Monday, May 20
Shadow

آرٹیکل

دادا کی دوربین/ تحریر: نگہم فاطمہ

دادا کی دوربین/ تحریر: نگہم فاطمہ

آرٹیکل
از قلم: نگہم فاطمہمیرا بچپن عام خیال بچوں کی طرح نہیں تھا۔ میری جماعت میں پڑھنے والے بچے بچیوں کے خواب تھے کہ کسی نے ڈاکٹر بننا تھا، کسی نے جہازوں کو ہوا میں گوتے کھلانے تھے، کسی نے تعلیم کے فروغ میں خدمات انجام دینی تھی، تو کسی نے مادر ملت کے لیے جانوں کی قربانی دینی تھی۔ چھوٹی، ننھی آنکھوں کے بڑے خواب۔ لیکن میں واحد بچی تھی جو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ہمیشہ کشمکش کا شکار رہتی تھی کہ "بیٹا! آپ بڑی ہو کر کیا بنیں گی؟"۔ میرے ذہن میں ہر دم ایک جستجو کا نقشہ بنا رہتا تھا جس کے بھولے بھٹکے راستوں میں، میں ہمیشہ کھو جایا کرتی تھی۔ مجھے چاند دیکھنا بہت پسند تھا۔ میرے گھر میں میرے دادا کی ایک دور بین ہوا کرتی تھی جو وہ جرمنی سے لائے تھے۔ میں اکثر رات کی پہروں میں بیٹھ کر اس دور بین سے چاند کے گڑھوں کا مشاہدہ کیا کرتی تھی۔ اس دور بین سے صرف چاند ہی دکھتا تھا۔ اگلے ستاروں تک اس کی رسائی نہیں...
میرے بچپن کی خوب صورت یادیں/نصرت نسیم

میرے بچپن کی خوب صورت یادیں/نصرت نسیم

آرٹیکل
نصرت نسیم         جاڑے کی یخ بستہ رات، گرم لحاف اوربچپنے کی پکی نیند اورایسےمیں دورسےآتی ہوئی پرسوز آواز اورخوبصورت لَے میں نعت کی آواز سماعت میں رس گھولتی دل میں اترجاتی۔ پھر دھیرے دھیرے آواز قریب آکر گھر کی دہلیز تک آجاتی، "اٹھو روزہ دارو سحر ہو گئی" اس کے ساتھ ہی گہری نیند سے بیدار ہو کر لحاف کی جھری سی بنا کر صورت حال کاجائزہ لیتے۔ دور سےپراٹھے بننے کی ٹھپا ٹھپ آوازیں ،اور توے پر سےاصلی گھی کےپراٹھوں کی خوشبو بستر چھوڑنے پر مجبور کر دیتی تولحاف ایک طرف پھینک کر چولہے کے پاس رکھی پیڑھی پر بیٹھ کر اعلان کرتے کہ ہم نے بھی روزہ رکھنا ہے۔گھروالے منع کرتے کہ جاؤ جاکر سوجاؤ، مگر ہم ضدکرتےکہ نہیں ہم روزہ ضرور رکھیں گے۔ یوں سحری کھانے کے شوق میں پتہ نہیں کس عمر سےروزے رکھنے شروع کیے۔        خیر وہ تھے بھی سردیوں کے روزے، آدھا دن تو سکول میں گزر جاتا، ...
دو قومی نظریہ کی حقانیت کا فیصلہ کن دن |  ڈاکٹرساجد خاکوانی

دو قومی نظریہ کی حقانیت کا فیصلہ کن دن |  ڈاکٹرساجد خاکوانی

آرٹیکل
ڈاکٹرساجد خاکوانی معلوم تاریخ میں سترہ رمضان المبارک 2ھجری میدان بدر وہ پہلا موقع تھا جب دوقومی نظریہ وجودمیں آیا تھا۔اس دن ایک ہی نسل،ایک ہی قوم،ایک ہی زبان،ایک ہی علاقے اور ایک ہی تہذیب و تمدن و معاشرت و مشترک تاریخ رکھنے والے صرف نظریےکی بنیاد پر باہم برسر پیکار تھے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ عقیدہ کی قوت رگوں میں بہنے والے خون سے کہیں زیادہ طاقتورہوتی ہے۔اسی عقیدے نے حضرت نوح علیہ السلام اوران کے بیٹے کے درمیان حدفاصل قائم کردی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کے والد کے درمیان بھی دوقومیتوں کا تعین کرنے والا فیصلہ کن عنصر عقیدہ ہی تھا۔ ماضی قریب میں یہ نظریہ انیسویں صدی کےوسط میں فکری طاقت کے ساتھ ایک بار قرطاس تاریخ پر نمودارہوااور اس کی گونج شرق و غرب میں سنائی دینے لگی۔1917ءمیں مذہب کا اختلاف ہوتے ہوئے روس کی ریاستیں باہم ایک ہو گئیں تویہ عقیدہ ہزیمت کا شکار ہوگیا۔1947ء میں...
زیارت کا سفر / حمیراعلیم

زیارت کا سفر / حمیراعلیم

آرٹیکل
حمیراعلیم  جب میری شادی ہوئی تو میں جاب کر رہی تھی اس لیے دو ماہ کی چھٹی لے لی۔لیکن میاں کے آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے کی وجہ سے صرف دو دن کی چھٹی ملی۔اب میں گھر پہ اپنے سسرال کے ساتھ ہوتی اور میاں صاحب آفس میں ۔اسی دوران میری نند نے زیارت جانے کا پروگرام بنایا۔ہر سال جب ان کے بچے چھٹیوں میں ان کےگھر کوئٹہ میں اکھٹے ہوتے ہیں تو وہ لوگ زیارت ضرور جاتے ہیں ۔ انہوں نے مجھے اور میرے شوہر کو بھی چلنے کا کہا۔مگر جون کے آخری دنوں میں آڈٹ والوں کی سختی آئی ہوئی ہوتی ہے اور کبھی کبھار تو رات کے 12 بجے واپسی ہوتی ہے۔اس لئے انہیں چھٹی نہ ملی۔ لیکن مجھے بھیج دیا کہ تم گھر پر بور ہوتی ہو گی جاؤ ان کے ساتھ تھوڑا گھوم پھر آو۔میں،  جیٹھانی اور ان کا بیٹا آپی کی فیملی کےساتھ زیارت جانے کے لیے تیار ہو گئے۔      جب میں نے ان سے پوچھا" زیارت کیسا ہے ؟" تو سب نے بول...
میرے غم کو ایک نئی سوچ نیا رخ ملا، ہما  ساجد

میرے غم کو ایک نئی سوچ نیا رخ ملا، ہما  ساجد

آرٹیکل
تاثرات: ہما ساجد۔ زندگی اور موت کے درمیان کا سفر۔ ازل سے ابد کا سفر۔ کچھ پانے اور کھونے کا سفر۔ بہت سے نئے رشتوں کی شمولیت، اور بہت ہی پیاروں کے کھونے کا سفر۔ بچپن سے لڑکپن سے بڑھاپے کا سفر۔  دن سے رات،  چھاوں سے دھوپ، اور بہار سے خزاں کا سفر۔ امید اور ناامیدی کا سفر۔ غم اور خوشی کا سفر۔ وہ سفر، جس میں ہر شخص ایک چھاپ چھوڑ جاتا ہے، ھمارے دل، دماغ، شخصیت اور روح پر۔ اک نا ختم ہونے والا طویل سفر، یا شاید چند لمحوں کا سفر۔ اسی سفر پر، ہم سب نے اپنی زندگی میں بہت سے پیارے رشتوں کو کھویا ۔ ۔ اور ہر مرتبہ دل غم سے بھر گیا ۔۔ ہماری زندگی میں آنے والا  ہر غم، ایک کالے نقطے کی طرح، ہماری آنکھوں، دل، دماغ اور زندگی پر حاوی ہو جاتا ہے اور ہماری، اس سے آگے اور پیچھے دیکھنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتا ہے۔ زندگی رک جاتی ہے، اس کالے نقطے کے گرداب ...
مادری زبان میں تعلیم

مادری زبان میں تعلیم

آرٹیکل
تحریر: مظہر اقبال مظہر ہم اس زبان کو کبھی نہیں بھولتے جو ہماری ماؤں نے ہمیں سکھائی ہوتی ہے۔ ماں بولی کے ساتھ ہمارے اس لازوال رشتے کی ان گنت تخلیقی، نفسیاتی، لسانی، ذہنی، جذباتی اور جبلتی جہتیں ہیں۔ ان سب پر الگ الگ انداز سے بہترین ریسرچ ہو چکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم سیکھنے کے عمل میں اور خاص طور پر زندگی کے ابتدائی سالوں میں مہارتوں کے حصول میں اپنی پہلی ابلاغی زبان کے ساتھ سہولت محسوس کرتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشی، معاشرتی اور سماجی تقاضے اس سہولت سے مطابقت نہیں رکھتے اس لیے ہم اس قدرتی ابلاغی صلاحیت کا بہترین فائدہ نہیں اٹھاتے۔ یوں ہماری ذہنی، فکری، علمی اور تخلیقی ترقی ایک جبری تعلیمی حصار کے اندر فروغ پاتی ہے۔ ویسے تو زبان اشاروں کنایوں کی بھی ہوتی ہے مگر عمومی طور پر زبان سے مراد وہ ذریعہ اظہار ہے جو بولنے، لکھنے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے ہاں زبان دانی کے حوالے سے ب...
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی/ تحریر: نسیم اختر

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی/ تحریر: نسیم اختر

آرٹیکل
تحریر: نسیم اختر ”قائداعظم محمد علی جناح نے فر مایا“ ”پاکستان اسی دن وجود میں آگیاتھا جس دن پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا“ مگر مسلمانوں کو سمت کا تعین کرنے اور جدوجہد آزادی کے لیے متحد ہونے میں پورا سو سال کا عرصہ لگا ۔جب قومیں عمل کی دولت سے خالی ہو جائیں اور اپنی کوتاہیوں کو سدھارنے کی بجاۓ اس کا جرم دوسروں کے کھاتے میں ڈالتی ہیں تو منزل کی جانب سفر اور بھی مشکل اور سسست ہو جاتا ہے۔ تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک کا سفر ایک بہت ہی کھٹن اور صبر آزما مرحلہ تھا ۔ مگر اپنے لیے ایک اسلامی مملکت کا خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں آزادی کے خواب کی تکمیل سے چمک رہی تھیں ۔ جیسے جیسے مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا انکا عزم اور بھی جوان ہوتا گیا ۔ انکے سامنے اپنی ثقافت کی پہچان، اپنی مذہب کی حفاظت ،اپنےزبان وادب کی بقا،قومی تشخص اپنا قومی ورثہ اور اپنا نظام تعلیم ایسی چیزیں تھیں جن کی حفاظت کے لیے برطانوی سا...
عزت نسواں/ تحریر : حائقہ نور

عزت نسواں/ تحریر : حائقہ نور

آرٹیکل
تحریر : حائقہ نور۔ لاہور۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو کمزور کہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ایک عورت کچھ نہیں کر سکتی یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ عورت مرد کے بغیر کچھ نہیں وہ مرد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی ایسا کیوں؟ میں نے تو آج تک نہیں یہ کہیں پڑھا کہ کسی فلسفی نے کہا ہو کے عورت مرد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔یہاں تک قرآن مجید تک میں یہ نہیں ہے کہ عورت مرد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی اور وہ مرد سے کمتر ہے جس کی بنا پر عورت کی عزت نہیں کرنی چاہیے اور اسے کمزور کہنا چاہیے۔ہمارے مذہب اسلام اور ہماری پاک کتاب قرآن مجید میں بھی ہر عورت کی عزت کا حکم دیا گیا ہے اور کہیں پر بھی کمزور نہیں کہا گیا۔زچگی کہ وقت جس تکلیف سے اور موت کے منہ سے گزرتی ہے اس کا اندازہ مرد حضرات نہیں لگا سکتے۔جب عورت زچگی کے تکلیف اور موت کی کشمکش سے گزر کر بچے کو جنم دے دیتی ہے اور یہ مرحلہ اس کی زندگی میں کئ بار آتا ہے اس چیز ک...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact