Sunday, May 19
Shadow

افسانے

کاہے کو  بیا ہی بدیس  /تحریر  فوزیہ  تاج

کاہے کو  بیا ہی بدیس  /تحریر  فوزیہ  تاج

افسانے
افسانہ نگار  : فوزیہ تاج اسکی شادی کو پندرہ سال بیت گئے تھے. پانچ بچوں کا ساتھ، بھری پری سسرال اور ایک بدمزاج، چڑچڑا، سخت گیر  قسم کا شوہر (جو ایک اکیلا ہی سو ساسوں پہ بھاری تھا) شکر ہوا کہ اسکے والدین نے اچھے وقتوں میں اسے پڑھا لکھا دیا تھا ورنہ حالات اور بھی دگرگوں ہوتے. گھریلو حالات کی وجہ سے اس نے ادھر ادھر نوکری کے لیے ہاتھ پاؤں مارے اور اللہ نے کرم کیا کہ کچھ ہی عرصہ میں وہ بحیثیت لیکچرر ایک کالج میں پڑھا رہی تھی۔عزت کے ساتھ وقت گزر رہا تھا مگر اسکی عزت اسوقت دو کوڑی کی بھی نہ رہتی جب اسکا شوہر سب کے سامنے اسکی عزت کا جنازہ نکال دیتا۔         زندگی کے سفر میں کانٹے ہی کانٹے تھے۔اسکے پاؤں چھلنی تھے۔ گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ مالی مسائل سے بھی نپٹتے وہ اکثر ہمت ہار جاتی ۔اب کے تو اسکے شوہر نے حد ہی کر دی۔ الماری سے اس...
اردو افسانہ درد کے موسم

اردو افسانہ درد کے موسم

افسانے
انجم قدوائی جھیل کے پانی پر چنار کے زرد پتے تیر رہے ہیں اور پہاڑ خوف زدہ سانس روکے کھڑے ہیں۔کبھی یہی پہاڑ برف کا سہارا لے کر ایک دوسرے سے ہم آغوش ہوتے ، تو کبھی ہرے سنہرے سرخ اور زرد پتوں والے درخت شاد ہو کر جھومتے، سیب ، انگور اور اخروٹ کی ٹہنیاں فضا میں خوشبوئیں بکھیرتیں،  زعفران کے کھیت ہنستے اور شکاروں کے سائے جھیل میں گد گدی پیدا کرتے۔ رنگین پرندوں کی چہچہاہٹ فضا میں نغمگی بکھیر دیتی۔ موسم بدلتا تو پوری وادی مہمانوں کی خاطر میں لگ جاتی شکاروں پر نئے پردے لگا ئے جاتے۔سڑکوں پر دور دور سے آئے ہوئے قافلے ہنستے کھلکھلاتے تمام قدرتی منا ظر سے مبہوت ہوکر شاد ہوجاتے ۔بلند وبالا پہاڑوں پر جمی شفّاف برف کے سائے میں تصویریں اتُاری جاتیں یادگار کے طور پر ڈھیروں سامان خریدا جاتا ۔اگر برف باری ہوجاتی تو گویا قافلوں کی قسمت کھلُ جاتی وہ ان حسین نظاروں کو دل میں چھپُا لیتے ۔خوش وخرم ن...
بہاول پور میں اجنبی   میں شامل افسانوں کا جائزہ -تبصرہ نگار رخسانہ افضل

بہاول پور میں اجنبی   میں شامل افسانوں کا جائزہ -تبصرہ نگار رخسانہ افضل

ادیب, افسانے, تبصرے, سیر وسیاحت, کتاب, ہماری سرگرمیاں
کتاب : بہاولپور میں اجنبی مصنف : مظہراقبال مظہر تبصرہ نگار  :  رخسانہ افضل- کراچی یہ کتاب بہاولپور کی محبت میں رچی بسی ہے۔ لفظ لفظ بہاولپور کی محبت سے مہک رہا ہے۔ کتاب کا سرورق بہت خوبصورت اور طباعت بہت دیدہ زیب ہے۔ جیسا کہ شمس رحمان نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ" کتاب کا انداز تحریر اس خصوصیت کا حامل ہے کہ اس میں باتوں کو "لمکایا" نہیں گیا بلکہ جلدی جلدی بتا کر اگلے موڑ، اگلی گلی، اگلے بازار، اگلے تاریخی واقعے، اگلے یونیورسٹی کے شعبے، میوزیم، مسجد، لائبریری اور کسی نئے بہاولپوری کی کسی نئی بات کی طرف سفر جاری رہتا ہے"۔ اس کتاب میں غیر ضروری طوالت سے احتراز برتا گیا ہے۔ جگہ جگہ میٹھی سرائیکی زبان کا تڑکا بھی مزہ دیتا ہے۔ "بہاولپور کے اجنبی" نے ہمیں بہاولپور کی خوب سیر کروائی، تانگے کی سیر کروائی، ایک بھولا بسرا گانا بھی یاد کروا دیا ٹانگہ لہور دا ہووے پاویں چہنگ دا ...
بہاولپور میں اجنبی-ایک جائزہ/ نوید ملک-اسلام آباد

بہاولپور میں اجنبی-ایک جائزہ/ نوید ملک-اسلام آباد

ادیب, افسانے, تبصرے, سیر وسیاحت, کتاب, ہماری سرگرمیاں
نوید ملک-اسلام آباد سفر نامہ نگار مبصر ہوتا ہے۔مبصر بصارت کے ساتھ بصیرت بروئے کار لاتے ہوئے کائنات کے آئنے میں ایسے عکس تلاش کر کے انھیں لفظی پیکروں میں ڈھالتا ہے جو عام انسانوں کو نظر نہیں آتے۔سفر نامہ ایک طرف ذاتی تجربات کی روشنی میں کائنات کا مطالعہ ہے تو دوسری طرف رویوں کا نفسیاتی تجزیہ بھی ہے۔ایک پلیٹ فارم پر مجھ سے ایک دوست نے سوال کیا کہ سفر نامہ پڑھنے کی ضرورت دورِ جدید میں کیونکر ہو؟۔سوشل میڈیا نے دنیا کے کونے کونے کے مناظر آنکھوں میں قید کر لیے ہیں۔ جو چیز ہم اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں ان کےبارےمیں پڑھنےکی کیاضرورت ہے۔میرا جواب تھا:"ویڈیو مناظر دکھا سکتی ہیں مگر کیفیات نہیں۔سفر نامہ نگار تودراصل الفاظ کے ذریعے کیفیات سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے اور قاری انھیں محسوس کرتا ہے ، حظ اٹھاتا ہے" پریس فار پیس فاؤنڈیش کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والے سفر نامے"بہاولپور میں اجنبی" نے مجھے چ...
جیت / کرن عباس کرن

جیت / کرن عباس کرن

افسانے
کرن عباس کرن کرن عباس کرن ﺪﯾﺪ ﺳﺮﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺣﺴﯿﻦ ﻭﺍﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﺭ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻣﻮﺳﻢ ﺣﺴﻦ ﮐﮯ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻧﻔﺮﺍﺩﯼ ﺣﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﮕﺮ ﺑﮩﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺟﻨﺖ ﮐﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮧ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ۔ ﺑﮩﺎﺭ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﺭﻭﻧﻘﯿﮟ ﻟﻮﭦ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺧﺎﻟﯽ ﺗﻨﮩﺎ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﭘﮧ ﭘﺘﮯ ﻟﻮﭦ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮩﺎﺭ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﺮﻭﺗﺎﺯﮦ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﺳﻨﮩﺮﯼ ﮐﺮﻧﯿﮟ ﺟﺐ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﮔﮭﺎﺱ ﭘﺮ ﭘﮍﺗﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﻭﺡ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺯﮔﯽ ﺍﺗﺮ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺴﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﺑﮩﺘﮯ ﻧﺪﯼ ﻧﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﮔﮩﺮﮮ ﻧﯿﻠﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﺭ ﻣﭽﺎﺗﮯ، ﻧﻐﻤﮯ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﺎ ﻋﮑﺲ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺫﯼ ﺷﻌﻮﺭ ﮐﻮ ﻣﺪﮨﻮﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻣﻨﺎﻇﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﯾﻠﯽ ﺁﻭﺍﺯﻭﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﺩﯾﺪﻧﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺩﺭﻧﺎﺏ ﺻﺒﺢ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﮩﻞ ﻗﺪﻣﯽ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﮍﯼ ﺑﮍﯼ ﺳﯿﺎﮦ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﺠﯿﺐ ﺍﻟﺠﮭﻦ ﺗﮭﯽ۔ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ...
بہروپ / تحریر قراۃالعین عینیؔ

بہروپ / تحریر قراۃالعین عینیؔ

افسانے
قراۃالعین عینیؔ الف اللہ  ،چنبے دی بوٹی میرے من وچ مرشد کامل لائی ھو ’’بابا یہ حضرت انسان کے آخر کتنے بہروپ ہوتے ہیں ؟۔پیاز کی طرح ایک تہہ اُتارو تو دوسری نکل آتی ہے پہلی سے زیادہ بدبو دار،دنیا کے سب سے مشکل روبیک کیوب کی طرح، ایسا نگ جو ہر نئی  کرن پڑنے پر نئے رنگ کی چمک دیتا ہے۔کیسے سمجھیں انسان کو بابا؟؟؟‘‘۔ مرشد مسکرائے  جیسے میرے ہر سوال کا جواب جانتے ہوں۔ ’’سائیں ہمیشہ یہی بات دل  میں چھبتی ہےکہ میں جو ہر روز ایک نیا بہروپ دھار لیتا ہوں ،اصل میں کون ہوں؟ کیا ہوں؟ جب میں خود سے سوال کروں  تو کوئی جواب نہیں آتا۔اپنا آپ خالی برتن جیسا لگتا ہے جو  بھرے سےزیادہ شور کرتا ہے۔ ہر روز  دنیا میں کامیابی  حاصل کرنے کے لیئے ایک نیا  بہروپ دھار لیتا ہوں۔ خوشی کی خاطر، دنیا کو راضی کرنے کی خاطر، سائیں دنیا راضی  ہو جائے یا کامیابی م...
جنت کے مکین- تحریر۔ پروفیسر رضوانہ انجم

جنت کے مکین- تحریر۔ پروفیسر رضوانہ انجم

افسانے
پروفیسر رضوانہ انجم پہاڑوں کے سینے پر سر سبز روئیدگی حیات بن کر سانس لے رہی تھی۔ڈھلانوں پر دھان کے کھیت کچے چاول کی خوشبو سے مہک رہے تھے۔مونسون ہوائیں سیاہ مدھ بھرے بادلوں کے بوجھ سے وادیوں میں دھیرے دھیرے اتر رہی تھیں،پھیل رہی تھیں۔ ہواؤں میں بارش کی بوندوں کی سگندھ تھی،خنکی تھی۔۔۔۔وادیوں میں گونجتی،روح کو بالیدہ کرتی خاموشیاں تھیں۔۔۔۔۔۔من تھا کہ میور بنا کوک رہا تھا۔۔۔ناچ رہا تھا۔۔۔۔جھوم رہا تھا۔۔۔۔ فوٹو گرافر نے ہر زاوئیے سے فطرت کے بدمست،الہڑ حسن کو قید کر لیا۔۔۔۔۔اور سوچا، "کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس جنت ارضی میں بستے ہیں،پوری زندگی گزارتے ہیں اور پھر انھیں منظروں کے بیچ دفن ہو جاتے ہیں۔" دھان کے کھیت میں جھکے بوڑھے کسان نے سارے دن کی مشقت کے بعد بمشکل کمر سیدھی کی۔کھیت سے نکل کر ایک کچی منڈیر پر بیٹھ کر بیڑی سلگائی اور چادر کے کونے سے پسینہ پونچھنے لگا۔ فوٹوگرافر ...
بار وفا—تحریر : پروفیسر رضوانہ انجم

بار وفا—تحریر : پروفیسر رضوانہ انجم

افسانے, کہانی
پروفیسررضوانہ انجم مہرو نے زبیر احمد کی بریل پر پھسلتی سانولی انگلیوں کو دلچسپی سے دیکھا۔وہ تیس نابینا بچوں کو لائیبریری کے پیریڈ میں بریل سے کہانی پڑھ کر سنا رہا تھا۔درمیانے سائز کے کمرے میں اسکی مردانہ آواز کا اتار چڑھاؤ،جملوں کی ادائیگی،تلفظ ایک چھوٹے سے جادو کی طرح بچوں کو متحئیر کر رہا تھا۔تیس بے نور آنکھوں والے بچوں کو جنکا نہ تصور تھا نہ تخئیل۔۔۔پرستان کی سیر کرانا بہت مشکل کام تھا۔وہ آنکھیں جنہوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھے تھے انھیں سبز مخملیں گھاس،نیلے پانیوں والی جھیلوں،ہیرے جواہرات کے پھلوں سے لدے درختوں،درختوں پر کوکتے خوش رنگ پرندوں اور آسمان سے چھم چھم اترتی گلابی،سنہری،کاسنی پروں اور لباس والی پریوں کی لفظی تصویریں دکھانا بے حد مشکل تھا۔۔۔ لیکن مہرو کو لگا کہ درمیانے قد کاٹھ کے مالک اور لگ بھگ چالیس سالہ زبیر احمد کو اس فن میں کمال حاصل تھا۔۔۔۔ شاید وہ کمرے کے درو...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact