Tuesday, May 21
Shadow

Tag: محبت

شب گزیدہ سحر

شب گزیدہ سحر

شاعری, غزل
/شاعر: صفیؔ ربانی آج  تک  ہم  نے  دیکھی   نہیں وہ سحرجس سحر کے لیے کٹ گئے گھر کے گھررہنما  لوٹ   کر  لے   گئے   قافلےاہلِ  دانش   کھڑے  دیکھتے  رہ  گئےظلم  حاکم  کے  ہم  پہ  روا  آج بھیہم  وطن کے  لئے ہر  ستم  سہ گئےکرگسوں  کی  چمن  پر  حکومت رہیہر  گلی  ہر   نگر  میں   رعونت  رہیفاختہ      کا      نشیمن       جلایا    گیاقمریوں  کے  لیے بھی  قیامت  رہیدور   بدلے   کئی  پر  نہ  بدلے  ستماپنی  قسمت  رہے  گولیاں    اور  بمکس سے مانگیں...
آٹھ آنے کی کہانی

آٹھ آنے کی کہانی

افسانے
سید شبیر احمد ستر کی دیہائی کے آخری سالوں میں آزاد کشمیر کے اس چھوٹے سے قصبے کی برانچ میں بطور مینیجر میری پوسٹنگ ہوئی تھی۔ مجھے چارج لئے ابھی ایک ہفتہ ہوا تھا کہ میں برانچ کے دو تین بڑے کھاتہ دار دکانداروں سے ملنے اپنے سپروائزر کے ساتھ بازار میں آیا۔ ایک دکان سے جیسے ہی ہم باہر نکلے تو وہ اچانک میرے سامنے آ گیا اور ہاتھ پھیلا دیا۔ آٹھ آنے ہوں گے۔ میں اسے دیکھ کر ایک دم گھبرا گیا۔ دھول سے اٹے جھاڑجھنکار سر کے لمبے لمبے بال اور اسی سے ملتی کھچڑی داڑھی۔گندے لمبے ناخن، میل سے سیاہ ہاتھ و چہرا۔ مٹی سے اٹے ہوئے سیاہی مائل کپڑے۔ میں اچانک اسے سامنے پا کر ششدرہو کر کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر دوسری طرف مڑ گیا۔ سپر وائزر نے بتایا، سر جی یہ پاگل سا آدمی ہے، ایسے ہی پیسے مانگتا رہتا ہے۔ لیکن کسی کو کہتا کچھ نہیں ہے۔ ہم پھر دوسری دکان کی طرف چل دیے۔ اس کے بعد اکثر وہ آتے جا...
مسئلہ کشمیر اور ہمارے دانشور ادیب

مسئلہ کشمیر اور ہمارے دانشور ادیب

ادیب, دانشور, شخصیات
  پروفیسر فتح محمد ملک صاحب طرز انشاءپرداز اشفاق احمد کے ایک افسانے کی مرکزی کردار مظلوم کشمیری لڑکی شازیہ اُردو کے نامور ادیبوں اور شاعروں کے پاس یکے بعد دیگرے جاتی ہے اور ان میں سے ہر ایک کی خدمت میں کشمیری مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ پیش کرتی ہے ۔ مگر سارے کے سارے ادیب کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کے پاس اپنا اپنا بہانہ ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک کوئی کہتا ہے کہ “میری لائن انسان دوستی ہے سیاست نہیں”کوئی کہتا ہے کہ “یہ میری فیلڈ نہیں ہے میں گرامر،عروض اور ساختیات کا سٹوڈنٹ ہوں”۔یہ لڑکی ستیاجیت رائے اور گلزار جیسے فلم سازوں کے پاس بھی کشمیریوں کی مظلومیت کی فریاد لے کر جاتی ہے۔ مگر یہ لوگ بھی اس کی بات سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔بالآخر یہ لڑکی افسانے کے واحد متکلم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ...
غزل، محبوب احمد کاشمیری

غزل، محبوب احمد کاشمیری

شاعری, غزل
 ڈاکٹر محبوب احمد کاشمیری باہر کتنی سرد ہوا  ہے  ، کھڑکی  کھول  کے  دیکھآوازوں پر برف جمی ہے، بےشک بول کے دیکھجیون  کے برتن  میں کم  ہو سکتی  ہے  کڑواہٹاس  میں اپنے  لہجے کی  شیرینی  گھول  کے  دیکھاندھی  دنیا  کے  کہنے  پر  یوں  بےوزن  نہ  ہواپنی نظروں میں  بھی خود  کو  پورا  تول  کے  دیکھگہری فکر میں ڈوبی ہوئیں بوڑھی آنکھوں کو  پڑھپھیلے ہوئے ہاتھوں کو تھام ،  آنسو کشکول کے دیکھپتھر کے بھی سینے بھی دل ہوتا ہے ، اچھے دوستمیرا حال بھی پوچھ مرے بھی درد پھرول کے دیکھہاتھ میں ہے محبوب کا ہاتھ  تو  کیا گرنے کا خوفتھوڑی  دور تو چل ، دوچار  قدم  تو ڈول کے دیکھ|| ڈاکٹر محبوب احمد کاشمیری || ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact