Thursday, May 2
Shadow

اردو

آئینے کے اس پار/تبصرہ: دانیال حسن چغتائی

آئینے کے اس پار/تبصرہ: دانیال حسن چغتائی

تبصرے
دانیال حسن چغتائیپنجاب کا صنعتی شہر فیصل آباد صنعتی ترقی کے حوالے سے تو جانا جاتا ہے لیکن زبان، رسم و رواج، علم و ادب کے حوالہ سے نام یہاں خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔  صنعتی پس منظر سے وابستہ اس خطہ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ اِسے نثر نگاری کے حوالے سے مہوش اسد شیخ کے رُوپ میں ایک تابندہ کردار میسر آگیا ہے۔مہوش اسد شیخ نے پندرہ افسانوں پر مشتمل اور ایک اٹھائیس صفحات پر محیط اُردو افسانوں کا مجموعہ آئینے کے اس پار لکھ کر جہاں کہانیاں پڑھنے والے قارئین کو حیرت زدہ کیا ہے، وہاں عہدحاضر کے نقادوں کو بھی چونکا دیا ہے۔ مہوش اسد شیخ کو ادب اطفال کے حوالے سے اولاً پذیرائی ملی اور انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے یکے بعد دیگرے جس طرح تین کتب کی اشاعت کو ممکن بنایا ہے، یہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔کتاب کا انتساب صاحب کتاب نے اپنے شریک حیات کے نام کیا ہے ۔ پیشرس میں وہ اپنا مختصر ادبی سفر بیان کرتی نظر آتی ہیں ...
منزل ہے جن کی ستاروں سے آگے/ مبصرہ ۔۔۔۔۔ خالدہ پروین

منزل ہے جن کی ستاروں سے آگے/ مبصرہ ۔۔۔۔۔ خالدہ پروین

تبصرے
مبصرہ ۔۔۔۔۔ خالدہ پروین                  تعارف وتبصرہ                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مواد و ماہیت کے حساب سے کتابیں مختلف تاثیر کی حامل ہوتی ہیں ۔ بعض کتب احساس وجذبات میں تیزی لانے کا سبب ہیں تو بعض سوچ وفکر میں تبدیلی لاتے ہوئے احساسِ کمتری اور مایوسی سے نجات دلانے کا باعث ثابت ہوتی ہیں ۔ تسنیم جعفری کی کتاب " منزل ہے جن کی ستاروں سے آگے" مواد و ماہیت کے حوالے سے ایک ایسی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس نے نہ صرف اس سوچ کی نفی کی گئی ہے کہ : "پاکستان تعلیمی لحاظ سے پست معیار کا حامل ملک ہے جہاں صرف ڈگری کا حصول ہی اہمیت رکھتا ہے ۔ جہاں تحقیق ( ریسرچ) کے بجائے صرف رٹا سسٹم کو فروغ حاصل ہے۔ خواتین ناقص العقل ہیں جو صرف معاملات کو خراب کرنے کی ہی اہلیت رکھتی ہیں ۔ "بلکہ خوب صورت ادبی عنوان کی حامل کتاب کو کھولتے ہی جب فہرست  سامنے آتی ہے تو قاری مختلف شعبوں ( سائنس، آئی ٹی ، کمپیوٹر ، ...
افسانچہ: اپنے اپنے / اختر شہاب

افسانچہ: اپنے اپنے / اختر شہاب

افسانچہ
اختر شہاب        آج عید کا دوسرا دن تھا۔۔۔  شام کے وقت اس کی بہن اور بھائی  اپنے بچوں کے ہمراہ  عید ملنے آئے۔۔۔  اس کی بیوی بیماری کی وجہ سے کام نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔  سو اس کا بیٹا مہمانوں کے لئے چائے بنانے کچن میں گیا۔۔۔       بیٹےکی پھپھو نے یہ دیکھا تو اپنی محبت اور شفقت کی وجہ سے پھڑک کر رہ گئیں۔۔۔ بولیں ۔۔۔ "اسے چائے بنانا آتا ہے،  تو کھانا بھی بنا لیتا ہوگا۔۔۔  اچھا ہے لڑکوں کو کچن دیکھنا بھی آنا چاہئے۔۔۔"       پھوپھی زا د  بہنیں بھی محبت کے مارے اپنی  اپنی کرسیوں سے چپکی رہیں اور ہنسی مذاق کرتی رہیں ۔۔۔         دیکھتی تو بیٹے کی چچی بھی رہی۔۔۔ مگر چائے ختم ہوئی تو چچی روکنے کی باوجود برتن اٹھا کے دھونے چلی گئی۔۔۔  بیچاری! نئی  نئی جو تھی۔۔۔&n...
مدیرہ منزہ سہام مرزا سے حمیرا علیم کا   انٹرویو

مدیرہ منزہ سہام مرزا سے حمیرا علیم کا   انٹرویو

تصویر کہانی
حمیرا علیم منزہ سہام مرزا کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ان کی شخصیت میرے لیے کسی لیجنڈ سے کم نہیں ہے۔ انہیں میں نے ہمیشہ ایک مضبوط عورت کے روپ میں دیکھا ہے جو اپنے والد کے مشن کو بیٹا بن کر پروان چڑھا رہی ہیں۔منزہ سہام دوشیزہ اور سچی کہانیاں کی مدیرہ اعلی ،کیپٹل نیوز کی چیف ایڈیٹر  اورممبر اسٹینڈنگ کمیٹی کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز اور آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی بھی ہیں۔ : اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔آپ کا بچپن کیسا تھاآپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے؟منزہ سہام: میں دوسرے بچوں کی طرح کھیلتی نہیں تھی نہ ہی چھٹیوں میں رشتے داروں کے ہاں جاتی تھی۔بلکہ  اپنے والد سہام مرزا کے ساتھ آفس جایا کرتی تھی۔وہ میرے ساتھ کہانیاں ڈسکس کیا کرتے تھے۔مجھے شروع سے ہی اس کام سے لگاو رہا ہے۔ہمارے ادارے سے بچوں کے لیے " بچوں کا رسالہ" نامی رسالہ شائع ہوتا تھا۔میں اس میں "کوا کہانی "کے نام سے کہان...
رباب عائشہ  کی تصنیف ” سدا بہار چہرے” پر نصرت نسیم کی تاثراتی تحریر

رباب عائشہ  کی تصنیف ” سدا بہار چہرے” پر نصرت نسیم کی تاثراتی تحریر

تبصرے
تحریر: نصرت نسیمیوں تو گھر میں کئ اخبار آتے۔روزنامہ کوہستان، انجام، شہباز، حریت کراچی اور روزنامہ جنگ پڑھنے کو تو ہم سارے اخبار پڑھتے مگر  روزنامہ حریت اور جنگ ہمارے پسندیدہ تھے۔ حریت کراچی شام کو آتا۔فخر ماترے اس کے ایڈیٹر تھے ۔اور یہ بہت عمدہ اور معیاری اخبار تھا۔دوسرا روزنامہ جنگ راولپنڈی ،۔کہ اس کے بچوں کاصفحہ، بہنوں کی محفل ہمیں خاص طور پر پسند تھی۔بچوں کے صفحے کے انچارج مضطر اکبر آبادی تھے۔اور ان کا کیا کڑا معیار تھا۔کہ مشکل سے اور طویل انتظار کے بعد کوئی کہانی چھپنے کی نوبت آتی ۔بچوں کے صفحے کے بعد" بہنوں کی محفل "میں بھی شریک ہوگئے۔اس صفحے کی انچارج رباب عائشہ تھیں۔پسندیدہ اشعار، خطوط کے جواب، فیچر، انٹرویو اور بہت عمدہ مضامین پڑھنے کو ملتے۔بہت خوبصورت باتصویر یہ صفحہ ہمیں خاص طور پر پسند تھا ۔رباب عائشہ ہماری باجی تھی۔برسوں ان سے جذباتی وابستگی رہی۔پھر وقت نے زقند بھری۔ہم بھ...
مہوش اسدشیخ کی “آئینے کے پار”/مبصر عبدالحفیظ شاہد

مہوش اسدشیخ کی “آئینے کے پار”/مبصر عبدالحفیظ شاہد

تبصرے
مبصر ۔ عبدالحفیظ شاہد۔ مخدوم پور پہوڑاںانتہائی نفیس کاغذ ،عمدہ و دیدہ زیب پرنٹنگ ، شاندار ٹائیٹل اور128  بہترین صفحات پر مشتمل کتاب " آئینے کے پار " موصول ہوئی۔ کتاب آئینے کے پار پریس فار پیس جیسے معتبر ادارے سے اشاعت شدہ ہے۔  اس کی پبلشنگ  اور  پروف ریڈنگ  کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔گو کہ پیج بلیک اینڈ وائیٹ ہیں لیکن اس کی پرنٹنگ اتنی شاندار ہے دل خوش ہو جاتا ہے۔لیکن آج یقین آگیا کہ ادب کی فصل کو تروتازہ رکھنے والے لوگ  بلاشبہ پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے منتظمین جیسے ہوتے ہوں گے۔ جس کے لئے ادارہ  اور خاص طور پر  جناب ظفر اقبال صاحب بے شمار مبارک باد کے مستحق ہیں۔ایک اچھی  افسانوں کی کتاب  کو دلچسپ کرداروں ، واضح آغاز، وسط اور  شاندار اختتام کے ساتھ دلکش ہونا چاہیے۔ کہانی کو واقعات کی منطقی پیشرفت کے ساتھ اچھی طرح سے ترتیب دیا جانا چاہئ...
ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ، نیوز اینکر، ہوسٹ اور فلم میکر صوبیہ خان کا انٹرویو

ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ، نیوز اینکر، ہوسٹ اور فلم میکر صوبیہ خان کا انٹرویو

تصویر کہانی
حمیراعلیم  خیبرپختوانخوا پشاور سے تعلق رکھنے والی اٹھائیس سالہ صوبیہ خان پہلی ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ، نیوز اینکر، ہوسٹ اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔وہ پشاور کے ایک پشتون خاندان میں پیدا ہوئیں تو والدین نے ان کا نام محمد بلال رکھا۔تین بھائیوں اور دو بہنوں میں ان کا نمبر تیسرا ہے۔انہوں نے پشاور ہائر اسکینڈری اسکول نمبر 1 سے میٹرک کیا۔ایف اے کالج سے کیا۔لیکن ساتھی طالب علموں کے چھیڑنے کی وجہ سے بی اے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کیا اور اب اردو میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔وہ پچھلے پانچ سال سے ایک نجی ڈیجیٹل نیوز چینل ٹرائبل نیوز نیٹ ورک سے وابستہ ہیں۔ان کے اس مقام تک پہنچنے کی کہانی انہی سےجانتے ہیں ۔ سوال: صوبیہ  مجھے بتائیے کہ آپ کے اس مقام تک پہنچنے میں آپ کے خاندان کا کتنا ہاتھ ہے؟ جواب:جب تک والدین اپنے بچوں کو سپورٹ نہیں کرتے وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اللہ کا فضل ہے کہ نہ صرف م...
ماہم جاوید کا ناول “انتخاب” مبصر : دانیال حسن چغتائی

ماہم جاوید کا ناول “انتخاب” مبصر : دانیال حسن چغتائی

تبصرے
مبصر : دانیال حسن چغتائی "انتخاب" نامی یہ ناول پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے شائع ہوا ہے ۔ اور اسے ماہم جاوید صاحبہ نے لکھا ہے ۔  اس ناول کا انتساب مصنفہ نے اپنی والدہ اور دادی کے نام کیا ہے ۔ پیش لفظ میں وہ ان تمام لوگوں کی شکر گزار نظر آتی ہیں جنہوں نے ان کے ادبی سفر میں کسی بھی حوالے سے معاونت کی۔  ابتدا میں ناول روایتی انداز کے ڈائجسٹ ناول کی طرح محسوس ہوا لیکن جس طرح مصنفہ نے کہانی کو عشق حقیقی اور اللہ سے تعلق کی طرف موڑا وہ اپنی جگہ خاصی اہمیت کا حامل ہے ۔ اور تحریر کی پختگی نے یہ تاثر زائل کر دیا کہ یہ ان کا پہلا ناول ہے۔  ناول دراصل کہانی ہی ہے جس میں معاشرہ میں پیش آنے والے واقعات، حادثات اچھے برے ،واقعات، غمی اور خوشی کی باتوں پر مبنی کہانی کو پڑھنے والے کے لیے دلچسپی اور اس کی توجہ کو برقرار رکھنے کے لیے کہانی کا پلاٹ، کردار، جگہ، کرداروں کی ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact