افسانچہ: ذائقہ / تحریر: ساجدہ امیر
تحریر: ساجدہ امیر” درد کی شدت ایسی ہوتی ہے کہ چیخا بھی نہیں جاتا، روم روم جھلس جاتا ہے، آنگ انگ ٹوٹنے لگتا ہے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے سب کچھ دھندلا سا دکھائی دینے لگتا ہے۔ پاؤں سے وجود بےجان ہونا شروع ہوتا ہے۔ لذت ایسی کہ روح کانپ جائے؛ بہت سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو فقط سامنے پڑے اس وجود کو ہی نظر آتی ہیں۔“” کیا اتنا تکلیف ہوتی ہے؟“ ائزل نے خوف سے پوچھا۔” درد کی شدت لفظوں سے بیان کرنا اور بات ہے لیکن جب وہ وقت آتا ہے تو اصل تکلیف کیا ہوتی ہے تب معلوم ہوتا ہے۔“ سامنے بیٹھی سیرت نے جواب دیا۔ ائزل کی روح ڈر کے مارے کانپ سی گئی۔” اس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے؟“ نم آنکھوں سے دیکھا۔” پتا نہیں، اس کا جواب وہی دے سکتا ہے جس نے اسے چکھا؛ لیکن جو چاہتا ہے وہ اس لائق رہتا ہی نہیں کہ بتا سکے کہ کیا ہوتا ہے۔“پورا کمرہ اندھیرے کی لپٹ میں تھا، لیکن روشنی کی کرن بس ایک طرف سے آ رہی تھی جہاں سے کھڑکی تھی ...