Sunday, May 12
Shadow

Tag: books in urdu

جنگل کہانی بقلم تسنیم جعفری  | تبصرہ نگار| ہانیہ ارمیا

جنگل کہانی بقلم تسنیم جعفری | تبصرہ نگار| ہانیہ ارمیا

تبصرے
ہانیہ ارمیا رسائل اور کتب کے ملتے ہی میرا خود سے وعدہ ہوتا ہے کہ کتاب یا رسالہ مکمل ہوتے ہی پہلی فرصت میں اس پہ تبصرہ کروں گی، مگر ہر بار قلتِ وقت کے باعث ایسا ممکن ہی نہ ہوا۔ کچھ میرے قلم کا مزاج بھی آج کل سیاسی رنگ میں رنگا ہوا ہے، کالمز لکھنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ اس لیے تبصرہ ہر بار قلم اور کاغذ کا انتظار کرتا ہی رہ جاتا ہے۔ مگر آج مصمم ارادہ کیا ہے میم تسنیم جعفری کی بےمثال کہانیوں کے مجموعہ "جنگل کہانی" پہ تبصرہ لکھنا ہی لکھنا ہے۔ اور یہ میرے لیے اعزاز ہے کہ تسنیم آپی جیسی قابل لکھاریہ کی تحریر پہ میں کچھ لکھ پاؤں۔ ان کے متعلق ادب اطفال سے وابستہ ہر ادیب و شاعر یہ ضرور جانتا ہے کہ آپ بہت مخلص، ادیب دوست، نرم فطرت رکھتی ہیں، نئے لکھنے والوں کے لیے راہیں ہموار کرنا اور ادب کی خدمت آپ کے مزاج کا خاصہ ہے۔ میری خوش نصیبی ہے کہ میں میم کی کتاب کی ستائش میں کچھ لکھ سکوں۔ "جنگل کہانی" پ...
بھمبر| حسین نظاروں کی سرزمین| تحریر : خالدہ پروین

بھمبر| حسین نظاروں کی سرزمین| تحریر : خالدہ پروین

سیر وسیاحت
تحریر : خالدہ پروین           بھمبر۔۔۔شہر      مشرق ،مغرب اور شمال کی جانب سے نچلے درجے کی پہاڑیوں میں گھرا بھمبر شہر آزاد کشمیر کا ایک تاریخی مقام ہے ۔یہ پنجاب کے شہر گجرات سے 48 کلومیٹر اور میرپور آزاد کشمیر سے 50 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے ۔شہر کے تین اطراف سے بھمبر برساتی نالہ (پتن) چکر کاٹ کر گذرتے ہوئے وزیر آباد کے قریب دریائے چناب میں شامل ہو جاتا ہے ۔ بھمبر سے جموں 70 کلومیٹر جبکہ سری نگر 150 کلومیٹر میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔                تاریخ          ماضی میں بھمبر ایک آزاد اور خودمختار ریاست اور بعد ازاں کشمیر کی باج گزار ریاست بھی رہی ہے ۔اس ریاست کا تاریخی نام "چبھال" تھا جس کی حدود کھڑی ،جہلم،کھاریاں اور گجرات تک پھیلی ہوئی تھیں ۔بھمبر پر چِب راجپوت حکمرانوں نے بڑے شاہانہ انداز سے حکومت کی ۔یہاں کا آخری مسلمان حکمران را...

انجانی راہوں کا مسافر | تبصرہ نگار| مفتی یاسر علی کیانی

تبصرے
 مفتی یاسر علی کیانی (ایم فل سکالر) جہلم ویلی آزاد کشمیر                     پروفیسر امانت علی صاحب کا تعلق جہلم ویلی سے ہے اور جہلم ویلی میں خصوصیت کے ساتھ اور باقی دنیا میں عمومیت کے ساتھ کتاب دوستی علم وفن سے حقیقی آشنا بہت کم افراد اب معاشرے کو میسر ہیں۔جہلم ویلی جہاں سے جناب پروفیسر صاحب کا تعلق ہے  میں گنے چنے افراد ہی ایسے ہیں جنہیں کتاب دوستی کا شغف ہے ورنہ اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ اہل دانش وخرد بھی ٹیکسٹ بکس کے سوا کتابوں کو دیکھنا مناسب نہیں سمجھتے۔بہرحال قحط الرجال اور مشینی اثرات سے مغلوب دورموجود میں پروفیسر صاحب کی کتاب کا زیور طبع سے آراستہ ہوکر سامنے آنا ایک بڑا کارنامہ ہے۔جس پر وہ اہلیانِ جہلم ویلی کی طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔      &nbs...
انجمن پنجاب کے مشاعرے

انجمن پنجاب کے مشاعرے

آرٹیکل
تحریر : فرہاد احمد فگار                اورنگ زیب عالم گیر کے انتقال (1808ء)کے بعد مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوگیا۔ جب انگریزوں کی حکومت شروع ہوئی تو پنجاب کی ترقی میں انگریزوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1842ء میں لاہور اور دہلی میں گورنمنٹ کالج قائم کیے گئے۔ ڈاکٹر جی ڈبلیو لائیٹر کو گورنمنٹ کالج لاہور کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔ ڈاکٹرلائیٹر نے کرنل ہالرائیڈ (جو اس وقت کے سرشتہ تعلیم کے منتظمِ اعلا تھے)کے مشورے سے 21 جنوری 1845ء کو ”انجمن پنجاب“ قائم کی۔ ڈاکٹر لائیٹر کو اس انجمن کا صدر منتخب کیا گیا۔ انجمن کا پورا نام”انجمن اشاعتِ مطالب مفیدہ پنجاب“ رکھا گیا اور اس کے تحت مجموعی طور پر دس شاعرے کروائے گئے۔               عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان جدید مشاعروں کے بانی مولاناآزادؔ تھے اور انھوں نے بہ طور خود اس کی بنیاد ڈالی لیکن واقعات سے اس کی تائید نہیں ہوتی امرواقعہ یہ ہے کہ ان مش...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact