Thursday, May 9
Shadow

آرٹیکل

دیدہء بینا۔(بریل سسٹم)                 تحریر:آرسی رؤف۔  

دیدہء بینا۔(بریل سسٹم)                 تحریر:آرسی رؤف۔  

آرٹیکل
تحریر:آرسی رؤف          چار جنوری سن اٹھارہ سو نو کو  فرانسیسی گھرانے میں ایک بچے نے جنم لیا جس کانام لوئس بریل رکھا گیا۔بچہ ہر لحاظ سے تنومند تھا۔ اس کا باپ گھوڑوں کی زین سلائی کرنے کا کام کرتا تھا ۔تین سال کی عمر میں اپنے والد کے ٹول باکس سے چمڑے کی سلائی کرنے والے سُوئے کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس نے وہ سُوا اپنی آنکھ میں مار لیا۔جس کی بدولت اس کی آنکھ کی بینائی زائل ہوگئی۔شومئی قسمت اگلے تین ماہ کے اندر دوسری آنکھ تک انفیکشن پھیل گیا اور  سوزش  کا اثر دوسری آنکھ کو بھی متاثر کر گیا اب لوئس بریل  وہ ننھا سا بچہ، اپنی دونوں  ہی آنکھوں سے محروم ہوچکا تھا۔ عزم و ہمت کی مثال یہ بچہ جسے دنیا آج بریل سسٹم کے بانی کے نام  سے جانتی ہے ۔اس نے صرف گیارہ برس کی عمر میں  بریل سسٹم پر کام شروع کر دیا۔اس وقت تک نابینا افراد کی تعلیم کے حصو...
تضیع اوقات سے اجتناب / تحریر : سحر شعیل

تضیع اوقات سے اجتناب / تحریر : سحر شعیل

آرٹیکل
تحریر: سحر شعیلمیرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کسی بھی محفل یا دعوت پر میں دیئے گئے مقررہ وقت پر پہنچ جاتی تھی اور ہمیشہ ایسا ہوتا کہ پروگرام کا دور دور تک پتہ نہ ہوتا تھا۔بلکہ اکثر جگہوں پر تو شاید اس وقت انتظامیہ بھی اپنے کاموں میں لگی ہوئی ملتی تھی۔ایک محفل میں اپنی اس کا عادت کا ذکر چند ہم عصروں سے کیا تو ایک قہقہے کے ساتھ یہ جواب ملا کہ کسی بھی جگہ پر لیٹ جانا آج کل ایک  ٹرینڈ بن چکا ہے۔ ہم کتنی آسانی سے خامیوں کو ٹرینڈ کا نام دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں ۔گویا جو ٹرینڈز کے مطابق نہیں چلتا وہ درست ہوتے ہوئے بھی دقیانوسی کہلائے گا ۔انفرادی اور اجتماعی طور پر پائی جانے والی خامیوں میں یہ بھی قومی  خطا کے طور پر سامنے آئی ہے کہ ہم وقت کی قدر نہیں کرتے۔ہر جگہ لیٹ  ہونا  ماڈرن ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ہماری روزمرہ انفرادی زندگی کی بات کریں تو روزانہ کتنے ہی قیمتی منٹ ہم ایسے ہی بے مقصد...

تبصرہ کیسے کیا جاتا ہے؟؟تبصرہ نگاری کا فن سیکھیں انور غازی

آرٹیکل
انور غازی)”تبصرہ نگاری“ ایک دلچسپ فن ہے۔ تبصرے ملکوں پر بھی کیے جاتے ہیں اور نظاموں پر بھی۔ تبصرے شخصیات پر بھی کیے جاتے ہیں اور کتابوں پر بھی۔ تبصرے حالات پر بھی کیے جاتے ہیں اور موسموں پر بھی.... تبصرہ کائنات میں موجود ہر ہر چیز، ہر ہر کام اور ہر ہر شے پر ہوسکتا ہے۔یاد رکھیں کہ تبصرے کی بیسیوں اقسام ہیں اور تبصرہ کرنے کے کئی مختلف انداز ہیں۔ تبصرے کی کوئی بھی قسم ہو اور تبصرے کا کوئی بھی انداز ہو، لیکن ایک بات قدرِ مشترک ہے کہ تبصرہ نگار کا ذہین فطین، وسیع المطالعہ، گہری نظر، حاضر جواب، گرم سرد چشیدہ، ماہر، پڑھا لکھا، تیزطرار، قادر الکلام اور فی البدیہہ کہنے.... جیسی صفات کا حامل ہونا ضروری ہے۔مثال کے طور پر آپ کسی کی ناک پر تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو کم از کم آپ کو ناک کی قسمیں معلوم ہونا ضروری ہےں کہ ناک کتنے انداز کی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پکوڑا ناک، چپٹی ناک، ستواں ناک، ڈڈو ناک، اونچی...
ریز گاری کا دوسرا پڑاؤ، تحریر: ارشدابرار ارش

ریز گاری کا دوسرا پڑاؤ، تحریر: ارشدابرار ارش

آرٹیکل
تحریر: ارشد ابرار ارشلکھتے ہوۓ کوئی قلم کار اپنی کہانی کا مقدر نہیں جانتا بالکل جیسے آپ اور میں اپنے آئندہ کل بلکہ اگلے پل سے بھی بے خبر ہیں ۔کوئی کہانی کار نہیں جانتا کہ قاری اُس کے کرداروں کو پلکوں پر بٹھاۓ گا یا راندہ درگاہ ٹھہراۓ گا ۔پا کر بھی بے توجہی کی موت مر جاۓ گی یا پھر اُس کم گو شخص کی مانند زندہ رہے گی جسے بھری محفل میں بھی شمار نہیں کیا جاتا ۔ دورانِ اشاعت میرا خیال تھا کہ “ریزگاری” اپنا کتابی قالب پا کر بھی بے توجہی کی موت مر جاۓ گی یا پھر اُس کم گو شخص کی مانند زندہ رہے گی جسے بھری محفل میں بھی شمار نہیں کیا جاتا ۔ فلم یا ڈرامے کے اُن اضافی کردارں کی طرح جو مرکزی اداکاروں کی کہانی مکمل کرنے کیلیے دو چار لمحوں کیلیے سکرین پر نمودار ہو کر ہمیشہ کیلیے پسِ پردہ چلے جاتے ہیں ، میری” ریزگاری” بھی چار چھ لوگوں کی توجہ سمیٹے گی ،  ہر نوآموز قلمکار کی طرح دعاٶں ، نیک تمناٶں اور م...
دو روزہ ادبی کانفرنس کی روداد تحریر ۔حافظ ملک جمشید

دو روزہ ادبی کانفرنس کی روداد تحریر ۔حافظ ملک جمشید

آرٹیکل
تحریر ۔حافظ ملک جمشیدہفتہ کی دن کا ایک خاص حصہ ہمیشہ اتوار کے شیڈول کو سوچنے میں گزر جاتا ہے کہ یہ اتوار اور ہفتہ کی شام کدھر گزرے گی ۔مگر اس دفعہ کا ویک اینڈ پہلے سے بک ہو چکا تھا کیونکہ دو روزہ ادبی کانفرنس کے لیے اپنے ادبی ہم سفر ابن اشرف کے ہمراہ اسلام آباد جانا تھا جس کے لیے ایک ماہ قبل ہی بکنگ کروا چکے تھے ۔سو ہفتہ کو سویرے ہی ناشتہ کر کے اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گت تا کہ پروگرام کے شروع ہونے سے قبل ہی ہہنچ کر تازہ دم ہو سکیں اور ابتدا ہی سے ہروگرام کی رونقیں سمیٹ سکیں۔ خیر سفر بھی ہو چلا اور پروگرام میں بھی بخیریت پہنچ چکے ۔ظہر کی نماز کے بعد انتظامیہ کی جانب سے پرتکلف ظہرانے سے مہمان نوازی کا آغاز ہوا اور اس کے بعد پروگرام اپنی ابتدائی کاروائی کی جانب چلنے کے لیے محو سفر ہوا۔ حسب ترتیب تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبولؐ کے بعد پراوگرام کا باقائدہ آغاز ہوا ۔ابتدا میں دائرہ علم و ...
میری “ریزگاری” آپ کی منتظر ہے / تحریر  : ارشد ابرار ارش

میری “ریزگاری” آپ کی منتظر ہے / تحریر  : ارشد ابرار ارش

آرٹیکل
تحریر  : ارشد ابرار ارش عظیم مارکیز فرماتے ہیں   " ایک ادیب ، غرقاب شدہ جہاز کے ملاح کی طرح ، سمندر کے بیچوں بیچ بالکل تنہا ہوتا ہے ، اس پیشے کی تنہائی کسی بھی دوسرے پیشے کی تنہائی سے بڑھ کر ہے کہ جب آپ لکھ رہے ہوں تو کوئی بھی شخص آپ کی مدد نہیں کرسکتا " یقین کیجیے یہی آخری سچ ہے دوستو ۔ کسی بھی قلمکار کیلیے اپنی ذات کی پرتیں آشکار کرنے سے بڑھ کر کارِ دشوار شاید کوٸی نہ ہو ۔ میں کون ہوں اور کیا ہوں میں ۔۔۔؟ اس سے قطعِ نظر اپنی   ” ریزگاری “ کی صورت اب آپ کے ہاتھوں میں موجود ہوں ۔ یہ ریزگاری ہے ۔ میرے پانچ سالوں کے رتجگے،  میری کچی پکی نیندیں اور میرے خواب ہیں۔  وہ خواب جو اِن جاگتی آنکھوں نے دیکھے تھے اب اوراق کا پیرہن اوڑھ کر تعبیر پا چکے ہیں ۔  اوراق کے وہ سفید پیرہن کہ جن پر کالے سیاہ حروف سے کشیدہ کاری کرتے ہوۓ میں نے اپنی انگلیو...

اکیسویں صدی میں پیشہ ورانہ مہارت اور بامقصد تعلیم/ تحریر: فرحانہ مختار

آرٹیکل
تحریر: فرحانہ مختارتیزی سے بدلتے وقت اور انفارمیشن کے سیلاب نے مقصدیت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ تعلیم معلومات کو ذہن میں جذب کرنے یا کاغذ پر چھاپ کر نمبر لینے کا نام نہیں۔تعلیم کا مقصد راستہ دکھانا اور روشنی کرنا ہے۔ سوچ کے در وا کرنا اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔تعلیم و تدریس کے عمل کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہو گا تاکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی کو تعلیمی میدان میں بطریقِ احسن استعمال کیا جا سکے۔جدید دور کی تعلیمی، معاشی، معاشرتی، ضروریات سے نبرد آزما  کرنے کے لئے آج کے معلم کو اپنی "تعلیمی فلاسفی" کو ازسرِ نو ترتیب دینا ہوگا۔ اس ضمن میں جدید دور کے حالات و واقعات اور ضروریات کے پیشِ نظر معلم کو اپنے فرائض  کو بھر پور انداز سے سوچنا اور سمجھنا ہوگا۔ معلم کو جائزہ لینا ہوگا کہ وہ کیوں پڑھا رہا ہے؟ کیا پڑھا رہا ہے؟  طلباء کو کتاب پڑھانا چاہتا ...
جنگل کا پھُول/ تحریر: محمدجاوید انور

جنگل کا پھُول/ تحریر: محمدجاوید انور

آرٹیکل
/ محمدجاوید انور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ لوگ جنگل میں کھلے پھول کی مانند ہوتے ہیں۔ اُن کی خوب صورتی اگرچہ اپنی جگہ پورے منظر کو دل کش بنا رہی ہوتی ہے لیکن انسانی آنکھ کا وہاں تک رسائی پانا اتفاق یا حادثے کا منتظر ہوتا ہے ۔بہرحال جنگل کے پھول کی خوب صورتی فطری ، اصلی اور البیلی ہوتی ہے۔ان چھُوئی اور خالص۔کچھ ایسا ہی ارشد ابرار ارش کی افسانہ نگاری کے ساتھ ہے ۔تونسہ شریف کے نواحی گاؤں میں افسانہ نگاری کا یہ ادھ کھلا پھُول  اپنی چھب دکھا رہا ہے ،خُوشبُو بکھیر رہا ہے اور روشن مستقبل کی نوید سنا رہا ہے ۔ارش بہترین ، معیاری زبان استعمال کرتے ہوئے زیادہ تر راست بیانیہ میں عام لوگوں کی عام کہانیاں لکھ کر انہیں خاص بناتا ہے ۔اس کے کردار ہمارے اردگرد ہی سے لئیے ہوتے ہیں ۔اس کی کہانیوں کے واقعات کوئی انوکھے یا ان کہے ،ان سُنے نہیں ہوتے ۔اُس کے قلم کی طاقت اس کے تخئیل کی سُبک رفتار ہے ۔اس کی کہانیوں ک...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact