنگل کہانی ۔تبصرہ :انگبین عُروج

تبصرے
تبصرہ :انگبین عُروج(کراچی)۔مُصّنفہ کا تعارفمحترمہ تسنیم جعفری ادبِ اطفال کے اُفق پر ایسا روشن ماہتاب ہیں جن کا نام یقیناً کسی تعارف کا محتاج نہیں۔مُصنّفہ کی شخصیت اور ادب کے لیے ان کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترداف ہے۔آپ کی مثبت شخصیت عجز و انکساری،نرم خوئی اور اخلاق و کردار میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔گہوارۀ علم و ادب کا روشن و تاباں چراغ محترمہ تسنیم جعفری جنہیں پاکستان میں"ادبِ اطفال میں سائنس فکشن" کا بانی کہا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا۔فی زمانہ محترمہ تسنیم جعفری کا شمار پاکستان میں ادبِ اطفال کی خدمات اور ترویج کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنے والے چند ایک بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے۔محترمہ تسنیم جعفری کا تعلق پاکستان کے علم و ادب سے منسلک شہرِ لاہور سے ہے۔آپ عرصۀ دراز سے شعبۀ تدریس سے وابستہ ہیں،یہی وجہ ہے کہ قوم کے ننھے معماروں اور نوجوانانِ وطن سے بہت گہرا قلبی و ...
بین کرتی آوازیں/ میں تانیثیت اوروجودیت کااظہار

بین کرتی آوازیں/ میں تانیثیت اوروجودیت کااظہار

تبصرے
محمدشاہدحفیظشعبہ اردو،گورنمنٹ گریجویٹ کالج میلسی (پاکستان)        نسترن احسن فتیحی معروف محقق،نقاد ،ناول وافسانہ نگارہیں۔آپ سمستی پور،بہار(انڈیا)میں سید محمداحسن کے گھرپیداہوئیں۔۱۹۸۶ء میں ایم۔اردو کیااورگولڈ میڈلسٹ قرارپائیں۔۱۹۹۱ء میں پنجاب یونیورسٹی (چندی گڑھ) سے پی۔ایچ۔ڈی کیا۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے پروفیسر علی رفادفتیحی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں تو علی گڑھ (یوپی)میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔نسترن احسن فتیحی بنیادی طورپرناول نگار ہیں۔تاہم انھوں نے "ایکوفیمینزم اور عصری تانیثی اردوافسانہ"(۲۰۱۶ء)سے تحقیق وتنقید کے میدانِ کارزار میں قدم رکھا۔اس کتاب کویوپی اردواکیڈمی سے پہلاانعام حاصل ہوااوربہاراردواکیڈمی سے دوسراانعام ملا۔تانیثیت اورتانیثی افسانے پر مشتمل یہ اہم کتاب( ۲۰۱۸ء) عکس پبلی کیشنز کراچی (پاکستان)سے بھی شائع ہوچکی ہے۔فکشن کے میدان میں ان کا پہلاناول "...
افسانہ: ہم کون ہیں؟ تحریر:  انعم طاہر

افسانہ: ہم کون ہیں؟ تحریر:  انعم طاہر

افسانے
تحریر:  انعم طاہربظاہر وہ دونوں چائے کی چسکیاں لے رہے تھے لیکن ان کی ساری توجہ اپنے پانچ سالہ بیٹے ریان کی طرف تھی جو کافی دیر سے اپنی اسکول کی نوٹ بک ہاتھ میں پکڑے چند سوالات کے لکھوائے گئے جوابات یاد کر رہا تھا۔ ایک جواب کو وہ کئی کئی بار دہرا رہا تھا اور اسکی کوشش تھی کہ جو جواب وہ تیار کر رہا تھا، اسکا ایک لفظ بھی لکھوائے گئے جواب سے مختلف نہ ہو۔ جہاں صنم اپنے بیٹے کی مہارت دیکھ کر دل ہی دل میں صدقے واری جارہی تھی وہیں سعد یہ دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوگیا تھا۔مروجہ تعلیمی نظام سے وہ ذہنی طور پر اسی طرح دور تھا جس طرح مروجہ تعلیمی نظام تعلیم کے اصل مقصد سے دور ہے۔ وہ اکثر سوچتا ' تعلیمی ادارے کیا ہیں ؟ جیل ہیں جہاں سلاخوں کی پیچھے کئی خواب سسکیاں بھرتے ہیں؛ طلباء بے قصور قیدیوں کی مانند خلاؤں کو گھورتے درحقیقت صرف تالا کھلنے کا انتظار کرتے ہیں؛ خاکی وردی والی سوچ کے اساتذہ ہاتھوں ...
عباس علی شاہ کے مقالہ پر نگاہِ عاجزانہ/ آفتاب شاہ

عباس علی شاہ کے مقالہ پر نگاہِ عاجزانہ/ آفتاب شاہ

تبصرے
آفتاب شاہ سیالکوٹ ایک علمی مقالہ بغیر تحقیق اور تنقید کے ردی کی دکان ہوتا ہے۔ اور ایسی ردی کی دکانیں ملکِ خداداد میں جابجا بکھری پڑی ہیں ۔موجودہ عہد میں جہاں پر ہر شعبہ زوال کا شکار ہے وہاں پر یونیورسٹیوں میں لکھے جانے والے مقالہ جات بھی اس علت کا شکار نظر آتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ مقالہ جات تحقیقی اور تنقیدی اوصاف سے عاری نظر آتے ہیں شعبہ اُردو کے غبی اور گپی اساتذہ کرام اپنی رقم کھری کرنا چاہتے ہیں جبکہ طلباء و طالبات ڈگری کے حصول کے لیے آسان پسندی کا شکار نظر آتے ہیں اس آسان پسندی میں اساتذہ کرام کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو گلی محلوں کے شعراء اور ادیبوں پر مقالہ جات لکھنے کی اجازت دے کر وقت ٹپانے کی خوبصورت روائت کو نبھاتے چلے جارہے ہیں شاگردانِ ارسطو و افلاطون چاہتے ہیں کہ انہیں ایسا موضوع مل جائے جس پر زیادہ محنت درکار نہ ہو اور چند دنوں میں مقالے کی ہنڈیا تیار کر کے اساتذہ کرام کے س...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact